’لڑم ٹاپ': دیر لوئر کا گہنا

جاسم محمد

محفلین
’لڑم ٹاپ': دیر لوئر کا گہنا
عظمت اکبر

وطنِ عزیز میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب ہر ایک کونا و کوچہ اپنی منفرد خوبصورتی کا مالک بنا ہوا ہے۔ ملک کے کونے کونے میں سفر کے دوران بہت کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں۔ لوگوں کی کہی اور ان کہی باتیں سنتا اور ان کے حالات جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔

پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے نئے مقام کی تلاش جہاں دل کو تسکین پہنچاتی ہے وہیں چند جگہوں پر لوگوں کی کہانیاں اور حالاتِ زندگی اداس کردیتے ہیں۔ شاید یہ اپنائیت کا جذبہ اور ایک دوسرے سے تعلق کا احساس ہی ہے۔

سیاحت جہاں ملک کی معشیت کو استحکام بخشتی ہے وہیں مقامی افراد کے روزگار میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے۔

لڑم ٹاپ میں واقع ایک چھوٹے گاؤں چنار میں سڑک کنارے پکوڑے بیچنے والے گورنمنٹ مڈل اسکول میں 7ویں جماعت کے طالب علم محمد ابرار بھی انہی افراد میں شامل ہیں، جن سے ہماری ملاقات گزشتہ ہفتے لڑم ٹاپ کے سفر کے دوران ہوئی۔

5f056a0b4c4b6.jpg

7ویں جماعت کے طالب علم محمد ابرار لڑم روڈ پر پکوڑے بیچتے ہیں—عظمت اکبر
5f056906669f0.jpg

لوئر دیر میں واقع لڑم ٹاپ—عظمت اکبر
یہ جمعرات کا دن تھا جب میں نے اپنے دوست کے ساتھ چکدرہ کے مقام پر یتیم بچوں کی کفالت کے ادارے 'آغوش' میں بچوں کے ساتھ سیاحت کے حوالے سے ہونے والے ایک سیشن میں شرکت کی۔ اس سیشن کے بعد اس ادارے کے ایڈمن آفیسر سے گفتگو کے دوران پتا چلا کہ ادارے کے قریب اندان ڈھیری کے مقام پر بدھ مت دور کے آثارِ قدیمہ موجود ہیں۔ اس جگہ کے بارے میں جستجو بڑھی تو فوری طور پر وہاں جانے کا ارادہ کیا، جو چکدرہ پل سے 7 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔

5f0577b92ca6b.png

یتیم بچوں کی کفالت کے ادارے 'آغوش' میں بچوں کے ساتھ سیاحت کے حوالے سے منعقدہ سیشن—عظمت اکبر
5f0566f421fa3.jpg

یہ مقام چکدرہ پل سے 7 کلومیٹر شمال میں واقع ہے—عظمت اکبر
بدھ مت کے یاتری (پیشوا) زوان زانگ کے مطابق بدھ سے منسوب ایک کہانی میں اس علاقے کا تذکرہ ملتا ہے جس کے مطابق اس دور میں لوگوں کو قحط سے بچانے کے لیے بدھ نے خود کو اس وادی میں مردہ حالت میں ایک بڑے سانپ میں تبدیل کردیا تھا تاکہ بھوک سے مرنے والے لوگ ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھا سکیں اور بعد میں لوگوں نے ایسا ہی کیا۔

گندھارا تہذیب کے مطابق یہ بدھ مت کے بانی، پدمسم بھاوا کی جائے پیدائش اور جھیل 'دھناکشا' کا بھی مقام ہے۔ تبتی بدھ مت کا کاگیو فرقہ، جھیل کی شناخت اس اسٹوپا کے ذریعے کرتا ہے۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے اسٹوپا تو دریافت کرلیا لیکن اس مقام پر کسی جھیل کی موجودگی کے آثار نہیں مل سکے ہیں۔ اس مقام پر کھدائی کے دوران بدھ اور گندرھارا تہذیب کے مجسموں کے 500 سے زائد ٹکڑے برآمد ہوئے جن کو سیدو شریف اور چکدرہ میں واقع عجائب گھروں میں رکھا گیا ہے۔

