’سینیئر ججوں کے خلاف ریفرنس‘: ایڈیشنل اٹارنی جنرل مستعفی

جاسم محمد

محفلین
’سینیئر ججوں کے خلاف ریفرنس‘: ایڈیشنل اٹارنی جنرل مستعفی
29 مئی ، 2019
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
529266-1426348956.png

ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان زاہد ایف ابراہیم نے تصدیق کی ہے کہ ’اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف صدر پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر ریفرنس دائر‘ کیے جانے کے بعد انہوں نے استعفی دے دیا ہے۔
دوسری جانب اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر صدر پاکستان عارف علوی کے ترجمان میاں جہانگیر نے ججوں کے خلاف ریفرنس سے لاعلمی ظاہر کی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان زاہد ابراہیم نے تصدیق کی انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔


انہوں نے بتایا کہ ججوں کے خلاف ریفرنس کی تصدیق انہوں نے حکومت کی اعلی ترین شخصیات سے کر لی جس کے بعد استعفی کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے صدر پاکستان عارف علوی کو بھیجے گئے استعفی کی کاپی ٹویٹر پر پوسٹ بھی کر دی ہے۔
اپنے استعفی میں انہوں نے لکھا کہ انہوں نے مقامی پریس میں خبر پڑھی کہ صدر پاکستان نے سپریم جوڈیشل کونسل میں سپرم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ججوں کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزام میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا ہے۔ ججوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کیے۔

sc_0.jpeg

سپریم کورٹ آف پاکستان۔ تصویر اے ایف پی

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے زاہد ابراہیم نے ججوں کے نام ظاہر کرنے سے انکار کر دیا تاہم ان کے استعفے میں سپریم کورٹ کے معزز جج کا ذکر ہے جن کے ساکھ بے داغ ہے اور ان کے خلاف حکومت نے نظرثانی اپیل ایس ایم سی نمبر سات 2017 میں اپنی رائے خود ہی ظاہر کر دی ہے۔
’میری عاجزانہ رائے میں یہ ججوں کا احتساب نہیں بلکہ یہ ایک لاپرواہانہ کوشش ہے تاکہ آزاد شخصیات کی شہرت کو نقصان پہنچایا جائے اور پاکستان کی عدلیہ کو دباؤ میں لایا جائے۔ اگر ایسی کوشش کی مزاحمت نہ کی گئی تو اس سے ایسے ادارے کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا جو کہ ہمارے بنیادی حقوق کا محافظ اور نوزائدہ جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔‘
انہوں نے لکھا ’اس صورتحال میں میں اپنے ضمیر کے مطابق اپنے عہدے پر کام نہیں کر سکتا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان کے طور پر فوری طور پر مستعفی ہوتا ہوں۔‘ انہوں نے استعفے میں مزید لکھا ہے کہ 'مجھے 2018 میں بطور ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔ میرے لیے سندھ صوبے میں مملکت پاکستان کے سب سے سینیئر قانونی آفیسر کے طور پر کام کرنا فخر کا مقام ہے۔‘

مریم نواز کی مذمت
دریں اثنا مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز شریف نے بھی زاہد ابراہیم کے استعفی پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے حکومت کے منہ پر طمانچہ قرار دیا۔
ٹویٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا ’اعلیٰ عدلیہ کے تین معزز جج صاحبان کے خلاف ریفرنس جعلی حکومت کا ایک اور آمرانہ اور خوف پر مبنی اقدام ہے، حق و انصاف کی ہر آواز کو کچلنے کا جو سلسلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج سے شروع ہوا وہ آج ظلم و جبر کی نئی سطح تک آن پہنچا ہے۔ وکلا برادری، دانشور، سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے عدلیہ پر اس دہشت گردانہ حملے کے خلاف وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو انہوں نے ایک ڈکٹیٹر کے ایسے ہی اقدام کے خلاف کیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی احکامات کی بجائے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے والے ججز کو ایک ایک کرکے ہٹایا جا رہا ہے ۔ ایمانداری اور دیانتداری کو جرم ٹھہرانا شرمناک ہے۔ ’ باکردار اور شفاف شہرت کے حامل جج صاحبان پر سوچی سمجھی سازش کے تحت جعلی حکومت کے حملوں کی مسلم لیگ ن بھر پور مزاحمت کرے گی۔‘
 

جاسم محمد

محفلین
نومبر28سنہ1997 سپریم کورٹ پر ن لیگ کا حملہ
- November 28, 2018

پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن
سپریم کورٹ آف پاکستان کے تاریخ میں ایک شرمناک دن

جب سابق نااھل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی ضد اور انا نے ان سے ایک ایسا کام سرانجام دلوایا جس کے داغ آج بھی ان کے دامن پے ہے ۔

یہ آج سے 20 سال پہلے کی داستان ہے جب 12 فروری 1997 کو نواز شریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم بنے تو اس نے فوری طور پر 13 ویں آئینی ترمیم کی۔

اس ترمیم کی رو سےصدر پاکستان کے اختیارات برائے تحلیل قومی اسمبلی ختم کر دیے گئے اور وزیر اعظم کو معطل کرنے اور نئے انتخابات کے انعقاد بارے صدر پاکستان کے اختیارات کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اس ترمیم کو حکومت اور حزب اختلاف کی حمایت حاصل تھی۔

اس ترمیم کے بعد آئین پاکستان سے آرٹیکل اٹھاون 2 ب میں ترمیم ہوئی جس کی رو سے صدر پاکستان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی اجازت تھی اگر وہ اپنی رائے میں یہ سمجھتے ہوں کہ ملک یا ریاست میں ایسی صورتحال جنم لے کہ جب حکومت یا ریاست کا انتظام چلانا آئین پاکستان کی رو سے ممکن نہ رہے اور اس ضمن میں نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہو جائے۔

