ساجدتاج
محفلین


یہ ہوس کیوں ؟

پیسہ انسان کو امیر بنا دیتا ہے یہ دیکھا اور سُنا تھا مگر یہی پیسہ انسان کو انسان سے جانور بنا دیتا ہے یہ کبھی سنا اور نہ کبھی دیکھا تھا مگر آج کل کے دور میںیہ سب دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج کا انسان پیسے کمانے کے چکر میںخود کو انسان سے جانور بناتا جا رہا ہے،اس پیسے کے چکر میںانسان اپنے رشتوں کی اہمیت بھی بھول گیا ہے، پیسے کے چکر میں انسان چھوٹے بڑے کی تمیز بھول چُکا ہے، اس پیسے نے انسان کو اپنے دین سے بھی دور کر دیا ہے، پیسے کی ہوس نے انسان کو اندھا کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی آخرت کو بد سے بدتر بناتا جا رہا ہے. ( آخر یہ ہوس کیوں؟ )
قسمت بنانے والا اور تقدیر لکھنے والا صرف اللہ ہے اور کوئی نہیں۔ پھر کس لیے ہم پاگلوںکی طرح اس پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ ہم محنت کرتے ہیں تو اللہ تعالی ہمیںاس کا اجر دیتا ہے اور اُتنا ہی ہمیںعطا کرتا ہے جتنا اُس نے ہماری قسمت میںلکھ دیا ہے تو پھر ہم کیوںقسمت سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جہاںدیکھو سب کے دل میںایک خواہش پائی جا رہی ہے کہ ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ پیسہ ہو، جہاںدیکھو سب کی ایک ہی سوچ ہے کس طرح پیسہ کمایا جائے، جہاںدیکھو یہی کوشش کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طرحپیسے کو حاسل کیا جائے۔ میںپوچھتا ہوں کہ آخر اس پیسے کو ہم نے اپنی ہوس کیوں بنا رکھا ہے؟ آخر کیوں ہم نے اس پیسے کو اپنا مقصد بنا رکھا ہے؟ آخر کیوں ہم یہ سوچتے ہیں کہ اسی سے ہماری زندگی ہے؟ آخر کیوںاس پیسے نے ہمیں انسان ہونے کی پہچان بُھلا دی ہے؟ آخر کیوں اس پیسے نے ہمیںہمارے بچوںسے دور کر دیا ہے؟ آخر کیوںاس پیسے نے ہمیں اپنے والدین کا نافرمان بنا دیا ہے؟ آخر کیوںاس پیسے نے ہمیں چور اور ڈاکو بنا دیا ہے؟ آخر کیوں اس پیسے نے ہمیں قاتل بنا دیا ہے؟ آخر کیوں اس پیسے نے ہمیںانسان سے جانور بنا دیا؟کیا اللہ نے ہمیںدُنیا میںصرف ہیسے جمع کرنے کے لیے بھیجا ہے؟ کیا اللہ نے ہمیںحکم دیا ہے کہ تم لوگ دُنیا میںجا کر صرف کمائو اسی میں تمہاری بھلائی ہے؟ کیا اللہ نے یہ حکم دیا کہ پیسہ کمائو اس میںتمہیں راحت ملے گی؟ اس پیسے کی ہوس سے انسان اپنا وقار کھو بیٹھا ہے، اپنی عزت گنوا بیٹھا، اور انسان ہونے کا مطلب بھول بیٹھا ہے۔
جس کے پاس پیسہ ہے وہ اپنے سے نیچے کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اُن کے ساتھ ایسا برتائو کرتاہے کہ جیسے وہ انسان ہی نہ ہو۔ ہر کسی کو اپنے کمتر سمجھنا، کسی کا امیر ہونا یا کسی کا غریب ہونا اس میںانسان کا کوئی کمال نہیںہے یہ سب تو اللہ کے کھیل ہیں وہ جسے چاہتا عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا چھین لیتا ہے، وہ جس کو چاہے خوشی دے اور جس کو چاہے غم دے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں کسی کو چھوٹا بڑا سمجھنے والے ؟ اللہ معاف کرے آج کے دور میں ہم اپنے سے کمتر کے ساتھ کھڑا ہونا پسند نہیںکرتے ، اس کے ساتھ کھانا کھانے میں اپنی بےعزتی محسوس کرتے ہیں۔ آخر کس کا ہمیں غرور ہے ؟ یہ پیسہ تو آنے جانے والی چیز ہے آج اگر تمہارے پاس دولت ہے تو ہو سکتا ہے یہ کل تمہارے پاس نہ رہے اور جس کو تم اپنے سے کمتر سمجھتے ہو کل وہ تم سے بہتر ہوجائے تو کیا سامنا کر پائو گے اُس وقت اُس انسان کا جس کو تم نے ذلیل کیا ہو گا یا رُسوا کیا ہوگا؟