5f056e17276f0.jpg

اندان ڈھیری بدھ مت کی تاریخ میں اہم مقام تصور کیا جاتا ہے—عظمت اکبر
5f056e166dec5.jpg

اندان ڈھیری کے آثارِ قدیمہ
5f056e16d1e66.jpg

اندان ڈھیری کے آثارِ قدیمہ—عظمت اکبر
اندان ڈھیری کے تاریخی مقام کی عکس بندی کے بعد ارادہ یہی تھا کہ تیمرگرہ کی طرف روانہ ہوا جائے گا۔ تاہم اندان ڈھیری کے مقام پر پہنچنے سے پہلے میری نظر محکمہ پولیس دیر لوئر کی طرف سے لگے بورڈ پر پڑی جس پر یہاں کے سب سے خوبصورت سیاحتی مقام 'لڑم ٹاپ' کی نشاندہی کی گئی تھی جو اندان ڈھیری سے صرف 20 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔

اس لیے اپنے سارے ارادوں کو ترک کرتے ہوئے لڑم ٹاپ کو ایکسپلور کرنے کا ارادہ کیا۔ ہمارے دوست عزیر خان اچانک پروگرام تبدیل ہونے پر پہلے تو حیران ہوئے مگر پھر میرے فیصلے کو مانتے ہوئے انہوں نے ڈرائیور کو لڑم ٹاپ کا راستہ لینے کے لیے کہا۔

تھوڑی ہی دیر میں ہم اوچ کے بازار سے ہوتے ہوئے وادئ لڑم میں داخل ہوگئے۔

وادی لڑم کے آغاز پر ہی مقامی باشندے لیاقت الملک کی ذاتی زمین پر تعمیر کردہ ہزاروں پودوں پر مشتمل پاکستان پارک بھی مقامی اور ملک کے دیگر حصوں سے آنے والے سیاحوں کے لیے ایک اچھا پکنک پوائنٹ ہے۔

5f0578c143026.png

وادی لڑم کے راستے میں پاکستان پارک یہاں کے خوبصورت مقام میں شامل ہیں—تصویر لیاقت الملک
ایک وسیع رقبے پر پاکستان پارک میں جہاں مختلف اقسام کے پودوں کی بہتات ہے وہیں پارک کے اندر بچوں کے کھیل کود اور فیمیلیز کی تفریح کے لیے ہر قسم کی سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔

چونکہ آگے کی سڑک خراب تھی اس لیے گاڑی کچھوے کی رفتار سے آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف گامزن تھی۔ اوچ کے بازار سے نکل کر ہمیں اندازہ ہوا کہ لڑم ٹاپ تک پہنچتے پہنچتے بھوک سے بُرا حال ہوجائے گا کیونکہ دوپہر کے 2 بج چکے تھے اور ہم نے صبح کو لکا پھلکا سا ناشتہ کیا ہوا تھا۔

پورے راستے ڈرائیور اور میں کھانے پینے کے دکانیں ڈھونڈنے لگے۔ تقریباً 10 کلومیٹر کے سفر کے بعد بالآخر چنار گاؤں کے ایک موڑ پر ڈرائیور صاحب کی نظر ایک دکان پر پڑی جس کے قریب ایک بچہ گرما گرم پکوڑے بیچ رہا تھا۔

عزیر نے ڈرائیور کو روکتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ اللہ نے ہماری سن لی ہے۔ اب گرما گرم پکوڑے کھا کر ہی آگے کا سفر کریں گے۔

ایک عارضی دکان کے کنارے پر بیٹھے محمد ابرار نے جب ہمیں گاڑی سے اترتے ہوئے دیکھا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ یوں لگا کہ وہ ایک عرصے سے ہم جیسے سیاحوں کے انتظار میں یہاں بیٹھا تھا۔

5f0571bf43d4b.jpg

چنار گاؤں کے ایک موڑ پر ڈرائیور صاحب کی نظر پکوڑوں کی دکان پر پڑی—عظمت اکبر
5f056e158d5f2.jpg

