arifkarim
معطل
’2016 ممکنہ طور پر گرم ترین سال ہو گا‘
برطانیہ کے محکمۂ موسمیات کی جانب سے کی گئی پیش گوئی کے مطابق امکان ہے کہ 2016، 2015 سے بھی گرم رہنے کا امکان ہے۔
برطانوی محکمۂ موسمیات کو یقین ہے کہ سنہ 2016 میں درجۂ حرارت 1.1 سیلسئس سے اوپر رہ سکتا ہے۔
برطانیہ میں رواں سال کو پہلے ہی گرم ترین سال قرار دیا جا چکا ہے جس کی بنیادی وجہ عالمی درجۂ حرارت کا بڑھنا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک ممالک نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ دنیا کو عالمی درجۂ حرارت کو 1.5 سیلسئس سے اوپر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
برطانوی محکمۂ موسمیات کی جانب سے کی جانے والی نئی پیش گوئی کمپیوٹر ماڈلز اور شماریاتی طریقۂ کار پر مشتمل ہے اور اس کے مطابق آئندہ 12 مہینوں میں عالمی درجۂ حرارت کی اوسط شرح سنہ 1961 سے 1990 کے درمیان کی شرح سے 0.84 درجے سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔
اگر صنعتی دور سے پہلے کی سطح کا موازنہ کیا جائے تو نئی پیش گوئی کے مطابق اگلے سال کے درجۂ حرارت کی اوسط شرح سنہ 1850 سے 1899 کے مقابلے میں 1.1 سیلسئس رہنے کا امکان ہے۔
برطانیہ میں گذشتہ برس پیش گوئی کی گئی تھی کہ رواں برس اوسط درجۂ حرارت 0.64 سے اوپر رہے گا۔
برطانیہ کے محکمۂ موسمیات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ایڈم کا کہنا ہے کہ اگلے برس کی پیش گوئی گذشتہ برس کے کچھ گرم سالوں کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں سنہ 2014 میں درجۂ حرارت 0.6 رہا جو ایک ریکارڈ تھا، جبکہ رواں برس یہ درجۂ حرارت 0.7 رہا اور وہ بھی ایک ریکارڈ تھا اور اگلے برس کے لیے ہم یہ کہہ رہے ہیں اس میں درجۂ حرارت 0.8 ہو گا جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ برطانیہ میں تین برس کے دوران درجۂ حرارت میں تیزی آئی اور سنہ 2016 کے آخر تک ہم شاید دیکھیں گے کہ برطانیہ میں تین برس کے دوران مسلسل درجۂ حرارت میں ریکارڈ اضافے کا امکان ہے۔
موسمیات کے ماہرین کے مطابق عالمی درجۂ حرارت بھارت میں مون سون سیزن کو پہلے ہی محدود کرنے کا ذمہ دار رہا ہے، اس نے بحرِ اوقیانوس میں آنے والے طوفانوں کو کم کیا اور یہ گذشتہ چند ہفتوں میں شمالی یورپ میں سردی سے پہلے آنے والے طوفانوں میں بھی ملوث رہا ہے۔
ماخذ

برطانیہ کے محکمۂ موسمیات کی جانب سے کی گئی پیش گوئی کے مطابق امکان ہے کہ 2016، 2015 سے بھی گرم رہنے کا امکان ہے۔
برطانوی محکمۂ موسمیات کو یقین ہے کہ سنہ 2016 میں درجۂ حرارت 1.1 سیلسئس سے اوپر رہ سکتا ہے۔
برطانیہ میں رواں سال کو پہلے ہی گرم ترین سال قرار دیا جا چکا ہے جس کی بنیادی وجہ عالمی درجۂ حرارت کا بڑھنا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک ممالک نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ دنیا کو عالمی درجۂ حرارت کو 1.5 سیلسئس سے اوپر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
برطانوی محکمۂ موسمیات کی جانب سے کی جانے والی نئی پیش گوئی کمپیوٹر ماڈلز اور شماریاتی طریقۂ کار پر مشتمل ہے اور اس کے مطابق آئندہ 12 مہینوں میں عالمی درجۂ حرارت کی اوسط شرح سنہ 1961 سے 1990 کے درمیان کی شرح سے 0.84 درجے سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔
اگر صنعتی دور سے پہلے کی سطح کا موازنہ کیا جائے تو نئی پیش گوئی کے مطابق اگلے سال کے درجۂ حرارت کی اوسط شرح سنہ 1850 سے 1899 کے مقابلے میں 1.1 سیلسئس رہنے کا امکان ہے۔
برطانیہ میں گذشتہ برس پیش گوئی کی گئی تھی کہ رواں برس اوسط درجۂ حرارت 0.64 سے اوپر رہے گا۔

برطانیہ کے محکمۂ موسمیات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ایڈم کا کہنا ہے کہ اگلے برس کی پیش گوئی گذشتہ برس کے کچھ گرم سالوں کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں سنہ 2014 میں درجۂ حرارت 0.6 رہا جو ایک ریکارڈ تھا، جبکہ رواں برس یہ درجۂ حرارت 0.7 رہا اور وہ بھی ایک ریکارڈ تھا اور اگلے برس کے لیے ہم یہ کہہ رہے ہیں اس میں درجۂ حرارت 0.8 ہو گا جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ برطانیہ میں تین برس کے دوران درجۂ حرارت میں تیزی آئی اور سنہ 2016 کے آخر تک ہم شاید دیکھیں گے کہ برطانیہ میں تین برس کے دوران مسلسل درجۂ حرارت میں ریکارڈ اضافے کا امکان ہے۔
موسمیات کے ماہرین کے مطابق عالمی درجۂ حرارت بھارت میں مون سون سیزن کو پہلے ہی محدود کرنے کا ذمہ دار رہا ہے، اس نے بحرِ اوقیانوس میں آنے والے طوفانوں کو کم کیا اور یہ گذشتہ چند ہفتوں میں شمالی یورپ میں سردی سے پہلے آنے والے طوفانوں میں بھی ملوث رہا ہے۔
ماخذ