’بھوک کے لیے بھارت پر تنقید‘

بھارت میں کم غذائیت کے شکار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
عالمی امدادی ادارے ایکشن ایڈ کی نئی رپورٹ میں بھوک سے نمٹنے میں چین اور برازیل کی کوششوں کو اگر سراہا گیا ہے تو بھارت کی ناکامیوں پر افسوس کا اظہار کیا گيا ہے۔

تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں بھوکے رہنے والے یا کم غذائیت کے شکار لوگوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں بھارت سمیت کئی دیگر ممالک پر بھی اس بات کے لیے نکتہ چینی کی گئی ہے کہ کم غذائیت کو ختم کرنے میں مناسب کوششیں نہیں کی گئیں۔

اس رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریبا ایک ارب افراد کم غذائیت کا شکار ہیں یعنی ہر سات میں سے ایک آدمی پیٹ بھر کھانا نہیں پاتا ہے۔

ایکشن ایڈ کی رپورٹ کے مطابق '' غیر برابری کے سلوک سے بھوک کی شروعات ہوتی ہے اور پھر اس پالیسی سے کہ بڑھتی جاتی ہے کہ کھانہ ایک حق نہیں بلکہ ایک چیز ہے۔''

برازیل کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ صدر لولا ڈی سلوا نے غریبوں کے کھانے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ برازیل کی کامیابی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ '' اگر حکومت کے پاس ذرائع ہونے کے ساتھ ساتھ منشاء ہوتو ہم کیا حاصل کر سکتے ہیں۔''

رپورٹ میں چین کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس نے گزشتہ پانچ برسوں میں چھوٹے کسانوں کی مدد کرکے کروڑ غریبوں کی حالت بہتر کی ہے۔

لیکن رپورٹ میں بھارت پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی گئی ہے کہ سنہ انیس سے نوے سے اب تک تقریبا تین کروڑ لوگ مزید کم غذايت کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ تقریبا چھیالیس فیصد بھارتی بچے معمول سے کم وزن کے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت میں میں بھوکے رہنے کی وجہ یہ نہیں کہ خوارک کی کمی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ کہ لوگوں کو اس تک رسائی نہیں ہو پاتی ہے۔ اس کے مطابق قدرتی وسائل کے استحصال سے بہت سے لوگ بے گھر ہوگئے ہیں اور اس سے غربت میں اور اضافہ ہوا ہے۔

'' جب لوک پہلے ہی سے فاقہ کرنے پر مجبور ہوں تو اسے قطعی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔''

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں روزگار کارنٹی منصوبہ سے بعض علاقوں میں حالت بہتر بھی ہوئی ہے لیکن اس سکیم کا نفاذ موثر طریقہ سے نہیں ہورہا ہے اور اسے پھیلانے کی ضرورت ہے۔

ایکشن ایڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ لکزمبرگ دنیا کا وہ ملک ہے جو بھوک سے نمٹنے کے لیے سب سے زیادہ کوششیں کر رہا ہے جبکہ نیوزی لینڈ اور امریکہ اس فہرست میں سب سے نیچے ہیں۔
bbc news
 
Top