12 مئی 2007 کا سیاہ دن!

نبیل

تکنیکی معاون
12 مئی 2007 کو کراچی میں معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کراچی میں داخلے کے راستے مسدود کرنے کے لیے ایم کیو ایم نے اپنے روایتی فاشسٹ رویے کا ثبوت دیا اور پورے شہر میں بے دریغ خون کی ہولی کھیلی۔ اب یہی جماعت ایک مرتبہ پھر سندھ میں حکومت حصہ بن کر احتساب سے بچی ہوئی ہے۔ کل 12 مئی کے موقعے پر ٹی وی پر ایم کیو ایم کی 12 مئی کے "شہدا" کے لیے تقریب دکھائی گئی۔ لوگ ان شہدا کی ارواح کو ایصال ثواب کے لیے کھجور کی گٹھلیوں پر کچھ پڑھ رہے تھے۔ ایسا منافقت اور جھوٹ کا شاہکار شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے گا۔ یہ تو اس طرح ہوگا کہ جرمنی کی ناتزی پارٹی یہودیوں کی نسل کشی کی مذمت میں تقاریر کر ہی ہو۔ ایم کیو ایم کا اصرار ہے کہ اس کے 14 کارکن مرے تھے، بالکل اسی طرح جیسے 9 اپریل 2008 کو 6 افراد کو زندہ جلا کر انہیں متحدہ کا کارکن قرار دے دیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اس پر بات کرنا بھی فضول ہے اور اس سے ملک کی سلامتی پر زد پڑتی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: مدرز ڈے اور 12 مئی، بی بی سی اردو

کل گیارہ مئی تھی اور آج بارہ مئی ہے۔ کل تمام دنیا میں ماؤں کا عالمی دن تھا اور آج کراچی میں ماؤں کے بچوں اور خوابوں کے قتل عام کا نشانہ بننے والوں کی یاد کا دن

'بچوں پہ چلی گولی
ماں دیکھ کر یہ بولی
کیوں چند لٹیروں کی
پھرتے ہو لیے ٹولی
اس ظلم سے باز آؤ
بیرک میں چلے جاؤ'
حبیب جالب نے تو جیسے مدرز ڈے اور بارہ مئی جیسے واقعے کو ایک جگہ ملا دیا۔
فوجی ڈکٹیٹر نے اسلام آباد میں بلٹ پروف شیشے کے پیچھے ایک ٹانگ پر ناچ کیا اور کراچی کے قتل عام کو عوامی طاقت کے اظہار سے تعبیر کیا۔
الطاف حسین نے اسے ایم کیو ایم کے خلاف بہت بڑی سازش قرار دیا کہ یہ عدم تشدد میں یقین رکھنے والی ایم کیو ایم کے معصوم و مظلوم کارکن نہیں تھے پر متحدہ کے جھنڈے اٹھائے ان کے بہروپ میں کوئي اور قاتل ٹولے تھے جو اس دن کراچي کی سڑکوں پر آدم بو آدم بو کرتے پھرتے تھے!
مجھے جیکب آباد کا وہ نواز کنرانی بھی یاد آتا ہے جو سندھی عوامی تحریک کا کارکن تھا اور اپنی بیٹیوں سمیت کراچی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری کے استقبال کو گیا تھا کہ دہشتگردوں کی گولیوں کا لقمہ بنا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ نواز شریف، ایم کیو ایم کے کارکن، عام وکلاء اور عام شہری بھی بغیر کسی رنگ و نسل کے امتیاز کے گولیوں سے بار بی کیو ہوئے۔
سندھ حکومت میں انسانی حقوق کی وزارت ایم کیو ایم کو دے دی گئي ہے۔ امن کا نوبیل پرائیز آصف علی زرداری اور الطاف حسین کو مشترکہ ملنا چاہیے۔
منزل ان ہزاروں بیٹوں اور بیٹیوں کو نہیں ملی جنکی ماں نے پاکستان میں جمہوریت کے لیے قذافی سٹڈیم لاہور میں پولیس کی لاٹھیوں سے اپنا سر لہو لہان کروایا تھا پر منزل انہیں ملی جنہوں نے اس ماں کی جھوٹی تصاویر پورے پنجاب میں بانٹی تھیں۔ ہیپی مدرس ڈے بیگم نصرت بھٹو!
'چھین لے مجھ سے حافظہ میرا' کہ یہاں ڈراکولا بلڈ بنک کا رکھوالا ہے۔
بارہ مئی کو کیا ہونا تھا جب منصفوں کا مقدر ملزموں کے ہاتھ میں ہو۔​
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: بارہ مئی: سال بھر سے رکا ہوا دن ، بی بی سی اردو

گزشتہ سال بارہ مئی کو جو کچھ ہوا اسے ہزاروں آنکھوں نے دیکھا مگر سرکاری طور پر یہ معاملہ بظاہر ایک ’بلائنڈ کیس‘ لگتا ہے۔

بارہ مئی کو سپریم کورٹ کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی کراچی آمد کے موقع پر شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔جس میں چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

اسی روز اپوزیشن جماعتوں نے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے استقبال کے لیے جلوس نکالے جبکہ اس وقت کی حکومت میں شامل جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے بھی عدلیہ کی آزادی کے لیے شہر بھر سے ریلیوں کا انعقاد کیا۔

بعد میں سامنے آنے والے محکمہ داخلہ کے سیکیورٹی پلان میں آگاہ کیا گیا تھا کہ اس روز سڑک پر بم دھماکوں، خودکش بم حملوں سمیت گروہوں میں تصادم کا خطرہ ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر پولیس اہلکاروں کو غیر مسلح کرکے تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فیصلہ اس سیکیورٹی پلان میں بھی درج ہے۔

اس ہنگامہ آرائی میں ہلاک ہونے والے چالیس کارکنوں کو عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے اپنا ہمدرد اور کارکن قرار دیا تھا۔

حکومت کی جانب سے اس واقعے کی کوئی تحقیقات نہیں کرائی گئیں اور اس سلسلے میں اس وقت کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کا کہنا تھا کہ بارہ مئی کو مختلف سیاسی جماعتوں کی ریلیوں کے ایک جگہ اکٹھا ہونے پر جھگڑا ہوا اس لیے اگر اس میں ملوث ہیں تو سبھی ملوث ہیں۔

مزید پڑھیں۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
واقعی منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے۔۔۔۔ کل 12 مئی کو آج ٹی وی چینل پر طلعت حسین نے اسی سلسلے میں انتہائی جامع پروگرام پیش کیا۔۔۔ سیاست میں کس طرح حالات و واقعات کو اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔۔ لاشوں پر سیاست کس طرح کی جاتی ہے اور حاکمِ وقت کے لہجے سے فرعونیت کیسے جھلکتی ہے ۔۔سب کچھ اس ایک گھنٹے کے پروگرام میں شامل تھا۔۔۔

http://pkpolitics.com/2008/05/12/live-with-talat-12-may-2008/
 
Top