محمد ابرار—عظمت اکبر
ہمارے سامنے پکوڑوں کی 2 پلیٹیں رکھنے کے بعد ابرار نے بتایا کہ موسمِ گرما میں مقامی سیاحوں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں سے بڑی تعداد میں سیاح وادئ لڑم کا رخ کرتے ہیں جس سے ان کی اچھی کمائی ہوجاتی تھی اور اوسطاً انہیں روزانہ ہزار، دو ہزار کی بچت ہوجاتی ہے جبکہ موسمِ سرما میں جمعے اور اتوار کے دنوں میں مقامی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس علاقے کا رخ کرتی ہے اور یہاں آنے والے لڑم ٹاپ پر برف باری سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔

ابرار کے مطابق اگر حکومتِ وقت اس خوبصورت وادی کی سڑک دوبارہ تعمیر کروا دے تو سیاحوں کی بڑی تعداد اس خوبصورت وادی کو دیکھنے آسکے گی جس سے نہ صرف ان جیسے لوگوں کا روزگار بہتر ہوگا بلکہ اس خوبصورت وادی کو اجاگر کرنے کے زیادہ مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ابرار کے خوابوں، امیدوں اور توقعات کو جاننے کے بعد ہم ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔

فطرت کی رعنائیوں سے بھرپور اس خوبصورت وادی کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اپنے دلکش حُسن کی وجہ سے یہ وادی برطانوی دور سے ہی خصوصی توجہ کا مرکز بنی رہی۔

5f0571bf1fbfb.jpg

ابرار حکومت سے سڑک کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں—تصویر عظمت اکبر
5f0571bcf1074.jpg

فطرت کی رعنائیوں سے بھرپور اس وادی کا آغاز ہوا چاہتا ہے— عظمت اکبر
انگریز خاتون 'مس لرم' کے نام سے منسوب 'لڑم ٹاپ' سطح سمندر سے تقریباً 8 ہزار 500 کی بلندی پر واقع ہے۔ لڑم ٹاپ تک پہنچنے کے لیے ہم نے مزید 20 منٹ کا سفر کیا۔ ٹاپ پر پہنچنے پر سڑک 2 راستوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، ایک راستہ تیمرگرہ اور دوسرا ریڈار ٹاپ (لڑم ٹاپ کا بالائی حصہ) تک لے جاتا ہے۔

برف کی وجہ سے ہماری گاڑی مزید آگے بڑھنے سے قاصر تھی اس لیے ہم نے گاڑی وہیں روک دی اور نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہم ٹاپ پر لگے ایک سیاح کے کیمپ کے پاس پہنچ گئے۔

5f0571bcb2b0b.jpg

ٹاپ پر ایک راستہ تیمرگرہ اور دوسرا ریڈار ٹاپ (لڑم ٹاپ کا بالائی حصہ) تک لے جاتا ہے— عظمت اکبر
5f05678d43e19.jpg

ہم ٹاپ پر ایک سیاح کے لگائے خیمے کے پاس پہنچے—عظمت اکبر
یہاں سے ایک طرف چترال اور افغانستان کی برف پوش پہاڑی سلسلے کا نظارہ ہوسکتا ہے تو دوسری طرف بونیر، سوات کی بلند چوٹیاں اور اس کے درمیان سوات ایکسپریس وے کا، جبکہ سامنے دوسری پہاڑی پر تقسیمِ ہند سے قبل انگریزوں کے دور میں اس مقام پر جیو اسٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر تعمیر کیے گئے تاریخی قلعے کے آثار کا دلکش منظر ہمیں دم بخود کرنے کے لیے کافی تھا۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ وادی آج سے 3 ہزار سال پہلے وسطی ایشیاء اور افغانستان تک جانے کے لیے ایک اہم ترین گزرگاہ تصور کی جاتی تھی، جبکہ مختلف ادوار میں سکندرِ اعظم، مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر اور برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم سر ونسٹن چرچل نے بھی یہاں قیام کیا۔