اس آئینی ترمیم کے بعد وزیراعظم کسی کے سامنے جوابدہ نہ رہے۔

اس ترمیم کے چند ہی ماہ بعد آئین پاکستان میں چودہویں ترمیم منظور کی گئی، جس کی رو سے اراکین قومی اسمبلی کو سختی سے اس بات کا پابند بنا دیا گیا کہ وہ اپنی متعلقہ سیاسی جماعت کے کسی بھی فیصلے سے انکار نہیں کر سکتے اور اگر وہ ایسا کرتے پائے گئے تو انھیں تادیبی کارروائی جس میں رکنیت کی معطلی شامل تھی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ اس ترمیم کے بعد کسی بھی طرح سے منتخب وزیر اعظم کو معطل کیا جانا یا عوامی سطح پر اس کا احتساب ممکن نہ رہا، کیونکہ ایک بار منتخب ہونے کے بعد کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی رائے جسے اس نے اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ادا کیا تھا سے منحرف ہونا آئینی طور پر ممکن نہ رہا۔ اس ترمیم نے وزیر اعظم کے عہدے پر موجود تمام احتسابی نکات کا خاتمہ کر دیا۔

کچھ اراکین پارلیمنٹ نے اس آئینی تریم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی تو نواز شریف سخت طیش میں آگئے اور کھل کر سپریم کورٹ پر تنقید کی۔ جب پر سپریم کورٹ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجا۔

حاالت خراب ہوتے دیکھ کر صدر پاکستان اور پاک فوج کے اس وقت کے سربراہ نواز شریف کو سمجھانے آئے اور درخواست کی کہ اس معاملے کو اچھے طریقے سے حل کریں۔ نواز شریف نے ضد کی کہ " چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا" ۔ ساتھ ہی نہایت جارحانہ انداز میں نہ صرف سپریم کورٹ میں اپنے مرضی کے ججز تعینات کرنے شروع کر دئیے بلکہ جسٹس سجاد علی شاہ کے قریب سمجھے جانے والے ججوں کی تنزلی بھی کر دی۔ جن ججوں کی تنزلی ہوئی انہوں نےنواز شریف کے اس حکم کے خلاف کوئٹہ ھائی کورٹ میں اپیل کر دی اور بہت سے ججز چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران پشاور ھائی کورٹ سے ان دو ججز کی معزولی کا حکم آگیا جنکی تنزلی ہوئی تھی اور پشاور ھائی کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے خود کو سپریم کورٹ کا عبوری چیف جسٹس قرار دےد یا۔تاہم چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنی کرسی پر موجود رہے اور نواز شریف کے خلاف کیس کی سماعت جاری رکھی ۔

28 نومبر 1997 کو پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی تھیں جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کا 'فل' بینچ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں میاں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدموں کی سماعت کر رہا تھا۔

سماعت اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ آج عدالت اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے والی ہے۔

عدالت میں موجود وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کمرہ عدالت سے باہر جانے کی اجازت چاہی۔ جب عدالت نےخواجہ آصف کو عدالت سے جانے کی اجازت دی تو چند لمحوں بعد سپریم کورٹ کی راہداریوں سے شور بلند ہونا شروع ہوا۔

ایسے لگا کہ کچھ لوگ عدالت کی عمارت کے اندر نعرے بازی کر رہے ہیں اور جلد ہی یہ آوازیں کورٹ نمبر ایک کے قریب تر آگئیں۔ کمرہ نمبر ایک میں موجود حاضرین جو ایک سنجیدہ ماحول میں عدالت کی کارروائی میں منہمک تھے شور سن کر اضطراب کا شکار ہو گئے۔

یک لخت دو صحافی، زاہد حسین اور فخر الرحمان کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخل ہوئے۔ فخرالرحمان نے بلند آواز میں کہا 'مائی لارڈ وہ آ رہے ہیں۔'

اس پر بینچ کے سربراہ سجاد علی شاہ نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وکیل ایس ایم ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 'تھینک یو شاہ صاحب اور عدالت برخاست ہوگئی۔ '

ججوں کے عدالت سے نکلنے کے چند منٹوں میں سینیٹر سیف الرحمن کی قیادت میں ایک مشتعل ہجوم عدالت میں داخل ہوگیا اور سپریم کورٹ کے مخصوص ججوں کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔

راولپنڈی سے مسلم لیگ کے ایم پی اے سردار نسیم نے فخر الرحمان پر حملہ کر دیا جن کی مداخلت سے مسلم لیگی ’غنڈوں‘ کے ہاتھ ججوں کے گریبان تک نہیں پہنچ سکے تھے۔

اس وقت روزنامہ ڈان کےصحافی فراز ہاشمی کی مداخلت سے فخر الرحمان کی پٹائی تو بند ہوگئی لیکن نہ سجاد علی شاہ وہ فیصلہ سنا سکے جو وہ کچھ لوگوں کےخیال میں وہ لکھ کر ساتھ لائے ہوئے تھے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت میں دو متوازی عدالتیں لگیں اور عدالت کے باہر میں فخر الدین جی ابرہیم اور سابق وزیر قانون مرحوم سید اقبال حیدر کو اشک بار دیکھ کر میں اپنے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔

چیف جسٹس نے پاک فوج سے مدد طلب کرتے ہوئے فورا 14 ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کر دیا اور صدر کے اختیارات بحال کر دئیے۔ پاک فوج نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس کا یہ حکم ماننے سے معذوری ظاہر کی۔ نواز شریف نے فوری طور پر صدر فاروق لغاری کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا اور وسیم سجاد کو عبوری صدر مقرر کرتے ہوئے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو برطرف کر دیا۔یوں نہ صرف اپنی مرضی کا صدر مقرر کیا بلکہ سپریم کورٹ میں بھی اپنی مرضی کے ججز تعئنات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

آج 21 سال گزر گئے ہیں اس بات کو لیکن سپریم کورٹ پہ حملے کا داغ آج بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے دامن پر باقی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چیف جسٹس نے پاک فوج سے مدد طلب کرتے ہوئے فورا 14 ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کر دیا اور صدر کے اختیارات بحال کر دئیے۔ پاک فوج نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس کا یہ حکم ماننے سے معذوری ظاہر کی۔ نواز شریف نے فوری طور پر صدر فاروق لغاری کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا اور وسیم سجاد کو عبوری صدر مقرر کرتے ہوئے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو برطرف کر دیا۔یوں نہ صرف اپنی مرضی کا صدر مقرر کیا بلکہ سپریم کورٹ میں بھی اپنی مرضی کے ججز تعئنات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
آج ن لیگی قیادت کس منہ سے معزز ججوں کا دفاع کر رہی ہے؟ پہلے اپنا دامن تو صاف کرے۔
 

