۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہزاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

anwarjamal

محفلین
یہ ایک ٹیکسٹائل مل ھے اور میں کوالٹی چيکر ہوں ،، اس دن میں اپنی میز پر سر جھکائے کچھ لکھ رہا تھا جب مجھے کسی کے آنے کا احساس ہوا ،، میں نے سر اٹھا کر دیکھا وہ ڈرابکس کھاتے کا سپروائزر تھا ، فیکٹری میں نئے بھرتی کیئے گئے لڑکوں میں سے ایک لڑکا اس کے ساتھ تھا ،، اور وہ لڑکا ،،،

میں نے اپنا پین میز پر رکھ دیا ،، اور ایک مسلسل ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے لگا ،، کیا پوری دنیا میں اس سے زیادہ خوبصورت لڑکا کہیں ہو سکتا ھے ،،؟ میں نے خود سے سوال کیا اور خود ہی جواب دیا کہ نہیں ہو سکتا ،،

سپر وائزر کے ساتھ آنے والا لڑکا جو محض تیرہ یا چودہ سال کا ہو گا انتہائی حسین و جمیل تھا ،،

سپر وائزر نے اس کی فائل مانگی ،، میں نے نام پوچھا ،، شہزاد نام بتایا گیا ،،

صرف نام سن کر ہی میں سمجھ گيا کہ معاملہ کیا ھے ،، اس لڑکے کی پروڈکشن معیار سے کم اور ناقص تھی ،،

سپروائزر نے فائل اسے دکھائی اور ڈانٹنا شروع کر دیا ،،ایسے کام کرتے ہیں ،، اتنا مال خراب کردیا ھے تم نے اس کا ذمہ دار کون ھے ،،

شہزاد سر جھکا کر اپنے ہونٹ کاٹنے لگا ،، اس کی یہ ادا تو اور بھی قاتلانہ تھی ،،

جب وہ دونوں چلے گئے تو میں نے اپنا پین اٹھایا مگر اس سے پہلے کہ کچھ اندراج کرتا ، ایک آواز آئی

،،کیا چيز ھے یار ،،

اور تب مجھے یاد آیا کہ دفتر میں میں اکیلا نہیں میرے تین ساتھی اور ہمارے انچارج جناب رزاق صاحب بھی تشریف رکھتے ہیں ،،
پہلی بار مجھے رزاق صاحب پر حیرت ہوئی ،،، وہ اس قسم کے آدمی نہیں تھے ،، لیکن وہ جملہ بیساختہ انہی کی زبان سے ادا ہوا تھا ،،

دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو رزاق صاحب جو انچارج ہونے کے علاوہ میرے بہت اچھے دوست بھی تھے رازداری سے کہنے لگے ،یار پہلوان ؛ میرے ڈیل ڈول کی وجہ سے وہ مجھے پہلوان کہتے تھے ،،

یار پتہ کرو وہ لڑکا کہاں سے آیا ھے ،، ؟اس کا گھر کہاں ھے ؟ اور اتنی کم عمری میں ہی وہ فیکٹری لائن میں کیوں آگیا ،، تمہیں تو پتہ ہی ھے کہ اس فیکٹری کا ماحول کیسا ھے ،، میں اسے کسی کے ہاتھ لگنے نہیں دوں گا ،،،

قریب تین بجے میں ڈرابکس سیکشن میں گیا ،، میں کوالٹی چيکر تھا اس لیئے کسی بھی وقت کسی بھی شخص کی مشین پر جاکے کھڑا ہو سکتا تھا ،،

میں نے شہزاد کو دیکھا وہ اپنی مشین پر پھرتی سے کام کر رہا تھا ،، میں اس کے پاس گیا ،،اور مشفقانہ لہجے میں کلام کرتے ہوئے کہا ،، بیٹا بہت دھیان سے کام کرنا ،،، مال خراب کرو گے تو ہماری کھنچائی ہو جائے گی ،، جنرل منیجر بڑا سخت آدمی ھے ،،
پھر میں نے اس سے کچھ ذاتی سوال کیئے ،،، جن کے جواب پاکر مجھے بڑا ترس آیا اور ایکبار یہ بھی دل چاہا کہ اسے گلے سے لگا لوں ،،، اور خوب پیار کروں ،،

