یہ ہی خطا تھی میری دنیا میں دل لگایا

الف عین
یاسر شاہ
@خلیل الر حمن
فلسفی
-------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
----------
یہ ہی خطا تھی میری دنیا میں دل لگایا
کر دے معاف میری غلطی کو تُو خدایا
------------
کتنے ہی دکھ اُٹھائے تجھ سے تو دور رہ کر
میری خطا نے یا رب مجھ کو یہ دن دکھایا
------------
دنیا یہ بے وفا ہے میں جانتا تھا اس کو
میری یہی خطا ہے ،دھوکے میں پھر بھی آیا
------------------
زخموں پہ یہ تو مرہم رکھتی نہیں کبھی بھی
اپنا اسے جو سمجھا دھوکہ اسی نے کھایا
----------------
لوٹا رہا ہوں وہ ہی دنیا نے جو دیا تھا
نفرت کا بیج دل میں اس نے مرے لگایا
-------------
نفرت سی ہو گئی ہے لوگوں کی دوستی سے
میرا بنا نہ وہ ہی اپنا جسے بنایا
---------------------
دنیا کی دوستی تو اچھی نہیں ہے ارشد
جس کے بھی کام آئے اُس نے تجھے ستایا
 

الف عین

لائبریرین
یہ ہی، وہ ہی، تو، بھی وغیرہ جہاں بھرتی کے الفاظ ہوں، انہیں خود ہی دور کر کے پھر پیش کریں۔
میرے مشورے پر غور کیا کریں بھائی اور یوں :کاتا اور لے دوڑی' نہ کیا کریں
 
الف عین
-------------
اصلاح کے بعد دوبارا حاضرِ خدمت
---------------------
میری یہی خطا تھی دنیا سے دل لگایا
میں نے جہاں کی خاطر یا رب تجھے بھلایا
------------
دوری میں تیری یا رب میں نے ہیں دکھ اُٹھائے
میری خطا تھی ساری جس نے یہ دن دکھایا
------------
اچھی طرح خبر تھی ، دنیا تو بے وفا ہے
یہ جانتے ہوئے بھی دھوکے میں اس کے آیا
------------------
زخموں پہ یہ کسی کے مرہم کبھی نہ رکھے
اپنا اسے جو سمجھا دھوکہ اسی نے کھایا
----------------
لوٹا رہا ہوں وہ ہی دنیا نے جو دیا تھا
نفرت کا بیج دل میں اس نے مرے لگایا
-------------
نفرت سی ہو گئی ہے لوگوں کی دوستی سے
میرا بنا نہ وہ ہی اپنا جسے بنایا
---------------------
دنیا ہے چیز ایسی بنتی نہیں کسی کی
صدمے ہزار جھیلے دل میں اُنہیں چھپایا
---------------
دنیا کی دوستی تو اچھی نہیں ہے ارشد
جس کے بھی کام آئے اُس نے تجھے ستایا
 

الف عین

لائبریرین
کچھ بہتری ہے
میری یہی خطا تھی دنیا سے دل لگایا
میں نے جہاں کی خاطر یا رب تجھے بھلایا
------------ بس یہ مری خطا تھی.... سے اظہار زیادہ پر زور لگتا ہے

دوری میں تیری یا رب میں نے ہیں دکھ اُٹھائے
میری خطا تھی ساری جس نے یہ دن دکھایا
------------ تیری دوری یا تجھ سے دوری؟
تھا دور تجھ سے یا رب، یوں میں نے دکھ اٹھانے
خطا پچھلے ہی شعر میں ہے، اسے رپیٹ نہ کریں
بس یہ غلط کیا تھا..... بہتر ہو گا
اگر پچھلے شعر میں 'بس' استعمال کریں تو یہاں نہ کریں
کیا بھول تھی یہ میری.... کیا جا سکتا ہے

اچھی طرح خبر تھی ، دنیا تو بے وفا ہے
یہ جانتے ہوئے بھی دھوکے میں اس کے آیا
------------------ درست

زخموں پہ یہ کسی کے مرہم کبھی نہ رکھے
اپنا اسے جو سمجھا دھوکہ اسی نے کھایا
---------------- یہاں فاعل غائب ہو گیا! نظم ہوتی تو دنیا کی بات ہو رہی ہے، یہ سمجھ میں آ جاتا۔
ویسے ایک آدھ شعر کو چھوڑ کر یہ نظم ہی ہے مسلسل غزل کی شکل میں۔ اس لیے یوں بھی قبول کیا جا سکتا ہے

