”متلازم“ کیا ہوتا ہے؟

اردو انسائکلوپیڈیا کے مطابق


مُتَلازِم {مُتَلا + زِم} (عربی)
ل ز م، لازِم، مُتَلازِم
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ 1900ء کو "غربی طبیعیات کی ابجد" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی
معانی

1. ایک دوسرے کے لیے لازم، باہم لازم و ملزوم۔
"لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے متلازم (لازم و ملزوم) ہیں۔"،

رابطہ
 

انتہا

محفلین
اردو انسائکلوپیڈیا کے مطابق


مُتَلازِم {مُتَلا + زِم} (عربی)
ل ز م، لازِم، مُتَلازِم
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ 1900ء کو "غربی طبیعیات کی ابجد" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی
معانی

1. ایک دوسرے کے لیے لازم، باہم لازم و ملزوم۔
"لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے متلازم (لازم و ملزوم) ہیں۔"،

رابطہ
بہت شکریہ محمدعمرفاروق بھائی، اگر اس کے استعمال کی کچھ مثالیں مل جائیں، دو تین ایسے جملے جس میں یہ معلوم ہو کہ یہ دو الفاظ”متلازم“ ہیں یعنی ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم۔
 

باسم

محفلین
بوائز ہاسٹل کے کمرے کے دروازے پر لکھا یہ شعر
یار لوگوں نے دوست کے غائب ہونے کا کیا خوب بدلہ لیا ہے
ہواؤں سے اس کا پتہ پوچھ لیں گے
مہک ساتھ ہوگی جہاں بھی گیا ہوگا
یہاں "مہک اور وہ" متلازم ہیں :p
 
اردو انسائکلوپیڈیا کے مطابق


مُتَلازِم {مُتَلا + زِم} (عربی)
ل ز م، لازِم، مُتَلازِم
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ 1900ء کو "غربی طبیعیات کی ابجد" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی
معانی

1. ایک دوسرے کے لیے لازم، باہم لازم و ملزوم۔
"لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے متلازم (لازم و ملزوم) ہیں۔"،

رابطہ
بہت شکریہ محمدعمرفاروق بھائی، اگر اس کے استعمال کی کچھ مثالیں مل جائیں، دو تین ایسے جملے جس میں یہ معلوم ہو کہ یہ دو الفاظ”متلازم“ ہیں یعنی ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم۔
السلام و علیکم

مفہوم متلازم پیش خدمت ہے

لفظ متلازم عربی زبان میں ثلاثی مزید فیہ بے ہمزہ وصل کے باب تفاعل سے اسم فاعل ہے جیسے بطور صفت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس باب کی ایک خاصیت تشارک ہے یعنی اس باب کا فعل Word دو اسماء Nouns کے مابین اشتراک کرنے والا ہوتا ہے متلازم کا مصدر تلازم ہے یعنی باہم لازم ہونا اور متلازم اسم فاعل ہے تو اس کا معنیٰ ہے باہم لازم ہونے والے یعنی لازم ہونے میں دونوں شریک ہیں جیسے آگ اور دھواں متلازم ہیں (آگ جلے گی تو لازما دھواں بھی ہوگا)۔ بھوکا رہنا اور کمزوری متلازم ہیں (بھوکے رہو گے تو لازما کمزوری بھی آئے گی)۔ ظلم اور پکڑ متلازم ہیں (ظلم کرو گے کے تو لازما پکڑ بھی ہو گی)۔ خلوص اور قبولیت متلازم ہیں (اخلاص اختیار کرو گے تو لازما قبولیت بھی ہو گی)

ایسی طرح باب تفاعل سے

تقاتل مصدر اور اسم فاعل متقاتل یعنی باہم قتال کرنا (ایک دوسے کو مارنا)
تبادل مصدر اور اسم فاعل متبادل یعنی باہم بدل (الگ الگ) ہونا (برعکس)
تبارک مصدر اور اسم فاعل متبارک یعنی باہم برکت ولا ہونا (برکت والی چیز کے سبب برکت والا ہونا)

مزید تفصیل کے لیے علم صر ف کی کتب ملاحظہ کی جا سکتیں ہیں
عارف مقصود مسافر چند روزہ
 

فلک شیر

محفلین
ایک اور مثال:
جن کے بغیر جی نہیں سکتے تھے، جیتے ہیں​
بس طے ہواکہ لازم و ملزوم کچھ بھی نہیں​
 