5f0571bbd279a.jpg

ٹاپ سے بونیر، سوات کی بلند چوٹیاں اور اس کے درمیان موجود سوات ایکسپریس وے کا خوبصورت نظارہ—عظمت اکبر
5f0574f225430.jpg

ٹاپ سے چترال اور افغانستان کی برف پوش پہاڑی سلسلے کا خوبصورت منظر—عظمت اکبر
5f0574f362f9d.jpg

یہ وادی آج سے 3 ہزار سال پہلے وسطی ایشیاء اور افغانستان تک جانے کے لیے ایک اہم ترین گزرگاہ تصور کی جاتی تھی— عظمت اکبر
اب یہاں سے ریڈار ٹاپ تک کا سفر ہمیں پیدل ہی کرنا تھا۔ عزیر خان ہمارے ساتھ برف میں آگے بڑھنے سے انکاری تھے اس لیے ان کو لڑم ٹاپ پر اپنی گاڑی کے پاس چھوڑ کر میں اور ڈرائیور چند مقامی سیاحوں کے ساتھ ریڈار ٹاپ کی طرف روانہ ہوئے۔

ویسے سردیوں کے موسم میں برف میں ٹریکنگ کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ تقریباً 45 منٹ کی مشقت بھری مگر حسین مناظر سے بھرپور ٹریکنگ کے بعد ہم لڑم ٹاپ کے بالائی حصے (ریڈار ٹاپ) پر پہنچ گئے۔

5f056c68b2db7.jpg

برف پر ٹریکنگ کا اپنا ہی لطف ہے—عظمت اکبر
5f056c273d2a6.jpg

حسین مناظر سے بھرپور ریڈار ٹاپ تقریباً 45 منٹ کی دُوری پر واقع ہے—عظمت اکبر
راستے میں مقامی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئی جس میں فیملیز بھی شامل تھیں جو برف سے خوب محظوظ ہورہی تھیں۔ ریڈار ٹاپ کی اونچائی کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کے اگر مطلع صاف ہو تو یہاں سے چترال، سوات، پشاور، دیر بالا، باجوڑ اور افغانستان کے بعض علاقے باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔

5f057ed2767dd.png

اگر مطلع صاف ہو تو یہاں سے خیبر پختونخوا اور افغانستان کے بعض علاقے باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں—عظمت اکبر
افغانستان اور روس کی جنگ کے دوران یہاں پر افغان سرحد کی نگرانی کے لیے پاک فوج نے ایک ریڈار نصب کردیا تھا جس کی عمارت آج بھی یہاں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑم ٹاپ کے اس بالائی حصے کو ریڈار ٹاپ کہا جانے لگا۔ ریڈار ٹاپ پر مختلف کمیونیکشن کمپنیوں کے ٹاور بھی نصب کیے گئے ہیں۔ انہی ٹاوروں کے ذریعے مالاکنڈ ڈویژن کے تمام مواصلاتی نظام کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

ریڈار ٹاپ کے دونوں اطراف مقامی لوگوں نے نجی گیسٹ ہاوسز قائم کیے ہوئے تھے جبکہ سیاحوں کے قیام کے لیے پی ٹی ڈی سی کا موٹل بھی موجود ہے۔

5f056b32e2e6a.jpg

مقامی لوگوں نے ذاتی گیسٹ ہاوس بنائے ہوئے ہیں—عظمت اکبر
موٹل کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ کسی زمانے میں دیر کے نواب یہاں پر نایاب پرندوں کے شکار کے لیے آیا کرتے تھے اور پاکستان کے سابق صدر ایوب خان کے دور میں یہاں پر مختلف سیاحتی منصوبوں کو زیرِ غور لایا گیا تھا لیکن کچھ خاص کام نہیں ہوسکا۔

نواب آف دیر کی ریاست کے پاکستان سے الحاق کے بعد دیر لوئر کے سیاحتی مقامات کو کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے دیر لوئر کو سیاحتی ضلعے کا درجہ نہیں مل سکا۔

