یہ ’’میڈیائی سرخے‘‘ کون ہیں؟

جاسم محمد

محفلین
یہ ’’میڈیائی سرخے‘‘ کون ہیں؟
مظہر عباس
19 دسمبر ، 2019

13؍مئی 1978، کوٹ لکھپت جیل میں 4 صحافیوں کو کوڑے مارے جانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کیونکہ اوپر سے حکم تھا کہ سزا پر فوراً عملدرآمد کیا جائے۔

ناصر زیدی، اقبال جعفری، خاور نعیم ہاشمی اور مسعود اللہ خان کو میدان میں لایا گیا۔ ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو مسعود خان کو معذوری کی وجہ سے کوڑے مارنے سے منع کر دیا۔ باقی تین کو کوڑے لگے تو ہر کوڑے پر ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ’’آزادیٔ صحافت زندہ باد‘‘۔ یہ جدوجہد 72سال پر محیط ہے۔

کبھی اس تحریک کو بائیں بازو سے جوڑا گیا، کبھی ان لوگوں پر کمیونسٹ ہونے کا الزام لگا، کبھی پی پی پی کا ساتھ دینے اورکبھی بھٹو مخالف ہونے کا۔ اب ہمارے ایک دوست نے ’’میڈیائی سرخوں‘‘ کے لقب سے نوازا ہے آپکی بڑی نوازش! یہ سرخے تھے یا نہیں، یہ تو پتا نہیں البتہ کبھی گرگٹ کی طرح وقت کے ساتھ ساتھ رنگ نہیں بدلا۔ آئیں آپ کو ان سے ملواتا ہوں۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے ایک سینئر رہنما نے اس وقت کےایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کو مشورہ دیا کہ اس اخبار میں ’’سرخوں‘‘ کی تعداد بہت زیادہ ہے، کچھ کم کرو۔ انہوں نے جواب دیا ’’جی آپ درست فرما رہے ہیں۔ مجھے خود بھی کمیونسٹوں سے کوفت ہوتی ہے مگر یہ سارے اپنے پیشہ ورانہ کام میں ماہر ہیں، میں انہیں نکال نہیں سکتا‘‘۔

1949میں ایسے ہی تین صحافی جناب ایم اے شکور، احمد علی خان اور اسرار احمد نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا صحافیوں کی تنظیم بنائی جائے۔ فیصلہ ہوا کہ ایس ایم لا کالج کے ہال میں اجلاس کیا جائے، اس وقت تک کراچی پریس کلب قائم نہیں ہوا تھا۔ پرنسپل نے بخوشی اجازت دے دی۔

اخبار میں مختصر سی خبر بھی لگ گئی مگر جس دن اجلاس ہونا تھا، انتظامیہ نے گیٹ پر تالا لگا دیا۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ خبر لگنے کے بعد ’’اوپر‘‘ سے حکم ملا ہے کہ یہ بائیں بازو کے لوگ ہیں، اجلاس نہ کرنے دیا جائے۔

کچھ عرصے بعد سندھ یونین آف جرنلسٹس کا قیام عمل میں آیا۔ اس تنظیم نے اپنے جریدہ کے لئے ڈیکلریشن مانگا اور ذمہ داری صحافی مصطفیٰ حیدر صاحب کی لگائی ۔حیدر صاحب لکھتے ہیں ’’مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب اجازت نامہ نہ دینے کی وجوہات میں ایک وجہ ایس یو جے کو سرخوں کی تنظیم سے تعبیر کیا گیا اور مجھے بھی کمیونسٹ لکھا گیا حالانکہ میں اینٹی کمیونسٹ تھا‘‘۔

’’میڈیائی سرخوں‘‘ کا جو لقب آج دیا گیا ہے، وہ ریاستی فائلوں میں قیامِ پاکستان کے بعد سے موجود ہے۔ ذرا اور محنت کریں تو اُن کی فہرست بھی مل جائے گی جو آمروں کو مردِ مومن مردِ حق لکھتے رہے ہیں۔