ادبی تنقیدی گفتگو میں ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے: ’’تلازمہ‘‘
اس میں لازم و ملزوم والی صورت کا اپنی حتمیت کے ساتھ واقع ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا، تاہم یہ ضرور ہے ہوتا ہے کہ باہم بہت قریبی تعلق رکھنے والے اسماء، افعال وغیرہ پر اس کو لاگو کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے:
کوئی ابر تھا، کہ وہ جھیل تھی، کہ سراب تھا​
سو بتائیے، کہیں پائیے جو سراغِ دل​
اس شعر میں تلازمہ اور استعارہ دونوں بیک وقت پائے جاتے ہیں۔ ابر زلفوں کے لئے، جھیل آنکھوں کے لئے اور سراب مسکراہٹ کے لئے؛ کہ دل انہیں میں سے کہیں گم ہو گیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں دل کا سراغ، پانا اور بتانا باہم متلازم ہیں۔
وہ نگاہِ ناز ہے مہرباں، رہے احتیاط​
اے وفورِ شوق! چھلک نہ جائے ایاغِ دل​
نگاہِ ناز، اس کا مہربان ہونا، دل کا اس کی طرف امڈنا، شوقِ وصال، اس کا وفور، دل کی پیالے سے تشبیہ اور اس کا چھلک جانا، احتیاط کی تلقین، یہ سارے عناصر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

فی الحال یہی کچھ، مزید بات چلی تو بات ہو گی، ان شاء اللہ۔
 
ضمناً ’’السلامُ علیکم‘‘ پر پہلے سے موجود ایک گزارش کا اعادہ:


السلام علیکم ۔۔

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ۔ یہ درست ہجے ہیں۔ اس میں لفظ سَلَامٌ پر ’’ال‘‘ تعریفی داخل ہوا تو ’’اَلسَّلَامُ ‘‘ بنا۔ مفہوم: ہر طرح کی سلامتی۔ عَلٰی حرفِ جر ہے، معروف معانی ’’پر‘‘ کُمْ (تم: جمع مذکر حاضر)۔ عربی کا اور قرآن مجید کا اسلوب بھی یہی ہے کہ جہاں بصورتِ دیگر تخصیص نہ ہو رہی ہو، جمع مذکر میں مذکر مؤنث دونوں شامل ہوتے ہیں۔ معنی ہوا ’’تم پر‘‘۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ (تم پر ہر طرح کی سلامتی ہو)۔ برصغیر میں یہ واحد، تثنیہ، جمع مذکر مؤنث سب پر محیط ہے، عرب معاشروں میں واحد، تثنیہ، جمع اور کہیں کہیں مذکر مؤنث کی تخصیص بھی ہوتی ہے۔ عربی کے جملہ اسمیہ میں فعل ناقص (ہونا) لفظاً واقع ہو یا نہ ہو، معناً از خود واقع ہوا کرتا ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ: اے مخاطب (مرد) تجھ پر ہر طرح کی سلامتی ہو۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمَا: اے مخاطبو (دو مرد) تم دونوں پر ہر طرح کی سلامتی ہو۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمَا میں مفہوم دونوں مرد، دونوں عورتیں یا ایک مرد ایک عورت بھی ہوتا ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ: اے مخاطبو (سارے مرد) تم سب پر ہر طرح کی سلامتی ہو۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ: اے مخاطب (عورت) تجھ پر ہر طرح کی سلامتی ہو۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُنّ: اے مخاطب (عورتو) تم سب پر ہر طرح کی سلامتی ہو۔

ایک معروف طریقہ یا لفظیات اور ہے: السلامُ کی جگہ سلامٌ (میم پر دو پیش)۔ اس صورت میں ’’ال‘‘ نہیں آئے گا، معانی میں ’’ہر طرح کی‘‘ شامل نہیں، باقی سب کچھ وہی ہے۔

ان دونوں کے علاوہ جتنی صورتیں ہمارے یہاں رواج پا چکی ہیں وہ محلِ نظر ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ مسنون اور معروف طریقے کے مطابق ’’السلامُ علیکُم‘‘ کہا کریں اور اس کا جواب ’’وَ علیکُم السلام‘‘ ہے۔ صرف ’’وَعلیکم‘‘ کہنا خاص مواقع سے مشروط ہے۔ تفصیل آگے آتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار اور منافقین نے مسلمانوں کا اذیت دینے کا ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ ’’السلام علیکم‘‘ کی لام حذف کر کے ’’السام علیکم‘‘ کہا کرتے (تم پر بربادی ہو)۔ صحابہ کرام نے یہ معاملہ دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا۔ ارشاد ہوا: ’’جواب میں کہہ دیا کرو: ’’وَ علیکُم‘‘ ( جو کچھ بھی تم نے کہا ہے وہ تمہیں پر واقع ہو)۔

کچھ غیر منطقی یا مہمل یا غلط سلط معانی والے الفاظ نقل کر رہا ہوں: السلام علیکم۔ اسلام و علیکم، السلام و علیکم، سام علیکم، السام علیکم، سلامالیکم، سامالیکم، ساماایکم، سام۔ ان سب سے سلام کہنے میں بھی اور جواب دینے میں بھی گریز کیا کریں۔