جاسم محمد

محفلین
’مجھے معلوم تھا کہ آج نواز شریف کی حکومت سپریم کورٹ پر حملہ کرے گی اور ہم نے حفاظت کیلئے آئی ایس آئی سے رابطہ بھی کیا۔ مگر اس کے باوجوحملہ ہوا‘ چیف جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم کے تاریخی الفاظ
 

جان

محفلین
غلام قوم کو ریاستِ مدینہ میں غلامی کا طوق مبارک ہو!
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
کیا طریقہ ڈھونڈا ہے تحریک انصاف نے اپنے گرے ہوئے اخلاقیات سے عاری اقدامات کو جسٹیفائی کرنے کا۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو اس کو مذمت کرنے کا پورا حق حاصل ہے، ایک انسان اگر کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو کبھی صحیح کام کرنے کا حق ہی نہیں رہا اور دوسرا یہ کہ ایک غلط کام کی تاویل دوسرا غلط کام کیسے ہو سکتی ہے؟ سیاسی پارٹیوں اور ججوں کو یرغمال بنانا، انتہائی گھٹیا اور شرمناک اقدامات ہیں۔ تحریک انصاف اور اس کی پوری سوشل میڈیا ٹیم کی حیثیت اور حقیقت اب محض کردار کشی کرنے والے مافیا سے اوپر نہیں رہی۔ "ملٹری جنتا" کے ہاتھوں میں کھیلنے کا انجام "بھٹو" جیسا ہوتا ہے اور تاریخ یونہی پھر اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اتنی ڈرپوک اور کردار سے گری ہوئی حکومت کہ جنہیں "مریم نواز" کی قیادت سے ڈر ہے، جنہیں "بلاول" سے ڈر ہے، جنہیں "نواز شریف" کی رہائی سے ڈر ہے، جنہیں "حزبِ اختلاف" سے ڈر ہے اور اس کے لیے سہارا اس اسٹیبلشمنٹ کا لیا ہے جس کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ کسی کی سگی نہیں رہی۔ اگر حکومت نصب شدہ نہیں ہے تو پھر ڈر کس چیز کا ہے، اوپن فیلڈ میں مقابلہ کر کے جیت کے دکھائیں نہ کے دوڑ میں اکیلے ہی دوڑ کر پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی جستجو کریں۔ انتہائی شرمناک اور افسوسناک! رہ گئی وہی بات کہ "شرم تم کو مگر نہیں آتی"۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
غلام قوم کو ریاستِ مدینہ میں غلامی کا طوق مبارک ہو!
غلامی تو جسٹس فائز عیسی شریف خاندان کی کر رہا ہے:
× پہلے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس ٹیکنیکل بنیادوں پر بند کیا
SC rejects NAB appeal to reopen Hudaibiya reference - Pakistan - DAWN.COM
× پھر سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا لکھا ہوا پاناما کرپشن کیس کے فیصلہ پر اعتراض اٹھایا
Surprise over SC judge remarks on Sharif verdict - Newspaper - DAWN.COM
× اور پھر آخر میں فیض آباد دھرنا کیس میں عسکری اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا
10 major takeaways from SC's Faizabad sit-in judgement - Pakistan - DAWN.COM

جس طرح ن لیگی سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو تحریک انصاف کا سپورٹر کہتے تھے۔ یہی الزام جسٹس فائز عیسی کے فیصلے پڑھ کر ان کے ن لیگ یا شریف خاندان کے حمایتی ہونے پر لگایا جا سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک انسان اگر کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو کبھی صحیح کام کرنے کا حق ہی نہیں رہا
تحریک انصاف حکومت نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اگر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف الزامات جھوٹے ہیں تو وہ سپریم جوڈیشل کونسل میں با عزت بری ہو جائیں گے۔
اپوزیشن اور ان کے حمایتی لفافے جس طرح اپنے ایک محبوب جج کے خلاف ریفرنس بھجوانے پر شور مچا رہےہیں۔ کاش انہوں نے 1997 میں نواز شریف کے سپریم کورٹ پر حملے اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم کی جبری معزولی پر آواز بلند کی ہوتی۔ تو آج ملک کی عدلیہ کے یہ حالات نہ ہوتے۔
خود اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں سارا وقت ملک کے تمام ادارے تباہ کرتی رہی ہیں ۔ اور اب تحریک انصاف حکومت کے ایک ایک ایکشن کوخودربین لگا کر تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ منافقت بس تیرا ہی اب آسرا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ن لیگ کی عدلیہ بچاؤ تحریک کا مقصد صرف اپنے پسندیدہ ترین جج کو بچانا ہے۔ خود تو مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر پوری سپریم کورٹ پر ہی حملہ کر دیا تھا اور پاناما کیس میں اپنے خلاف فیصلہ پر 5 سپریم ججوں کو ملک کا ستیاناس کرنے والا کہا تھا۔

جمہوریت پسند ججز کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے، نواز شریف
ویب ڈیسک جمعرات 30 مئ 2019
1686119-nawazsharif-1559214135-640-640x480.jpg

کارکن عدلیہ کی آزادی، تحفظ اور دفاع کے لئے ڈٹ جائیں، نواز شریف کا پیغام فوٹو: فائل