بیچارہ بہت ہی غریب گھرانے کا سپوت ھے ،، اگلی صبح میں نے رزاق صاحب کو معلومات فراہم کیں ،، وہ اپنے سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ھے ،، کسی بھی فیکٹری میں کام کرنا اس کی مجبوری ھے کیونکہ اس کا باپ انہیں چھوڑ کر بغیر بتائے کہیں چلا گيا ھے ،،،

رزاق صاحب نے انتہائی افسوس سے سر ہلایا اور کہا کہ آج کسی بہانے سے میں اسے یہاں لے کر آؤں ،، یعنی ہمارے دفتر میں ،،

میں نے ہاف ٹائم پر اسے ڈھونڈا ، وہ کینٹین میں کھانا کھا رہا تھا ،،

بیٹا ، جلدی سے کھانا کھا لو ، آپ کو رزاق صاحب بلا رھے ہیں ،،

میں نے اپنائیت بھرے لہجے میں کہا ، مگر وہ سہم گیا ،، اور خوفزدہ ہو کر مجھے دیکھنے لگا ،،
اف ،،، کتنا معصوم چہرہ تھا اس کا ،، اور کتنی پیاری آنکھیں تھیں ،،

کیا میں اس کے دل میں جگہ بنا سکوں گا ،،؟ میں نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی خواب دیا کہ ،، ہرگز نہیں ،،

بیٹا ڈرنے والی کوئی بات نہیں وہ تمہیں ڈانٹیں گے نہیں ، بس ایسے ہی بلا رھے ہیں ،، میں نے اسے تسلی دی ،،

وہ کھانا کھا کر میرے ساتھ ہو لیا ،،

ادھر رزاق صاحب بے چینی سے اس کا انتظار کر رھے تھے .

جاری ھے ،،
 

anwarjamal

محفلین
ادھر رزاق صاحب بے چینی سے اس کا انتظار کر رھے تھے .



اسے دیکھا تو خوشی سے کھل اٹھے ،، یار پہلوان ؛ جلدی سے چائے بھی لے آؤ ،، ایک کرسی شہزاد کی طرف بڑھاتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا ،،

میں الٹے قدموں واپس چل دیا ،، میں سمجھ گیا تھا کہ کباب میں ہڈی ہوں ،، اس لیئے فورا ہی چائے لے کر نہیں پہنچا ،، میں نے آدھے گھنٹے کی مہلت رزاق صاحب کو عطا کردی اور سوچنے لگا کہ اگر میری ترقی ہوئی تو تنخواہ میں کتنے فیصد اضافہ متوقع ھے ،،

آدھا گھنٹہ بہت تھا جب تک رزاق صاحب اسے لطیفے اور پتہ نہیں کیا کیا قصے کہانیاں سنا کر اپنا گرویدہ بنا چکے تھے ،،

میں چائے لے کر پہنچا تو بچہ کسی بات پر کھلکھلا کر ہنس رہا تھا ،، اس کا تمام ڈر خوف رخصت ہو چکا تھا ،، حالانکہ وہی رزاق صاحب تھے جن سے بڑے بڑے افسر بات کرتے ہوئے کانپتے تھے ،،

اس دن کے بعد سے رزاق صاحب اپنے دفتر میں چہکنے لگے ہر کسی سے ہنسی مذاق چھیڑ چھاڑ کرنے لگے ، خوش رہنے لگے ،،

میں نے سوچا کہ چلو یار کوئی تو خوش ھے ،، ھم نہیں تو کیا ہوا ،،
مجھے شہزاد بہت اچھا لگتا تھا ،، بلکہ مجھے ہی کیا ساری لیبر اور سب سئنیر جونئیر کی آنکھوں کا تارہ تھا وہ ،،
وہ معصوم صورت بہت گورا اور قدرتی سرخ ہونٹوں والا لڑکا تھا ، اور اس میں نہایت عجیب طرح کا محبوبانہ پن بھی تھا ،،