لوٹا رہا ہوں وہ ہی دنیا نے جو دیا تھا
نفرت کا بیج دل میں اس نے مرے لگایا
------------- وہ ہی! وہ سب کیا جا سکتا ہے
لیکن دوسرے مصرعے میں غیر متعلق بات ہے

نفرت سی ہو گئی ہے لوگوں کی دوستی سے
میرا بنا نہ وہ ہی اپنا جسے بنایا
--------------------- وہ ہی! وہ بن سکا نہ میرا. لیکن شعر دو لخت لگتا ہے

دنیا ہے چیز ایسی بنتی نہیں کسی کی
صدمے ہزار جھیلے دل میں اُنہیں چھپایا
--------------- یہ بھی بے ربط مصرعے ہیں

دنیا کی دوستی تو اچھی نہیں ہے ارشد
جس کے بھی کام آئے اُس نے تجھے ستایا
.... جس شخص کے کام آئے؟ کسی شخص کی بات ہے یا دنیا کی ہی بات جاری ہے، واضح نہیں ہوتا
 
الف عین
-------
دوبارا حاضرِ خدمت
------------
بس یہ مری خطا تھی دنیا سے دل لگایا
میں نے جہاں کی خاطر یا رب تجھے بھلایا
------------
تھا دور تجھ سے یا رب، یوں میں نے دکھ اٹھانے
بس یہ غلط کیا تھا جس نے یہ دن دکھائے
-----------------
اچھی طرح خبر تھی ، دنیا تو بے وفا ہے
یہ جانتے ہوئے بھی دھوکے میں اس کے آیا
------------------ درست

زخموں پہ یہ کسی کے مرہم کبھی نہ رکھے
اپنا اسے جو سمجھا دھوکہ اسی نے کھایا
----------------

لوٹا رہا ہوں وہ سب دنیا نے جو دیا تھا
نفرت کروں میں ان سے لوگوں نے ہی سکھایا
----------------
نفرت سی ہو گئی ہے لوگوں کی دوستی سے
میرا بنا نہ وہ ہی اپنا جسے بنایا
---------------------
شکوہ زباں پہ لانا سیکھا نہیں ہے میں نے
جتنے بھی دکھ اُٹھائے دل میں اُنہیں چھپایا
------------
کرتا رہوں گا خدمت لوگوں کی ہر طرح سے
میں تو کروں گا وہ جو رب نے مجھے سکھایا
---------------
دنیا کی دوستی سے جی بھر گیا ہے ارشد
اللہ سے دل لگاؤ جس نے تجھے بنایا
 

الف عین

لائبریرین
شروع کے تو درست ہو گئے ہیں
لوٹا رہا ہوں وہ سب دنیا نے جو دیا تھا
نفرت کروں میں ان سے لوگوں نے ہی سکھایا
---------------- دوسرا مصرع اب بھی غیر متعلق ہے

نفرت سی ہو گئی ہے لوگوں کی دوستی سے
میرا بنا نہ وہ ہی اپنا جسے بنایا
--------------------- میں نے لکھا تھا
وہ ہی! وہ بن سکا نہ میرا.
شاید سمجھ نہیں سکے کہ یہ ٹکڑا بدلنے کا مشورہ دیا تھا 'میرا بنا نہ وہ ہی' کو 'وہ بن سکا نہ میرا'
لیکن یہ بھی لکھا تھا کہ دو لختِ ہے

شکوہ زباں پہ لانا سیکھا نہیں ہے میں نے
جتنے بھی دکھ اُٹھائے دل میں اُنہیں چھپایا
------------ سیکھا نہیں تھا شاید بہتر ہو. درست

کرتا رہوں گا خدمت لوگوں کی ہر طرح سے
میں تو کروں گا وہ جو رب نے مجھے سکھایا
--------------- میں تو کروں گا.... سے لگتا ہے کہ اب خدمت کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا ہے۔ الفاظ ہمیشہ ایسے استعمال کرنا چاہیے جو پچھلی بات کو سپورٹ کریں نہ کہ قاری کو مزید بہکا دیں۔ یہاں کچھ ایسا محل ہے
مجھ کو مرے خدا نے یہ راستہ دکھایا، یا الفاظ بدل کر 'یہ سبق سکھایا'

دنیا کی دوستی سے جی بھر گیا ہے ارشد
اللہ سے دل لگاؤ جس نے تجھے بنایا
.... ٹھیک
 
Top