لاہور: مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ جمہوریت پسند ججز کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کوٹ لکھپت جیل لاہور میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران نواز شریف نے کہا کہ جمہوریت پسند ججز کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے، حکومت کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس دائر کرنا سراسر نا انصانی ہے، مسلم لیگ (ن) نے عدلیہ بچاؤ تحریک میں پہلے بھی اہم کردار ادا کیا تھا، انہوں نے ہدایت کی کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس فوری طور پر بلایا جائے، عدلیہ پر حکومتی حملے ناکام بنانے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کیا جائے، پارٹی عدلیہ کے معزز جج صاحبان پر حکومتی تہمتوں کے پلندے کو بے نقاب کرے اور بھرپور مزاحمت کرے۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے، انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا پیغام ہے کہ عدلیہ کی آزادی، تحفظ اور دفاع کے لئے ڈٹ جائیں، میں آئین و قانون کے لئے قربانی دے رہا ہوں، ’ووٹ کو عزت دو‘ کی سزا کاٹ رہا ہوں اوراس کے لئے ایک تو کیا اس طرح کی ہزاروں سزائیں کاٹنے کے لئے تیار ہوں۔ ملک کی سالمیت ،آئین و قانون کی بالا دستی کے لئے چاہے جتنی سزائیں کاٹنی پڑے میں تیار ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
لفظ "کبھی" چھوٹ گیا شاید؟
بہت سے غلط کام کئے ہیں لیکن سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ریفرنس بھجوانا عین قانونی عمل ہے۔
کونسل میں اگر جسٹس فائز عیسیٰ با عزت بری ہو گئے تو حکومت کے فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ صرف ریفرنس بھیجنے پر تنقید بے معنی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انصاف کی راہ میں انصاف حائل ہے
سید حیدر امام - ٹورنٹو - کینیڈا

دنیا میں صرف ایک منصف ہے جس کے پاس خدائی طاقت ہوتی ہے . الله کے آخری نبی نے ١٤٠٠ سال پہلے اقوام کے زوال کے اسباب کا اپنا آخری فیصلہ دنیا بھر کی اقوام کے لئے کر دیا تھا

تم سے پہلے قومیں اسلئے تباہ اور برباد ہو گئیں جنہوں نے صرف غریب کو سزا دی اور امیر کو بچا لیا ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کی مرتکب ہوتی تو میں اسکے ہاتھ کاٹ دیتا

میں عرصہ دراز سے ایک بات مستقل لکھ رہا ہوں کے پاکستان میں جب تک جج حضرات اور جنرلز کا احتساب نہیں ہو گا ، کسی کا احتساب نہیں ہو سکتا . جب تک پنجاب کے لٹیرے جیل نہیں جائیں گے ، اپ کسی بھی سندھی ، بلوچی اور پختون کو جیل نہیں بھیج سکتے . میرا یہ ماننا ہے کے جج اور جنرل اپنے بچاؤ کے لئے آجتک نواز زرداری کو بچاتے آئے ہیں . پاکستان کے لوگوں کا خواب تھا کے ججز اور جنرل کا احتساب ہو ، جب یہ شروع ہو رہا ہے تو " میڈیا کا مافیہ " ہمیں ڈرا رہا ہے . پاکستانی ریاست کے تمام ادارے مافیہ بن چکے ہیں اور عمران خان کو ایک چومکھی جنگ لڑنی پڑے گی . یہ ایک اعصابی جنگ ہے جس کے لئے عمران خان نے بھر پور اعصابی ٹریننگ کی ہے . عمران خان کو اسکے " قریب ترین " مصاحبین اسے ورغلائیں گے ، غلط مشورے دیں گے مگر عمران خان کو کسی بھی صورت احتساب سے یو ٹرن نہیں لینا چاہیے .حکومت کل جاتی ہے تو آج چلی جائے . ایک مرتبہ تمام غداروں کو نہ صرف سزا ملے بلکے دولت بھی واپس ملے پھر ہم کہیں گے ، ڈب تے گئیں اں مگر چس بڑ ی آئی اے ۔

پاکستان کی ٧١ سالہ تاریخ میں احتساب کا عمل تو کب سے چل رہا ہے مگر کیا یہ کبھی پایہ تکمیل تک بھی پہنچا . جس جس نے فلم گاڈ فادر دیکھی ہے ، اس کے صرف ایک جملے میں مافیہ کا تمام فلسفہ چھپا تھا
I'm gonna make him an offer he can't refuse
یعنی میں اسے ایک ایسی افر کروں گا جسکا انکار ممکن نہیں ہو گا . ہم نے دیکھا نے نواز شریف نے ذاتی جیب سے نہیں بلکے پاکستان کی ریاست کی دولت اور سسٹم کو استعمال کرتے ھوے تمام جج ، جنرلز ، افسر ، صحافی ، سیاستدانوں اور اپنے کارکنوں کو نوازا . جب نواز شریف کو جیل ہوئی تو صرف وہی لوگ میڈیا اور سڑکوں پر اس خاندان کا دفاع کر رہے ہیں

جاتی امراء کے مافیہ کنگ نے سسلین مافیہ کی کامیاب کاپی کی جسکی نظیر نہیں ملتی . جاتی امراء مافیہ کی بہترین کاپی آصف زرداری نے کی اور وہ دونوں آج شیر شکر ہیں . نواز شریف کو جتنا میں پرکھتا ہوں ، اتنا حیران ہوتا ہوں . مجھے بہت تجسس ہے یہ جاننے میں کے نواز شریف کو دراصل چلانے والے اصل کردار کا کیا نام ہے . نواز شریف نے جہاں پورے پاکستان کی معیشت بٹھا دی وہاں نہ صرف پورا کا پورا نظام کرپٹ کیا بلکے لوگوں کو بھی کرپٹ کیا . پاکستان کے نظام میں چوری چکاری کی سزا تو ہے مگر غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک کے ترقی معکوس ہونے اور ٢٢ کڑوڑ لوگوں کی زندگی خطرات میں ڈالنے کی کوئی سزا قانون کی کتابوں میں نہیں ہے . افسوس۔

نواز شریف جیسے کوڑھ مغز انسان نے پاکستان کے بڑے بڑے جنرلز ، جج ، افسران اور صحافیوں کی میراث کو ختم کیا اور خود قائم رہا . ان تمام بڑے لوگوں کو ایک مشترکہ غلطی یہ رہی کے انہوں نے شریف خاندان کو ہمیشہ ریلیف دیا . شریف خاندان انتہائی ڈھٹائی سے لگا رہا اور متاثرین افراد پردہ سکرین سے ہٹ گئے . عمران خان کی ٢٢ سالہ میراث بھی نواز شریف کھا جائے گا اگر عمران خان نے نواز شریف کو ذرا بھی ڈھیل دی . وہ لوگ عمران خان کے بدترین دشمن ہیں جو عمران خان کو ، "چل چھڈ پراں" یا "چل ہن جاندے غصہ" کا مشورہ دیتے ہیں . عمران خان نے اگر ماضی سے نہ سیکھا تو وہ دوسروں کی طرح تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دے جائیں گے . نواز شریف کا ڈسا ہوا کبھی پانی بھی نہیں مانگتا ۔


