”اسلامی تعلیم کی اہیمیت“

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
”اسلامی تعلیم کی اہیمیت“
آیئے ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے پہلی وحی پر غور کریں ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا انسان کو (نطفہ مخلوطہ) جمے ہوئے خون سے پڑھو اور تمہارا رب بڑا ہی کریم ہے (العلق)۔۔۔

اس پہلی وحی کا پہلا لفظ اقراءہے جسکا مطلب ہے پڑھو یہ نہایت مختصر مگر فصیح و بلیغ ہدایت ہے اس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے ماننے والوں کو نہ صرف پڑھنے کی تلقین فرمائی گئی ہے بلکہ ا س تعلیم پر غور و خوض کر کے عمل کرنے اور اسکو پھیلانے کی بھی تلقین کی گئی ہے اس پہلی وحی میں لفظ اقراء کا تکرار اس بات کا عکاس ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تعلیم و تربیت بہت اہم ہے اسی سورۃالعلق میں سیکھنے اور سکھانے کے طریقے کی بھی وضاحت کردی گئی ہے یعنی طبع و اشاعت کا ذریعہ قلم ہے قلم کی حقیقت میں اللہ کا ایک انمول نمونہ ہے جو کہ صرف بنی نوع انسان کیلئے مخصوص ہے پوری کائنات میں صرف انسان ہی کو یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو قلم بند کرتا ہے اور اپنے احساسات اور مافی الضمیر کو لکھتا ہے اسی وجہ سے انسان قدیم نکارشات سے فائدہ اُٹھاسکتا ہے اور خود ایسے تحریری کارنامے چھوڑ سکتا ہے جو آنے والی نسلوں کے کام آئیں۔

عزیزدوستوں!
تعلیم اور تبلیغ کا کام کب اور کہاں سے شروع ہونا چاہئے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر تعلیم و تبلیغ کو عام کرنے کیلئے مندرجہ ذیل پہلی وحی نازل ہوئی اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے:

تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرسنادو (الشعراء)

پس اسلامی تعلیم کا کام سب سے پہلے اپنے گھروالوں سے شروع ہونا چاہئے یہی طریقہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ۔ اسی طرح ایک اور جگہ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے ۔

اے ایمان والوں تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے ڈراو۔ (سورۃالتحریم)

اسی آیت کریمہ کو سننے پر صحابہ کرام راضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے کیسے بچائیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسلامی تعلیمات کے ذریعے۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیں پابندی سے نماز ادا کرنے اور ساتھ ہی اپنے گھروالوں کو اسکی تاکید کرنے پر زور دیتا ہے اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے

تم اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود اس کی پابندی کرو۔ (سورۃ طہٰ۔)

اسلامی تعلیم کو اپنے گھر والوں سے شروع کرنے میں بہت بڑی حکمت مخفی ہے چونکہ گھر والے ہمارے اخلاص اور دیگر اوصاف سے واقف ہوتے ہیں اس لئے وہ ہماری سنجیدگی سے سنیں گے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے اس طرح تعلیم کی بنیاد پختہ ہوگی اس کے برعکس باہر کے لوگوں پر اعتماد قائم کرنے میں دیر لگے گی اور اور وہ بے اعتنائی برتیں گے جبکہ گھر کے لوگ جان و مال سے مدد کریں گے۔

عزیز دوستوں!
ہمارے سلف صالحین نہ صرف خود تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے بلکہ یہ بھی چاہتے تھے کہ آئندہ نسلیں اسلامی تعلیم و تربیت سے مزین ہوں مثلا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مندرجہ ذیل دُعا:

اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرما بردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما تو توبہ قبول فرمانے والا رحم و کرم کرنے والا ہے (البقرہ)۔۔۔

پس ہمارے آباو اجداد کی زندگی کا مقصد علم حاصل کرنا اور اسے اپنی اولاد تک پہنچانا تھا تاکہ وہ بھی حقیقی طور پر اللہ کی اطاعت گذار بندے بن سکیں اسی لئے اوپر والی دُعا میں انہوں نے یہ حصہ بھی بڑھا دیا۔

اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیںپاک کرے یقینا تو غلبہ والا حکمت والا ہے (البقرۃ)۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دُعا کو قبول فرمایا اور اس کام کیلئے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ کاانسانوں پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے ہدایت کا نزول کیا اللہ تعالیٰ نے اس احسان کا ذکر کیا فرمایا!

بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں سے بھیجا جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقینا یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے (الٰ عمران)۔۔۔

عزیز دوستوں!۔
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذمداری کو کیسے نبھایا؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پہنچتے ہی وہاں مسجد تعمیر کی اس وقت وہاں پر مسجد کا ایک حصہ علم سیکھنے کے لئے متعین کردیا گیا تھا جسے صفہ کہتے تھے اس جگہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دن رات قیام کیا کرتے تھے وہ وہاں پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ وہیں رہتے کھاتے پیتے اور سوتے تھے ان مقیم احباب کو اصحاب صفہ کہتے ہیں اس کو رہائشی یونیورسٹی کا نام دیا ہے اس یونیورسٹی میں طلباء کی تعداد کتنی تھی؟ ۔۔ ایک مرتبہ حضرت سعدبن عبادہ نے اس یونیورسٹی کے اسی (80) طلبہ کو شام کے کھانے کی دعوت کے لئے بلایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد اچھی خاصی تھی یہ یونیورسٹی کیسے چلتی تھی؟۔ یہ مالدار مسلمانوں کے تعاون سے اور اپنی مدد آپ کے ذریعے چل رہی تھی مثلاً حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں بہت خرچ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ مقروض ہو گئے انہوں نے اپنا قرض اتارنے کے لئے اپنا گھر بھی بیچ ڈالا اب ان کے پاس رہنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی اسی لئے اب وہ خود بھی اسی یونیورسٹی میں رہنے لگے وہ یونیورسٹی پر بوجھ بننا نہیں چاہتے تھے اس یونیورسٹی کے طلبہ کے لئے امداد کے طور پر جو کھجوریں آتی تھیں ان کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دے دی گئی پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلامی تعلیمی اداروں کی ہر ممکن مدد کریں یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جب یمن کے گورنر بنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ وہ قریہ قریہ گاوں گاوں تعلیمی ادارے قائم کریں اور ان میں دین کی تعلیم اور تربیت کا اعلیٰ انتظام کریں۔

عزیزدوستوں!
تعلیم و تربیت کی مزید اہمیت مندرجہ ذیل واقعات سے بھی ثابت ہوتی ہے۔

ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دو گروہ مسجد میں بیٹھے ہیں ایک گروہ اللہ کا ذکر کر رہا تھا اور دوسرا گروہ سیکھنے یعنی تعلیم کے کام میں لگا ہوا تھا یقینادونوں گروہ فائدہ مند کام میں مصروف تھے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیکھنے سکھانے والے گروہ کے ساتھ جا کر بیٹھے اس سے اسلامی تعلیم کی اہمیت واضع ہوجاتی ہے علاوہ ازین آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا فرماتے ”اے اللہ میری زندگی کا کوئی دن ایسا نہ گزرے جس میں میں کوئی نہ کوئی نئی چیز نہ سیکھوں۔۔۔

نوٹ کیجئے غزوہ بدر میں جب کچھ قیدی اپنی رہائی کے لئے اپنا فدیہ نہ دے سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہر قیدی کو اجازت دے دی کہ کم از کم دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے یہی اس کا فدیہ ہوگا۔

عزیزدوستوں!
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں اپنے جیل کے ساتھیوں کو اسلامی تعلیم دیا کرتے تھے پس ناسازگار حالات کے باوجود سیکھنے سکھانے کا یہ کام ہر جگہ اور ہمیشہ چلتے رہنا چاہے۔ اپنے بچوں کی صحیح اسلامی تعلیم دینے کا انعام کیا ہے ۔ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے!

اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچادیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال کے بدلہ میں رہن ہے (سورۃ الطور)

دوسرے الفاظ میں یہ کہ بعض والدین کے بچے اگر جنت میں کم درجے پر ہوں گے تو یہ والدین چاہیں گے کہ سارہ کنبہ جنت میں ایک ساتھ جمع ہو جائیں اللہ نے یہاں ان کو یکجا کرنے کا وعدہ کیا ہے بشرطیکہ ان کی اولاد بھی ان کی طرح عقیدہ اور ایمان رکھنے والے ہوں اور اپنے والدین کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ جنت میں بہت ہی اونچے مقام میں داخل کئے جائیں گے ان کو خود حیرت ہوگی کہ ان کو کس طرح اتنا اونچا مقام مل گیا کیوںکہ ان کے اعمال تو اتنے اونچے نہ تھے اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا تم نے اپنے پیچھے جو اولاد چھوڑی ہے وہ تمہارے لئے برابر دُعا کرتی رہتی تھی ان اکی ایک ایک دعا پر تمہارا جنت میں مقام بلند ہوتا جاتا ہے ( مسند احمد)۔

پس ہمیں نہ صرف خود اعلی اسلامی تعلیم حاصل کرنی چاہئے بلکہ اپنی اولاد کیلئے بھی اسکا خاطر خواہ انتظام کرنا چاہئے کیونکہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بعث کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہماری دنیا و آخرت میں کامیابی کا راز بھی اس میں مخفی ہے۔

وسلام
 
Top