’پاکستان میں آزادی صحافت سیاہ دور سے گزر رہی ہے‘

عاتکہ رحمان11 نومبر 2019
Facebook Count
Twitter Share

0
Translate
5dc934558bda2.jpg

اکستان میں سینسرشپ کی صورتحال بہتر ہونے والی نہیں ہے—تصویر: عاتکہ رحمٰن
لندن میں صحافت پر عائد سینسرشپ کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب می شرکا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آزادی صحافت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لندن میں ’سینسرشپ کا راج: پاکستان کشمیر اور بھارت‘ کے عنوان سے منعقدہ بات چیت کے ایک سیشن میں صحافی طلعت حسین، لکھاری اور دانشور فرزانہ شیخ ، برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب اور ڈان کے سابق کالم نگار سرل المیڈا شریک ہوئے۔

دو گھنٹوں پر محیط اس بات چیت کا زیادہ تر محور پاکستان میں سینسرشپ کی تاریخ اور صحافیوں کو خاموش کروانے کے نئے طریقوں کے بتدریج استعمال پر رہا۔

یہ بھی پڑھیں: صحافتی اداروں کیلئے مشکل ملک

اس موقع پر فرزانہ شیخ نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے دوران آزادی صحافت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کو مذاق میں اڑانے کا تذکرہ کیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے کراچی بینالے کے دوران ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے فنکار عدیلہ سلیمان کے بنائے گئے آرٹ ورک کی نمائش کو سبوتاژ کرنے کے بارے میں بھی بات کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے برطنوی صحافی اور ملالہ کی خود نوشت کی معاون لکھاری کرسٹینا لیمب نے بھارت میں بڑھتی سینسرشپ کی بگڑتی صورتحال کی جانب توجہ دلائی جہاں حکومت نے حال ہی میں صحافی آتش تاثیر کی جانب سے نریندر مودی پر ایک تنقیدی مضمون لکھنے ان کی شہریت منسوخ کردی۔

مزید پڑھیں: آزادی صحافت اور پاکستانی خواتین صحافی

پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی تقریر نشر نہ کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ عمران خان کا کیا مطلب ہوتا ہے جب وہ کہتے ہیں کہ آزادی صحافت برطانیہ سے زیادہ ہے کیوں کہ اس طرح کی چیزیں یہاں نہیں ہوتیں۔

تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے سرل المیڈا ایک خوفناک مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں سینسرشپ کی صورتحال بہتر ہونے والی نہیں ہے اس کے بجائے یہاں 2 سوال پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ یہ مزید کتنی سنگین ہوگی دوسرا یہ کہ یہ کتنی جلد ہوگا‘؟

دوسری جانب صحافی طلعت حسین نے بات کرتے ہوئے صحافتی اداروں کی جانب سے از خود سینسر شپ کے مسئلے پر روشنی ڈالی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیا مالکان کس طرح صحافیوں کو سینسر شپ کی ہدایت کرتے ہیں اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرتا اس کا صحافتی سینسر شپ سے کوئی لینا دینا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صحافتی آزادی کا معاملہ، پاکستان کے درجے میں تنزلی

طلعت حسین نے مزید کہا کہ اس کا تعلق اس بات سے ہے میڈیا مالکان کسے پسند کرتے ہیں، کون انہیں فنڈز دیتا ہے اور کون ان کا پسندیدہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست پاکستان سے زیادہ ملک ریاض میڈیا کوریج کے 10 میں سے 9 حصے پر اپنا اثر رکھتے ہیں اور کوریج پر اثرانداز ہونے کی ان کی طاقت بہت زیادہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی تقریر نشر نہ کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ عمران خان کا کیا مطلب ہوتا ہے جب وہ کہتے ہیں کہ آزادی صحافت برطانیہ سے زیادہ ہے کیوں کہ اس طرح کی چیزیں یہاں نہیں ہوتیں۔
لنڈے کے لبرل سمجھتے ہیں کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر غلیظ گندی گالیوں سے بھرپور اور اخلاقیات سے گری ہوئی تقاریر نشر نہ کرنا آزادی صحافت کے خلاف ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
لنڈے کے لبرل سمجھتے ہیں کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر غلیظ گندی گالیوں سے بھرپور اور اخلاقیات سے گری ہوئی تقاریر نشر نہ کرنا آزادی صحافت کے خلاف ہے۔
یہ شائد وہی ہے جس نے 60 دن میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ سن کر تو یہی لگتا ہے کہ گالیوں میں پی ایچ ڈی کی ہوگی موصوف نے!
 
Top