لگتا ہے ریاست پاکستان کو یہ بات سمجھ میں ا گئی ہے یا ریاست پاکستان میں ایک جج صاحب ایسے آگئے ہیں جنکا شاندار ریکارڈ ہے اور وہ اپنی میراث کسی طور پر بھی نواز شریف کے قدموں میں ڈال کر ریٹائر نہیں ہونا چاہتے .عمران خان عدلیہ کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے . جسٹس کھوسہ صاحب کا دور منصفی بہت مختصر ہو گا مگر تاریخی ہو گا .الله کرے کے جسٹس کھوسہ صاحب اپنے پیش رو ججز کی طرح تاریخ کے کوڑے دان میں خود کو ڈال کر رخصت نہ ہوں . ریاست پاکستان پر شریف خاندان اور زرداری کو گرفتار کرنے، سزا دینے اور دی گئی سزا برقرار رکھنے کا بہت زیادہ پریشر ہے کیونکہ ریاست پاکستان اخلاقی طور پر بہت کمزور ہے .

گورنمنٹ اوف پاکستان نے جیسے ہی تین جج حضرات کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ، پاکستان میں قیامت صغریٰ برپا ہو گئی۔ گورنمنٹ نے ہائی کورٹ کے دو جج اور سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف ریفرنس دائر کیا ہے مگر میڈیا صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں پروپوگنڈا مہم چلا رہا ہے . پروپوگنڈا یہ کیا جا رہا ہے کے موصوف نے خادم حسین دھرنا کیس میں پاکستانی افواج اور انٹیلی جنس کے بارے میں سخت ریمارکس پاس کئے تھے . ویسے بھی موصوف کو احساس ہونا چاہیے کے وہ سوشل میڈیا پر نہیں بلکے کمرہ عدالت میں ایک منصف کی کرسی پر بیٹھے تھے . کیا کبھی کسی آرمی چیف نے کہا ہے ، عدلیہ میں جج چور ہیں یا ہم عدلیہ کو دہشت گرد ، غدار اور ڈاکو پکڑ کر دیتے ہیں اور وہ تمام کو چھوڑ دیتے ہیں . یہ ریمارکس اپنی جگہ توہین آمیز تھے اور اداروں کے وقار کے منافی تھے . اگر اسطرح اداروں میں بیٹھے لوگ ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے لگیں تو چل گئی باقی دیمک زدہ حکومت۔

میڈیا میں پروپوگنڈا کرنے والوں نے کسی نے بھی یہ نہیں لکھا یا کہا کے موصوف نے حدیبیہ کیس میں نواز شریف خاندان کو بھر پور ریلیف دی تھی اور وہی کیس ایسا تھا جس میں منی لانڈرنگ کے شواہد ازل سے تھے . موصوف نے نہ صرف وہ کیس ختم کیا بلکے پہلی مرتبہ میڈیا کو وہ کیس زیر بحث لانے پر پابندی کا نفاذ کیا . عدلیہ کی ایسی آمریت کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی . مجھے پتا ہے پاکستان کی آرمی نے حالیہ تفتیش میں بہترین طریقے سے تفتیش کرنے میں اداروں کی مدد کی ہے . یہ مافیہ سے زیادہ طاقتور ادارہ ہی ایسی تحقیقات کر سکتا ہے . جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کیوں اتنا غصہ تھا جو انہوں نے خادم حسین کیس میں نکالا تھا ؟

پاکستان کی ریاست تمام لوگوں کی تنخواہ اور مراعات عوام کے خوں پسینے سے دیتی ہے . جسٹس قاضی جیسے جج پہلے بھی بہت سے گزر چکے ہیں . ایک مولوی تارڑ ایسے بھی گزرے ہیں جو شریف خاندان کے تمام کیسز دیکھتے تھے اور اجرت میں انھیں صدر کا عہدہ دیا گیا تھا . انڈیا کے معروف پریکٹیکل شاعر راحت اندوہی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں . ایک مرتبہ انہوں نے ایک فورم پر کہہ دیا کے ، حکومت چور ہے . اگلے دن پولیس انکے گھر پر آدھمکی . افسر نے ان سے پوچھا کیا آپنے ایسا کہا تھا . انہوں نے کہا ، بالکل کہا تھا مگر یہ نہیں کہا تھا کے کونسی حکومت ( انڈیا کی ، پاکستان کی ، امریکہ یا کسی اور ملک کی ) چور ہے . وہ پولیس والے کہنے لگے ، کیا ہمیں اب یہ بھی پتا نہیں کے ہماری سرکار چور ہے ۔

ریاستی اداروں کو پتا ہے کے وہ ریفرنس کیوں فائل کر رہے ہیں . میڈیا انکا تمام شجرہ نسب ہمارے سامنے رکھ کر ہمیں گمراہ کر رہا ہے . کیا یہ مناسب ہے کے ریفرنس کے جواب میں کسی فرد کا شجرہ نسب نکال کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے . ظاہر ہے ریفرنس میں جرم لکھا ہو گا اور موصوف نے خود کو معصوم ثابت کرنا ہے . مریم نواز شریف بھی یہی پروپوگنڈا کر رہی ہے کے نواز شریف پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور ایٹمی دھماکے انکے دور میں ہوئے ہیں . کیا بطور وزیراعظم ، جج اور جرنیل لوگوں کی ذمہ داری زیادہ بڑھ نہیں جاتی . پاکستان میں جس نے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا ، اسے لٹکا دیا گیا . جس نے ( ڈاکٹر قدیر ) اسے مکمل کیا ، اسے نشان عبرت بنا دیا گیا اور کھڈے لائن لگا دیا گیا . صدر پاکستان اسحاق خان نے اسکی ٢٠ سال سے زیادہ آبیاری کی ، انھیں ڈھکن نواز شریف پڑ گیا . کیا ریاست پاکستان نے محمد علی جناح صاحب کی فیملی کو کوئی تکریم کی . کیا ریاست پاکستان نے علامہ اقبال کے خاندان کے کسی فرد کو وزیراعظم بنوایا . عمران خان جیسے وزیراعظم نے انکے پوتے ولید اقبال کو سینٹر بنوا کر کھڈے لائن لگوا دیا اور انکا تمام پنشن ختم کر دیا . کونسا شجرہ نسب اور کہاں کا شجرہ نسب ؟