یہ آپ کا حق ہے جس کو چاہیں جس خطاب سے نوازیں مگر یہ ضرور سمجھنے کی کوشش کریں کہ جو اظہارِ رائے آپ کو آج حاصل ہے، اس کی جدوجہد کن لوگوں نے کی ہے اور کس کس نے ایسی تحریکوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ اصغر خان کیس میں تو کچھ کے نام بھی موجود ہیں۔

مشرقی پاکستان کے المیہ میں میڈیا کے کردار پر ڈاکٹر مہدی حسن کی کتاب پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کیا کیا لکھا جاتا رہا ہے۔ بنگالی غدار ٹھہرے اور جو لوگ یہ لکھتے رہے کہ ’’محبت گولیوں سے نہیں بوئی جاتی‘‘ وہ بھی غیر محبِ وطن ٹھہرے۔

منہاج برنا مرحوم نے PFUJکے صدر کے طور پر جب یہ بیان دیا کہ ’’آپریشن بند کیا جائے‘‘، تو ان کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

یہ بھی ہمارے دوست کی غلط فہمی ہے کہ ’’میڈیائی سرخے‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کو بہت ’’آئیڈیلائز‘‘ کرتے ہیں۔ جب وہ برسر اقتدار آئے اور دائیں بازو کے میڈیا کو زیر اور دبائو میں لانے کی کوشش کی اور اُن کے رسائل پر پابندی لگائی تو یہی ’’میڈیائی سرخے‘‘ تھے جنہوں نے ہڑتال بھی کی اور احتجاج بھی کیا۔ بعد میں حسین نقی جیسے بائیں بازو کے صحافی کو بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔

1978آیا تو پی پی پی کے اخبار مساوات پر پابندی لگا دی گئی۔ صحافیوں نے بھرپور تحریک چلائی، گرفتاریاں دیں، جب تحریک عروج پر تھی تو کچھ دوست اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمٰن اور محمود اعظم فاروقی مرحوم کے ساتھ معاملات کر بیٹھے اور تحریک سے الگ ہو گئے۔

جیلوں میں رہنے والے کسی رہنما نے کبھی رعایت نہیں مانگی۔ عبدالحمید چھاپرہ نے 16جیلیں کاٹیں۔ کراچی پریس کلب ’’دشمنوں اور سرخوں‘‘ کا کلب کہلانے لگا۔ یہ نہیں کہ غلطیاں نہیں ہوئیں، ہمارے کچھ ساتھی بھی مصلحتوں کا شکار ہوئے اور اب تو ہم اتنے منقسم ہیں کہ سوائے ایک دوسرے پر الزام لگانے کے، کوئی کام نہیں رہا مگر آخری منظم لڑائی جنرل پرویز مشرف کے دور میں لڑی۔

3؍نومبر 2007کو میڈیا اور اینکرز پر پابندی کے خلاف 88روزہ تحریک چلی۔ اس سے پہلے بھی کچھ معاملات میں میڈیا پر دبائو رہا جیسے بلوچستان یا مسنگ پرسنز پر پروگرام اور تحریروں کو پسند نہیں کیا جاتا۔

اس سے پہلے بینظیر بھٹو کے دور میں شام کے چھ اخبارات پر پابندی لگی تو ہڑتال کی کال دی گئی مگر چند دن بعد پابندی اٹھالی گئی، مگر جو اب ہو رہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔

ایک ریاستی بیانیے کے ذریعے خاموشی سے میڈیا اور آزادیٔ اظہار کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بڑے میڈیا ہائوسز خاص نشانہ ہیں۔ صرف ’’مثبت صحافت‘‘ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

واقعی ’’میڈیائی سرخوں‘‘ کے سامنے بڑا چیلنج ہے کیونکہ پہلے ہمیں دائیں اور بائیں میں تقسیم کیا گیا پھر ذاتی مفادات نے نظریات کو کمزور کر دیا۔

آپ ’’میڈیائی سرخوں‘‘ کی آزادیٔ اظہار کی خواہش پوری کر دیں باقی سب آپ کا ہے، خوش رہیں!
 
Top