لیکن رزاق صاحب کی وجہ سے کسی کی جرات نہیں تھی کہ اسے بری نظر سے دیکھتا ،،،

بری نظر سے دیکھنے کیلیئے رزاق صاحب کافی تھے ،، جو ہر دوسرے تیسرے دن فرمائش کر بیٹھتے ،، یار پہلوان ،، اسے بلا کر لاؤ یار ، کام میں دل نہیں لگ رہا ،،

اور میں دل ہی دل میں کہتا کہ رزاق صاحب اس سے ملنے کے بعد تو اور بھی دل نہیں لگے گا ،،،

رزاق صاحب اسے دفتر میں بلاتے ، چائے پلاتے بسکٹ کھلاتے ، اس سے باتیں کرتے اور ٹکر ٹکر اسے دیکھتے رہتے ،،

آتے جاتے ہوئے اسٹاف کے دوسرے لوگ یہ چيز نوٹ کر رھے تھے ،، کھسر پھسر اور چہ ميگوئیاں شروع ہو چکی تھیں ،،لیکن پرواہ کسے تھی ،،

شہزاد کی ڈیوٹی ایک ہفتہ دن اور ایک ہفتہ رات تھی ،،

جب اس کی رات کی ڈیوٹی ہوتی تو ہمارے دفتر میں سوگ کا سا سماں ہوتا ،، یا پھر وقتا فوقتا رزاق صاحب کی چنگھاڑ سنائی دیتی کہ تم لوگ توجہ سے کام کیوں نہیں کر رھے الو کے پٹھو ؛

دن گزرتے رھے اور ہر گزرتا دن بد سے بدنام برا کے مصداق شہزاد کو بدنام کرتا رہا ،، اس کی رات کی ڈیوٹیوں کی دوران ایک دن رزاق صاحب کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا ،،،

یار پہلوان ؛ اسے کہو آج رات چھٹی کر لے ،، انہوں نے رازداری سے مجھے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا ،،

میرا دل دھک دھک کرنے لگا چھٹی حس نے کسی ممکنہ خطرے کا اعلان کر دیا تھا ،،

مگر رزاق صاحب ، وہ کیوں چھٹی کرے ؟ میں نے سوال تو کر دیا مگر اس کا جواب مجھے الہام کے ذریعے مل چکا تھا ،،

یار اسے قائل کرو کہ آج رات وہ میرے گھر رھے ،،رزاق صاحب نے منت کی ،،

میرے ہاتھ سے قلم چھوٹ کر گر پڑا ،،

جاری ھے ،،،
 

anwarjamal

محفلین
۔۔۔۔۔۔

ایسے کیوں دیکھ رھے ھو مجھے ؟ رزاق صاحب سٹپٹائے ،، میں کچھ کروں گا نہیں ،، ان کے دل کا چور بولا ،،

میں قائل نہ ہو سکا ،،

انہوں نے اپنی اس خواہش کا ایک بار پھر اظہار کیا کہ وہ جی ایم سے سفارش کر کے مجھے ترقی دلوائيں گے ،،

میں نے ان کی طرف دیکھا اور مجھے لگا کہ ان کی یہ خواہش ہی واحد وجہ ھے جو انہیں دوسروں میں ممتاز کرتی ھے ورنہ تو وہ ایک ٹکے کے آدمی نہیں تھے ،،

شہزاد کو میں نے کس طرح اس رات چھٹی کیلیئے آمادہ کیا یہ میں ہی جانتا ہوں ،، ظاہر ھے وہ بچہ اپنے گھر سے سائیکل پر چار کلومیٹر دور اس فیکٹری میں کام کی نیت سے آتا تھا ،، وہ اپنے کام سے مخلص تھا اور صرف اپنے کام سے کام رکھنا چاہتا تھا ،،