وادی لڑم اپنی خوبصورتی اور موسم کے لحاظ سے ملک کے شمالی علاقہ جات سے کم نہیں۔ یہاں ہر سال دسمبر سے اپریل تک کئی کئی فٹ برف باری ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی پہاڑیاں برف کی چادر اوڑھ لیتی ہیں۔

جون اور جولائی میں جہاں ملک کے دیگر حصوں میں شدید گرمی سے لوگ پریشان رہتے ہیں، وہیں بلندی پر واقع اس مقام پر موسم انتہائی خوشگوار رہتا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور سیاح گرمیوں کی راتوں میں بھی لحاف اوڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

دیار کے گھنے درختوں اور پشاور و اسلام آباد کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود 'لڑم ٹاپ' پر سیاحوں کے لیے قیام و طعام کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں۔

5f0567e39d595.jpg

یہاں ہر سال دسمبر سے اپریل تک کئی کئی فٹ برف باری ہوتی ہے—عظمت اکبر
5f056ac36ceaf.jpg

وادی لڑم اپنی خوبصورتی اور موسم کے لحاظ سے ملک کے شمالی علاقہ جات سے کم نہیں—عظمت اکبر
5f056c295d0bb.jpg

یہاں پر زیادہ تر گیسٹ ہاؤس نجی نوعیت کے ہیں—عظمت اکبر
یہاں کا سفر کرنے والے سیاحوں کو درج ذیل باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔

  • یہاں پر موجود گیسٹ ہاؤس نجی نوعیت کے ہیں اور عام سیاح کا قیام گیسٹ ہاؤس میں تقریباً ناممکن ہے اس لیے رہائش کے لیے کیمپ لگایا جائے یا پہلے سے کسی گیسٹ ہاؤس میں قیام کے لیے رابطہ کیا جائے یا پھر رہائش کے لیے تیمرگرہ شہر میں قیام بھی ایک بہترین آپشن ہے جہاں سے سیاح دو سے ڈھائی گھنٹے میں لڑم ٹاپ تک پہنچ سکتے ہیں۔
  • ایک باقاعدہ ریسٹورینٹ نہ ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کا انتظام سیاحوں کو خود سے کرنا پڑے گا۔
  • اگرچہ اوچ گاؤں سے لڑم ٹاپ تک سڑک خراب ہے مگر ہر قسم کی گاڑی پر آپ لڑم ٹاپ تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔
  • اسلام آباد اور پشاور سے براستہ سوات ایکسپریس چکدرہ اور پھر وہاں سے لڑم ٹاپ تقریباً 5 گھنٹے میں پہنچا جاسکتا ہے۔
  • یہاں پر قیام کے دوران گرد و نواح کی خوبصورتی، جنگل اور صفائی کا خاص خیال رکھیں تاکہ اس دلکش وادی کا حُسن برقرار رہے۔
5f0568697f908.jpg

لڑم ٹاپ پر غروب آفتاب کا منظر —عظمت اکبر
لڑم ٹاپ پر چترال اور دیر بالا کے بلند پہاڑی سلسلے پر سورج کے غروب ہونے کے دلفریب اور حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم لڑم ٹاپ کے نچلے حصے کی طرف روانہ ہوئے جہاں عزیر خان شدت سے ہمارا انتظار کر رہا تھا۔

عزیر خان کو ساتھ لے کر ہم تیمرگرہ شہر میں اپنی عارضی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ واپسی پر ابرار خان کی سڑک کی تعمیر سے متعلق بات مجھے بار بار یہ سوچنے پر مجبور کر رہی تھی کہ آخر سیاحت کے فروغ کی بات کرنے والی حکومت کو اب تک یہ خوبصورت سیاحتی مقام کیوں نظر نہیں آیا؟

پاکستان میں لڑم ٹاپ جیسی سیکڑوں وادیاں حکومتی توجہ کی منتظر ہیں جہاں پر ترقیاتی کام کروا کر نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں بلکہ ان وادیوں میں سیاحت کے فروغ سے ملکی معیشت کو فائدہ بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔
 
Top