و ما توفیقی الا باللہ۔
 
تلازمے کے حوالے سے اقبال کا ایک شعر:
میں نوائے سوختہ در گلو، تو پریدہ رنگ رمیدہ بو​
میں حکایتِ غمِ آرزو، تو حدیثِ ماتمِ دلبری​
نوائے سوختہ در گلو (گلے میں جلی ہوئی آواز): وہ نغمہ جو گلے میں گھٹ کر رہ جائے​
پریدہ رنگ رمیدہ بو (جس کا رنگ اڑ گیا اور خوشبو بھاگ گئی): وہ پھول جو اپنی دل کشی یعنی رنگ اور خوشبو سے محروم ہو چکا​
حکایتِ غمِ آرزو (آرزو کے غم کی حکایت): اپنی آرزو کو بیان نہ کر سکنے کے دکھ کی داستان​
حدیثِ ماتمِ دلبری (دلبری کے ماتم کی بات): جس میں کوئی ادائے محبوبانہ باقی نہ رہی۔​
بہ ظاہر یہ ایک بلبل کا گل سے کلام ہے، معانی واضح ہو چکے۔ در حقیقت یہ شعر طالب و مطلوب کے حوالے سے تہ در تہ مطالب کا حامل ہے۔ تاہم اس وقت ہمارا موضوع لفظیات ہے، دیگر عناصر کا موقع نہیں۔​
 
دمِ زندگی، رمِ زندگی، غمِ زندگی، سمِ زندگی​
غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا، کہ یہی ہے شانِ قلندری​


دمِ زندگی: زندگی کا ہونا، سانس، وجود​
رمِ زندگی: زندگی کا دوڑنا، تیز رفتاری، عارضی ہونا​
غمِ زندگی: زندگی کا غم، فکرِ حیات​
سمِ زندگی: زندگی کے لئے زہر​
غمِ رم: زندگی کے عارضی ہونے کا غم​
سمِ غم: غم کا زہر​
۔۔ میرے مزید کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں، شعر کی لفظیات، صوتیات اور معانی و مطالب کو محسوس کیجئے، اور اس فقیر کو دعا دیجئے۔​
 
السلام و علیکم

مفہوم متلازم پیش خدمت ہے

لفظ متلازم عربی زبان میں ثلاثی مزید فیہ بے ہمزہ وصل کے باب تفاعل سے اسم فاعل ہے جیسے بطور صفت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس باب کی ایک خاصیت تشارک ہے یعنی اس باب کا فعل Word دو اسماء Nouns کے مابین اشتراک کرنے والا ہوتا ہے متلازم کا مصدر تلازم ہے یعنی باہم لازم ہونا اور متلازم اسم فاعل ہے تو اس کا معنیٰ ہے باہم لازم ہونے والے یعنی لازم ہونے میں دونوں شریک ہیں جیسے آگ اور دھواں متلازم ہیں (آگ جلے گی تو لازما دھواں بھی ہوگا)۔ بھوکا رہنا اور کمزوری متلازم ہیں (بھوکے رہو گے تو لازما کمزوری بھی آئے گی)۔ ظلم اور پکڑ متلازم ہیں (ظلم کرو گے کے تو لازما پکڑ بھی ہو گی)۔ خلوص اور قبولیت متلازم ہیں (اخلاص اختیار کرو گے تو لازما قبولیت بھی ہو گی)

ایسی طرح باب تفاعل سے

تقاتل مصدر اور اسم فاعل متقاتل یعنی باہم قتال کرنا (ایک دوسے کو مارنا)
تبادل مصدر اور اسم فاعل متبادل یعنی باہم بدل (الگ الگ) ہونا (برعکس)
تبارک مصدر اور اسم فاعل متبارک یعنی باہم برکت ولا ہونا (برکت والی چیز کے سبب برکت والا ہونا)

مزید تفصیل کے لیے علم صر ف کی کتب ملاحظہ کی جا سکتیں ہیں
عارف مقصود مسافر چند روزہ
اصلاح المثال در بیان مفہوم متلازم
عزیزی عارف مقصود آپ کی بیان کردہ امثال قابل اصلاح ہیں تلازم میں لزوم جانبیں میں یکساں ہوتا ہے نہ کہ یک طرفہ لزوم، جیسا کہ آپ نے مثال بیان کی:
"بھوکا رہنا اور کمزوری متلازم ہیں (بھوکے رہو گے تو لازما کمزوری بھی آئے گی)"
بھوک کی وجہ سے بھی کمزوری ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ کمزوری بھوک ہی کی وجہ سے ہو ممکن ہے کمزری کسی اور سبب ہو چناچہ اس امکان کی وجہ سے کمزوری بھوک کو لازم نہیں تو لزوم یک طرفہ ہوا لہٰذا متلازم کی یہ مثال غیر صحیح ہے
اس کی موزوں اور درست امثلہ میں بعض یہ ہیں
انسان اور ناطق، طلوع شمس اور وجود نہار(دن)، وحی و نبوت
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ایک جملہ کہیں پڑھا تھا ۔۔۔۔
ہم نے بہت سی صورتوں میں دیکھا ہے کہ دھواں آگ سے متلازم ہوتا ہے ۔۔۔
 
Top