’اوباما کی جنگ‘

حسن مجتبیٰ

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک



کامیابی کے لیے افغان حکومت میں بدعنوانی ختم کرنا ہوگی: مبصر

امریکہ کے امن کے نوبل انعام یافتہ صدر براک اوباما نے افغانستان میں مزید تیس ہزار امریکی فوجیں بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں القاعدہ کی ’محفوظ پناہ گاہیں‘ ختم کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کی جمہوریت کی مضبوطی اور ترقی میں مدد کرتا رہے گا۔

امریکی صدر براک اوباما نے افغانستان کے لیے نئی پالیسی کا اعلان نیویارک میں ویسٹ پوائنٹ امریکی فوجی اکیڈمی کے آئزن ہاور تھیٹر میں امریکی فوج کے عملداروں اور مرد و خواتین سمیت جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

امریکی صدر کی پینتیس منٹ کی تقریر میں ان کے پاکستان کے ذکر کو کچھ مبصر فقط ’پاسنگ ریفرنس‘ کی حیثیت دے رہے ہیں وہاں دوسرے تیس ہزار م‍زید فوجیں افغانستان میں بھیجنے کو موجودہ امریکی صدر کا اب تک سب سے بڑا لیکن جوکھم بھرا قدم قرار دے رہے ہیں۔

صدر (باراک اوبامہ) کو امن کا نوبل انعام جنگ ختم کرنے کی توقعات پر دیا گیا ہے نہ کہ جنگ میں شدت لانے کیلیے

جنگ مخالف ڈنکن

امریکی پبلک ریڈیو نیشنل پبلک ریڈیو(این پی آر) نے تیس ہزار مزید جوان مردوں اور عورتوں کو افغانستان بھیجنے کی پالیسی کے اعلان کے بعد افغانستان کی موجودہ جنگ کو صدر براک اوباما کی جنگ قرار دیا ہے۔

امریکی مبصر نے کہا ہے کہ جس طرح کوریا کی جنگ امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین کی جنگ، ویتنام کی جنگ صدر جانسن کی جنگ کہی جاتی ہے اس طرح افغانستان کی جنگ کو ’صدر براک اوباما کی جنگ‘ کہا جائے گا۔

ریڈیو کے سینئر مبصر صدر کی افغان جنگ کی کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار تین چیزوں پر رکھ رہے ہیں: اٹھارہ ماہ میں تیس ہزار فوجیوں کی تعیناتی مکمل کرنا، دوئم افغانستان میں مقامی فوج کی تربیت اور سوئم کرزئي حکومت میں بدعنوانی کا خاتمہ۔

جبکہ پاکستانی مبصر اور پاکستان کے متعلق دلچسپی رکھنے والے کئي حلقے کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں کمک کے اضافے سے شدت پسند افغان طالبان اور گروہ پاکستان میں پناہ گاہیں ڈھونڈھیں گے جس سے پاکستان میں حالات مزید مخدوش ہو جائيں گے۔

صدر نے ویسٹ پوائنٹ کی تاریخي تقریر میں پاکستان کو جہاں القاعدہ اور طالبان شدت پسندوں کی محفوظ پناگاہ قرارد دیا وہاں انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کے پاس یہ ماننے کے لیے جواز موجود ہیں کہ القاعدہ کے شدت پسند جوہری اسلحہ تک رسائي حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں القاعدہ کے دہشتگردوں کی موجودگی تصوراتی بات نہیں وہ اس وقت بھی امریکہ پر حملوں کے سازشوں میں مصروف ہیں جب وہ یہاں تقریر کر رہے ہیں۔

امریکی صدر نے پاکستانی فوج کی طرف سے سوات اور اب جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف بڑی جنگ کو زبردست سراہا اور کہا کہ امریکہ شدت پسند اور دہشت پسند گروہوں اور افراد کے قلع قمع میں پاکستان کا شراکت دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار خود پاکستانی ہیں

انہوں نے کہا کہ امریکی اداروں نے امریکی سرحدوں پر بھی ایسے لوگ پکڑے ہیں جو امریکہ کے اندر دہشتگردی کیلیے القاعدہ نے بھیجے تھے۔

لیکن امریکی صدر نے پاکستانی فوج کی طرف سے سوات اور اب جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف بڑی جنگ کو زبردست سراہا اور کہا کہ امریکہ شدت پسند اور دہشت پسند گروہوں اور افراد کے قلع قمع میں پاکستان کا شراکت دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار خود پاکستانی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ دن گئے جب پاکستان میں عسکری حلقے شدت پسندی کی حمایت کرتے تھے۔ وہ دن بھی گئے جب امریکہ دہشتگردی کی جنگ میں ’بلینک چیک‘ دیا کرتا تھا۔

امریکی میڈیا نے کہا کہ صدر اوباما پچھلے چھ ماہ سے اپنی تقریر کی تیاری اور اس سے ذرا پہلے تک اپنی قومی سلامتی کی ٹیم سے پاکستان اور افغانستان پر بریفنگ لیتے رہے تھے اور جس میں اس مفروضے پر بھی غور کیا گیا ہوگا کہ اگر پاکستان ٹوٹ جاتا ہے تو پھر؟

امریکہ میں جنگ پسند اور جنگ مخالف دونوں حلقے ان کی افغانستان پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں۔ ’صدر (باراک اوبامہ) کو امن کا نوبل انعام جنگ ختم کرنے کی توقعات پر دیا گیا ہے نہ کہ جنگ میں شدت لانے کیلیے‘ایک جنگ مخالف کارکن ڈنکن نے بی بی سی اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا۔

ڈنکن ہر سنیچر کو نیویارک میں کوئینز کے فلشنگ علاقے میں مرکزی لائ۔بریری کے سامنے عراق اور افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کے حق میں جنگ مخالف مظاہرے میں شریک ہوتے ہیں۔

جبکہ امریکہ میں انتہائي دائيں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے فاکس ٹی وی کے پنڈت صدر اوباما کے افغانستان میں تیس ہزار امریکی فوجوں کے اعلان کے دوران گوانتانامو بے جیسے قید خانے کے بندکرنے کے ذکرسمیت دنیا کو انسانی حقوق کی بالادستی کی یقین دہانی کراتے اوباما کی امریکی اقدار کی بات کرنے پر سیخ پا نظر آتے تھے۔
 
Top