میں نے اسے رزاق صاحب کے گھر پہنچا دیا اور اس کی سائیکل فیکٹری میں سائیکل اسٹینڈ والی جگہ کھڑی کر دی ،، یہ میری فاش غلطی تھی ،، کیونکہ سائیکل سے صاف پتہ چل رہا تھا شہزاد گھر سے ڈیوٹی پر آيا ھے ،، مگر اس کے بعد اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گيا ،،یہ سوچنے کی بات تھی ،، میں نے انجانے میں سب کو دعوت دے دی کہ وہ اس معاملے پر خوب سوچيں ،،

اس رات میں چين سے نہ سو سکا ،،رات کو بار بار آنکھ کھلتی رہی ،، مجھے شہزاد کی فکر ستاتی رہی ،، میں نے اپنے بیوی بچوں کی طرف دیکھا جو سکون سے سو رھے تھے ،، میرا اپنا بڑا بیٹا شہزاد کی عمر کا تھا وہ نویں جماعت میں پڑھ رہا تھا ،، مگر اس کی زندگی کسی خون چوسنے والی فیکٹری کے گندے ماحول سے لتھڑی ہوئی نہيں تھی ،،

مجھے اس رات شہزاد پر بڑا ترس آیا ،، دوسرے دن جب میں سو کر اٹھا تو میرے دل میں رزاق صاحب کیلیئے نفرت کے سوا اور کچھ نہیں تھا ،،

پتہ نہیں کیوں میں اس دن معمول سے پہلے ہی دفتر پہنچ گيا ،، ساڑھے آٹھ کے قریب جب رزاق صاحب آئے تو میری مشاہدے کی آنکھ نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا ،، ان کی آنکھوں میں گذشتہ رات کا خمار واضح جھلک رہا تھا ،، اور ان کی باڈی لینگویج کسی ان دیکھی مسرت کا پیغام دے رہی تھی ،،

میرے سینے پر سانپ لوٹ گیا ،، میں نے موقع پاتے ہی رزاق صاحب کو یوں گھیر لیا جیسے شادی کے دوسرے دن کسی دلہن کی سہیلیاں اسے گھیر لیتی ہیں ،،

کچھ نہیں ہوا یار ،،، یقین کرو کچھ نہیں ہوا ،،رزاق صاحب نے میرے ان کہے سوال کو بھانپتے ہوئے کہا ،، وہ ایک حد سے زیادہ پیش قدمی نہیں کرنے دیتا ،،

میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ کچھ نہیں ہوا ورنہ میرا ضمیر عمر بھر لعنت ملامت کرتا رہتا ،

پھر مجھے ایک خیال آیا ،، میں نے پوچھا ، رزاق صاحب اگر وہ ایک حد سے زیادہ پیش قدمی نہیں کرنے دیتا ،،تو آخر اس کی حد کیا ھے ،،،؟

رزاق صاحب اس سوال پر مسکرائے ، ان کی خمار آلود پلکیں مزید خمار کے بوجھ سے جھک گئيں ،،

انہوں نے گزری ہوئی شب کے چند لطیف لمحوں کو یاد کیا اور کہا ،، بوسہ بازی ،،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاحول ولا قوت ؛ میں نے طے کر لیا کہ اب کسی طور ان صاحب کی مدد نہیں کروں گا ،،،اور سہزاد سے مل کر اسے زمانے کی اونچ نیچ سے آگاہ کروں گا ،،

لیکن کرنا خداکا کیا ہوا کہ اسی روز قریب 3 بجے کے وقت جب آفس بند ہونے میں صرف ایک گھنٹہ باقی تھا مرزا صاحب آدھمکے ،،

مرزا فیکٹری میں ایک غیر معمولی شخص تھا ،، اس کا عہدہ کیا ھے یہ کسی کو نہیں پتہ تھا ،، بس اتنا معلوم تھا کہ میاں صاحب ( فیکٹری کے مالک ) نے ورکرز پر نظر رکھنے کیلیئے اسے ہیڈ آفس سے یہاں بھیج دیا ھے ،،

وہ منیجر کے کمرے سے لے کر فیکٹری کے ہر سیکشن میں بلا جھجھک اور بلا روک ٹوک جا سکتا تھا ،، اور کسی کو بھی اس کی غلطی پر پکڑ سکتا تھا ،،