کیا نشان حیدر خاندان کے سپوت جنرل راحیل کو مریم نواز کا ریلیف دینا اخلاقی قدروں کے منافی نہ تھا جس سے افواج پاکستان کی عزت میں حرف آیا تھا . کیا پاکستانی چیف اوف آرمی اسٹاف کو یہ زیب دیتا ہے کے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد دوسرے ملکوں میں رہائش اختیار کریں . کیا کسی رفیق تارڑ ڑ ، جسٹس قیوم ، جسٹس میاں ثاقب نثار ، چودھری افتخار اور بیشمار ججز کو اپنے عہدوں کے منافی حرکات زیب دیتی تھیں . کیا نواز شریف نے یہ نہیں کہا تھا کے جج حضرا ت بغض سے بھرے ہوئے ہیں اور وہی اب عدلیہ کا الم لے کر اٹھ کھڑے ہیں . میڈیا کس خاندان اور عہدے کا ہمیں بتا کر گمراہ کر رہا ہے ، کیا ہمیں پاکستان کی تاریخ معلوم نہیں ہے . کیا ہمیں پتا نہیں ہے کے جدی پشتی لوگ کسطرح پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟

پروپوگنڈا کرنے والو ، کان کھول کر سن لو

الله کے رسول کے خاندان کی ہم سری دنیا کا کوئی خاندان نہیں کر سکتا . جب الله کے رسول نے دنیا بھر کی قوموں کا بلا تفریق فیصلہ صادر کر دیا ہے تو قاضی فائز عیسیٰ کے خاندان کی کوئی اہمیت ہمارے سامنے نہیں ہے . ہمارے صحابہ اکرام کا محاسبہ جب اس وقت کا ایک بدو کر سکتا تھا تو قاضی فائز عیسیٰ اور انکا خاندان کس کھیت کو مولی ہیں ؟
 

جاسم محمد

محفلین
اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنسز کی سماعت 14 جون کو
30/05/2019 بی بی سی
شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
107166813__106253309_c9e5027b-3a91-44b2-8b9c-85cec9e6a340.jpg

AFP
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سپریم جوڈیشل کونسل نے صرف دو ججز کے خلاف کارروائی کی ہے
اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں کے خلاف بھیجے گئے دو صدارتی ریفرنسوں کی سماعت 14 جون کو ہو گی۔ پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل ابتدائی سماعت کرے گی۔

اعلیٰ عدلیہ کے جن دو ججوں کے خلاف دو روز قبل صدارتی ریفرنس بھجوائے گئے تھے ان میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا شامل ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ان ججوں پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے بیرون ملک اثاثوں کو انکم ٹیکس کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔

صدر کی طرف سے بھجوائے گئے ان ریفرنسوں میں ان دونوں ججوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے اس ضمن میں اٹارنی جنرل کو نوٹسں جاری کر دیا ہے۔ اٹارنی جنرل ان صدارتی ریفرنسوں میں پراسیکیوٹر جنرل کا کردار ادا کریں گے اور اعلیٰ عدلیہ کے ان ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ان کیمرہ ہو گی۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں صدر مملکت سے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کی کاپی انھیں فراہم کی جائے۔ واضح رہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہونے کی وجہ سے ایڈشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔

پاکستان بار کونسل کا رد عمل
دوسری طرف اس صورتحال کے تناظر میں پاکستان بار کونسل نے اپنا ہنگامی اجلاس 12 جون کو طلب کیا ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف دائر کیے جانے والے ریفرنس پر غور کیا جائے گا۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان بار کونسل اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا احتساب کرنے کے حق میں ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ایک دو ججوں کو ٹارگٹ کر کے ان کا احتساب کرنا کسی طور پر بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں بدعنوان اور نااہل ججوں کی بھرمار ہے جس کی نشاندہی پاکستان بار کونسل کرے گی۔ امجد شاہ کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں اعلیٰ عدلیہ میں تعینات ایسے ججوں کی ایک فہرست تیار کی جا رہی ہے جو پاکستان کے چیف جسٹس کو پیش کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ فیض آباد دھرنے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو فیصلہ تحریر کیا ہے اس سے حکمراں جماعت ان کے خلاف بغض رکھتی ہے اور اس صدارتی ریفرنس کی بنیاد بھی یہی بغض ہے۔ وائس چیئرمین کا کہنا ہے کہ 14 جون کو ان دونوں ججوں کے خلاف ان صدارتی ریفرنسوں کی ابتدائی سماعت ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ اگر ان ریفرنسوں کو جاری رکھنے کے بارے میں کوئی فیصلہ ہوا تو پھر پاکستان بار کونسل وکلا کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مشاورت کر کے اپنا لائحہ عمل تیار کریں گے۔

اس سے پہلے ماضی قریب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف فوج اور اس کے خفیہ اداروں کے خلاف بیان دینے پر مس کنڈکٹ کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور محض دو تاریخوں میں ہی ان کے خلاف فیصلہ دے کر انھیں جج کے منصب سے فارغ کر دیا گیا۔

شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے جس کو ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔ شوکت صدیقی کے خلاف فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا تھا جو اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس فائز عیسی - ایک تاثر!