منڈا تے بڑا سوہنا اے رزاق صاحب ؛ مرزا آتے ہی ایک رجسٹر کھول کر بیٹھ گیا اور اونچی آواز میں بڑبڑایا ،،

میرے جسم میں سردی کی لہر دوڑ گئی ،،

کون ؟ کیہڑا منڈا ،،؟رزاق صاحب نے طیش کے عالم میں سوال کیا ،، سمجھ تو وہ گئے تھے ،،

مرزا صاحب میری طرف گھومے ، یار پہلوان ، ان کو بتاؤ کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں ،، وہ کل رات ڈیوٹی پر آیا تھا مگر اس کی مشین تمام رات بند رہی اور اس کی سائیکل فیکٹری کے اندر کھڑی رہی ،،

مرزا صاحب کی بات سن کر میرا وہ حال ہو گیا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ،، ایسا لگا کہ یہ سب میرا ہی کیا دھرا ھے ،، میں ہی سب سے بڑا مجرم ہوں اور اب میری خير نہیں ،،

اس سے پہلے کہ میں کوئی صفائی پیش کرتا ،، رزاق صاحب جارہانہ لہجے میں بولے ،،، اوئے مرزا اپنے کام سے کام رکھو ، سمجھے ،،

مرزا اٹھ کھڑا ہوا اور رزاق صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ،،
رزاق صاحب میں اپنا کام ہی کر رہا ہوں اور یہی میرا کام ھے ،، آئیندہ مجھے شکایت نہ ملے ،، اس نے رزاق صاحب پر انگلی اٹھائی اور چلا گيا ،،

رزاق صاحب کی اسٹاف کے سامنے سخت بے عزتی ہو چکی تھی ،، وہ پندرہ سال سے اس فیکٹری میں خدمات انجام دے رھے تھے ، فیکٹری کی تمام مصنوعات ان کی زیر نگرانی لوڈ ہو کر باہر جاتی تھی ،، میں سمجھ گيا کہ اب معاملہ رکنے والا نہیں ،،

اس کے ایک روز بعد ہی فیکٹری میں شور و غوغا مچ گیا ،، کیشئر کے کمرے میں کسی بات پر مرزا اور رزاق صاحب کی ہاتھا پائی ہو گئی ،،دونوں نے ایک دوسرے کو آزادانہ گھونسے رسید کیئے اور کپڑے پھاڑے ،،

اگلے روز خود میاں صاحب فیکٹری میں آن وارد ہوئے ،، اور ایک فوری اور اھم اجلاس طلب کر لیا ،،،

میں آفس میں بیٹھا اپنے مستقبل کو رو رہا تھا ،، مجھے ڈر تھا کہ اگر رزاق صاحب کی چھٹی ہوئی تو میں بھی نہیں بچوں گا ،، قاتل اگر رقیب ھے تو تم گواہ ھو کے مصداق ،،

اور اگر مرزا کی چھٹی ہوئی ؟؟ تب کیا ہوگا ؟ میں نے خود سے سوال کیا اور خود ہی جواب دیا ،، تب تو شہزاد کا اللہ ہی حافظ ھے ،،

میٹنگ جاری تھی ،، جوں جوں وقت گزر رہا تھا میری بے قراری بڑھتی جارہی تھی ،، آخر مرزا میاں صاحب کیليئے کتنا اہم ھے ،،،اگر رزاق صاحب نے دھمکی دے دی کہ میاں صاحب اب یا تو یہ رھے گا یا میں تو میاں صاحب کیا فیصلہ کریں گے ،،،

وقت گزرتا رہا ،،، آخر کار دو گھنٹے کی میٹنگ کے بعد فیصلہ آ گیا ،،

شہزاد کو فیکٹری سے خارج کر دیا گیا تھا ؛

________________

تحریر انور جمال انور
 

نایاب

لائبریرین
بلا شبہ اک سکوت میں دھکیل دینے والا تلخ حساس حقیقتوں کا حامل افسانہ
بہت شکریہ محترم انور جمال بھائی شراکت پر
 
Top