جولائی 2017 میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں پانامہ کیس میں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ آیا۔ پانامہ لیکس کے انکشافات ساری دنیا میں تسلیم کئے جاچکے تھے، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ورجن آئی لینڈ اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کی طرف سے نوازشریف فیملی کے چھپائے گئے اثاثوں کی تصدیق ہوچکی تھی، چنانچہ یہ اوپن اینڈ شٹ کیس تھا جس کا فیصلہ نااہلی کی صورت میں ہی سامنے آنا تھا۔

ججوں کے ذریعے مرضی کے فیصلے لینے میں ماہر نوازشریف پہلی مرتبہ مشکلات میں گھر چکا تھا، لیکن اب بھی اس کے پاس کچھ آپشنز موجود تھیں جن پر اس نے اپنے قانونی ماہرین کے مشوروں کی روشنی میں عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے پہلے پنڈی کے شکیل اعوان کے ذریعے اس کے سیاسی مخالف شیخ رشید کی نااہلی کی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی گئی جس میں الزام لگایا گیا کہ شیخ رشید نے اپنے اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا تھا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز پر مشتمل پینل بنایا گیا جبکہ بعد میں جسٹس فائز عیسی نے بھی اس پینل میں شمولیت اختیار کرلی۔ شیخ رشید کے خلاف مقدمہ یہ تھا کہ اس کی زمین 1081 کنال پر مشتمل تھی لیکن اس نے کاغذات نامزدگی میں 983 کنال ظاہر کی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ زمین کے کاغذات اور تفاصیل جو کاغذات نامزدگی کے ساتھ اٹیچ کی گئیں، ان میں 1081 کنال ہی لکھا تھا چنانچہ اسے صرف ٹوٹل کی غلطی ہی کہا جاسکتا تھا، اور یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے تین میں سے دو ججوں نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر اثاثے چھپانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، کیونکہ اگر چھپانے ہوتے تو مکمل تفصیلات کاغذات نامزدگی کے ساتھ اٹیچ نہ کی جاتیں۔ شیخ رشید کے خلاف پٹیشن منسوخ کردی گئی لیکن جسٹس فائز عیسی نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔

اس اختلافی نوٹ میں جسٹس عیسی نے 9 سوالات اٹھائے جو کہ حرف بہ حرف وہی تھے جو نوازشریف نے اپنی نااہلی کے خلاف اپیل میں شام کئے تھے۔ فائز عیسی کے سوالات کچھ یوں تھے:

1۔ کیا کاغذات نامزدگی میں کوئی اثاثہ ظاہر نہ کرنے پر تاعمر نااہلی کی سزا دی جاسکتی ہے؟

(اس سوال کا شیخ رشید کی پٹیشن سے کیا تعلق بنتا تھا؟ فائز عیسی تو خود اسے نااہل قرار دینے کے حق میں تھا)

2۔ کیا عدالتی کاروائی میں کی گئی غلط بیانی کی بنا پر نااہلی کی سزا ہوسکتی ہے؟ (یہ نکتہ بھی نوازشریف کے وکلا نے اپیل میں شامل کررکھا تھا اور اس کا بھی شیخ رشید کے کیس سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا)

الغرض، فائز عیسی نے شیخ رشید کے بہانے ایسے تمام سوالات اپنے اختلافی نوٹ میں شامل کردیئے جن کا براہ راست فائدہ نوازشریف کو ہو سکتا تھا، اور آخر میں ایک فل کورٹ بنا کر ان سوالات کا جواب مانگنے کی سفارش بھی کردی۔

جسٹس فائز عیسی کا یہ کنڈکٹ بہت سے قانونی ماہرین کو شک و شبہات میں مبتلا کرگیا۔

بعد میں شریف فیملی کے خلاف حدیبیہ پیپرزمل کا کیس بھی فائز عیسی کے پاس گیا اور اس " ایماندار " جج نے یہ کہہ کر نیب کا ریفرینس ڈانٹ کے بعد منسوخ کردیا کہ یہ ریفرینس " پرانا " ہوچکا ہے اور اب اسے دوبارہ کھولنا عدالتی روایت کے خلاف ہے۔ یعنی اربوں کی کرپشن اگر کسی وجہ سے موقع پر نہ پکڑی جائے تو پھراسے دوبارہ کھولنا عدالتی روایت اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو جاتا ہے۔ یہ تاریخی چول بھی جسٹس فائز عیسی کے ذریعے ہی ماری گئی۔

تیسرا اور اہم ترین فیصلہ مولوی خادم حسین دھرنے کے خلاف فائز عیسی کے سوموٹو نوٹس کا تھا جس میں بغیر کسی وجہ کے، فائز عیسی نے باقاعدہ نام لے کر آرمی، آرمی چیف، آئی ایس پی آر، آئی ایس آئی اور پاک فوج کے خلاف وہی باتیں دھرائیں جو بھارتی میڈیا اور را والے کرتے آئے ہیں ۔ ۔ ۔ اس پر بھی بہت سے قانونی حلقوں میں سوالات کھڑے ہوئے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ حق کی شناخت کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ شریف اور زرداری فیملی کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ جس کو وہ سپورٹ کریں، سمجھ جائیں کہ وہ سب کچھ ہے، لیکن حق نہیں۔

آج شریف فیملی اور زرداری جسٹس فائز عیسی کے خلاف مبینہ طور پر حکومتی ریفرینس پر چیخ و پکار کررہے ہیں۔

حق کی ایک دوسری پہچان یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی والے کس کو سپورٹ کررہے ہیں؟ آج یہ دونوں مذہب فروش جماعتیں بھی فائز عیسی کے حق میں ہیں جس سے فائز عیسی کا باطل ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال الیکشن کے دنوں میں ایک جج شوکت صدیقی نے بھی آئی ایس آئی کے خلاف تقریر کردی تھی۔ جب سپریم جوڈیشل کونسل نے اس سے الزامات کے ثبوت مانگے تو کہہ دیا کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ جب ایک جج بغیر ثبوت کے ملک کے ادارے پر الزام عائد کرے تو اسے جج تو دور، بھنگی کے عہدے پر بھی نہیں رکھنا چاہیئے۔

جسٹس فائز عیسی نوازشریف کی پے رول پر ہے۔ اس پر مبینہ طور پرغیرملکی جائیدادوں کا الزام ہے اور ریفرینس صرف فائز عیسی ہی نہیں بلکہ دو دوسرے ججوں کے خلاف بھی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے ججز تو پہلے ہی نوازشریف کی جیب میں ہوتے ہیں، سپریم کورٹ میں فائز عیسی نوازشریف کا سب سے بڑا نمائیندہ ہے، اگر اس کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تو یقینناً چیخیں کوٹ لکھپت جیل سے ہی نکلیں گی۔

جسٹس فائز عیسی کو اس کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے نشان عبرت بنایا جائے، یہ ہمارا سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ ہے!!! بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
تحریکِ انصاف حقیقی معنوں میں فاشسٹ پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔
یا حیرت! ن لیگ والے عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لینے کیلئے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیں۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم کو صدر پاکستان کے ذریعہ معزول کر وا دیں۔ جسٹس قیوم کو فون کر کے سیاسی مخالفین کی سزائیں بڑھانے کے لئے دباؤ ڈالیں۔ پاناما کرپشن کیس میں نااہل ہونے کے بعد معزز ججوں کو ملک کا ستیاناس کرنے والا کہیں۔ جلسے اور تقریریں کریں کہ معزز ججز بغض سے بھرے پڑے ہیں۔ سڑکوں پر عدلیہ کے خلاف ’مجھےکیوں نکالا‘ مہم چلائیں۔ اسلام آباداور لاہور ہائی کورٹ کے نوازے ہوئے ججز شریف خاندان کو غیرمعمولی ریلیف پہ ریلیف دیتے چلے جائیں۔چیف جسٹس کے حکم پر ماڈل ٹاؤن سانحہ پر بننے والی جے آئی ٹی تک لاہور ہائی کورٹس کے ججز بند کر دیں۔
ان تمام غیرقانونی اقدامات کے باوجود ن لیگ ’جمہوری پارٹی‘ کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز رہے۔
جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف حکومت ایک معزز جج کے بیرون ملک اثاثے پکڑے جانے پر عین قانونی ریفرنس دائر کرے تو اسے فاشسٹ پارٹی ہونے کا طعنہ سننے کو ملے۔
اے منافقت تیرا ہی آسرا ہے۔
 

جان

محفلین
ان تمام غیرقانونی اقدامات کے باوجود ن لیگ ’جمہوری پارٹی‘ کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز رہیں۔
یہ بات خود سے ہی قیاس کر لی گئی ہے یا میں نے کہی ہے؟ اگر میں نے کہی ہے تو احقر گزارش کرتا ہے کہ اس کی یاد دہانی کروا دی جائے۔
جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف ایک معزز جج کی بیرون ملک اثاثے پکڑے جانے پر عین قانون ریفرنس دائر کرے تو اسے فاشسٹ پارٹی ہونے کا طعنہ سننے کو ملے۔
وہ تو خیر جب جوڈیشل کونسل بیٹھے گی تو معاملہ سامنے آئے گا کہ ان ریفرنسز میں کتنی حقیقت ہے لیکن عرض ہے کہ خطا سے پاک کوئی شخص نہیں، یقیناً اس شخص سا گھٹیا نہیں کوئی جو دوسروں کی کمزوریوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرے۔
مسلم لیگ (ن) نے جو کچھ بھی کیا وہ یقینی طور پر غط تھا لیکن پھر وہی بات عرض ہے کہ ایک غلط کام کی تاویل دوسرا غلط کام کیسے ہو سکتی ہے؟ ان کا طریقہ واردات "حرام" اور تحریک انصاف کا طریقہ واردات عین "حلال" ہے۔
غلامی تو جسٹس فائز عیسی شریف خاندان کی کر رہا ہے:
× پہلے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس ٹیکنیکل بنیادوں پر بند کیا
SC rejects NAB appeal to reopen Hudaibiya reference - Pakistan - DAWN.COM
× پھر سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا لکھا ہوا پاناما کرپشن کیس کے فیصلہ پر اعتراض اٹھایا
Surprise over SC judge remarks on Sharif verdict - Newspaper - DAWN.COM
× اور پھر آخر میں فیض آباد دھرنا کیس میں عسکری اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا
10 major takeaways from SC's Faizabad sit-in judgement - Pakistan - DAWN.COM

جس طرح ن لیگی سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو تحریک انصاف کا سپورٹر کہتے تھے۔ یہی الزام جسٹس فائز عیسی کے فیصلے پڑھ کر ان کے ن لیگ یا شریف خاندان کے حمایتی ہونے پر لگایا جا سکتا ہے۔
آپ ہی کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کیس عین منافقت پر مبنی ہے اور اثاثوں کا ظاہر نہ کرنا قانونی طور پر محض ایک جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یعنی وہی تاویل کہ ن لیگ نے چن چن کے اپنے جج رکھے لہذا ہم بھی اپنے ہی رکھیں گے۔ مسلم لیگ (ن) میں اور آپ میں بس طریقہ واردات کا فرق ہے۔ آپ کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ریفرنسز کی تلوار ان کے سر پر لٹکا دی جائے تاکہ کسی جج کو سر اٹھانے کی جرات نہ ہو اور عدلیہ اور سیاسی پارٹیاں اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھیلتی رہیں۔ کہاں گئی ریاستِ مدینہ؟ کہاں گئی عدلیہ کی آزادی؟ کہاں گیا "انصاف"؟ حکومتِ وقت کی اب تو بس چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کی کسر رہ گئی ہے۔ آپ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ جس طرح مضبوط کر رہے ہیں جلد ہی اس کے نتائج آپ کے سامنے ہوں گے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
وہ تو خیر جب جوڈیشل کونسل بیٹھے گی تو معاملہ سامنے آئے گا کہ ان ریفرنسز میں کتنی حقیقت ہے
تو پھر ساری بحث ہی ختم ہو گئی۔ تحریک انصاف حکومت نےججز کے خلاف عین قانونی ریفرنس دائر کیا ہے۔ یہی کام پچھلی حکومت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف بھی ہوا تھا۔ اس وقت تو ان نام نہاد جمہوریت پرستوں نے ان کے حق میں آواز نہیں اٹھائی۔
جوڈیشل کونسل ان ریفرنسز پر جو بھی فیصلہ صادر کرےگی حکومت اسے من و عن قبول کرے گی۔ فیصلہ خلاف توقع آنے پر ن لیگ کی طرح عدلیہ مخالف بیانات جاری نہیں کرے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ ہی کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کیس عین منافقت پر مبنی ہے اور اثاثوں کا ظاہر نہ کرنا قانونی طور پر محض ایک جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اگر جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے تمام اثاثے ظاہر کئے ہوئے ہیں تو حکومت کے علاوہ کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہاں حکومت تو آرام سے بیٹھی ہے اور اپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ کیا ان کو معلوم ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے؟ اور ان اثاثوں کی تحقیق پر وہ خود پکڑے جائیں گے؟
 
Top