زندگی اور موت دینے والا اللہ، خوشی اور غم دینے والا اللہ، فریاد سننے اور پوری کرنے والا اللہ، دُنیا کو بنانے والا اللہ، سورج کو مشرق اور مغرب میںغروب کرنے والا اللہ، آسمان کو بِنا کسی سہارے کے کھڑا رکھنے والا اللہ، انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازنے والا اللہ، انسان کی ہر بڑی سے بڑی غلطی اور بڑے سے بڑے گُناہ کو معاف کرنے والا اللہ، سب کی حاجت پوری کرنے والا اللہ، دلوںکے بھید جانے والا اللہ، ساری دُنیا کا خالق و مالک صرف اور صرف اللہ۔
دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اللہ کے حکم کے بغیر ہوتی ہو سب کچھ اُسی کے اختیار میںہے۔ وہ جب چاہے کچھ بھی کر سکتاہے اور اُسے روکنے والا کوئی بھی نہیں۔ نہ اُسے بتانے کی ضرورت ہے اور نہ سمجھانے کی اور نہ پوچھنے کی۔ یہ ساری کائنات اُسی کے حکم سے چلتی ہے اور برباد ہو جائیں گے وہ سب جو خُدائی کا دعوی کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھراتے ہیں، سب کچھ فانی ہے سوائے اللہ کی ذات کے۔
نوٹ
پیسہ کمانا کوئی بُرائی نہیںہے پیسہ کمانا چاہیے جتنا تم اپنے اخراجات پورے کر سکو، اپنے گھر والوںکا پیٹ پال سکو، اُن کی ضروریات کو پورا کر سکو ، پیسہ اُتنا کماؤ کہ تمہیںکسی کا محتاج نہ ہونا پڑے اور نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے اور نہ کسی کے آگے جھکنا پڑے۔ پیسہ کماؤ پر اُسے اپنی ہوس مت بنائو اسے اپنے اوپر اتنا حاوی نہ کرو کہ یہ تمہیں ایک دن برباد ہی کرد ے اور تمہیں دیمک کی طرح کھا جائے۔ کسی کو اپنے سے حقیر مت جانو، کسی کو حقارت کی نظر سے مت دیکھو کیا پتہ وہ شخص اللہ کی نظر میںتم سے کتنا ہی اچھا ہو۔ ہمیںاللہ تعالی کی بنائی ہوئی مخلوق سے پیار کرنا چاہیے۔ یہ پیسہ جس کے پیچھے ہم اتنی جدوجہد کرتے ہیں سب کچھ دنیا میں ہی رہ جائے گا۔ کیا ہم نے کبھی نوٹ کیا کہ جب امیر اور غریب کی موت ہوتی ہے تو دفناتے وقت اُن دونوں میںکیا فرق ہوتاہے؟ نہیں اُن دونوں میں اُس وقت کوئی فرق نہیں ہوتا۔ امیر شخص دُنیا میں کتنے بڑے بڑے گھر بناتا تھا، بڑی بڑی گاڑیوںمیںگھومتا پھرتا تھا یوں کہہ لیں اگر تو غلط نہ گا کہ زمین میںکم اور ہوائوں میں زیادہ اُڑتا تھا لیکن آخر میں جب موت نے لپیٹ میںلیا تو ہوا کیا؟ وہ گھر ، گاڑیاں اور بنک بیلنس کسی بھی کام نہ آیا اور جب دفنایا گیا تو 5گز زمین بھی بمشکل نصیب ہوئی اور غریب کو دفنایا گیا تب بھی اتنی ہی زمین ملی کہ جتنی امیر کے حصے میںآئی۔
میرا سوال یہ ہے کہ اب کیوں ان دونوں کو برابر کیا گیا ؟ دونوںکی قبر ایک جیسی کیوں کھودی گئیں؟ جب زندہ تھے تو ہر چیز میں فرق رکھا گیا کہ یہ امیر ہے اور یہ غریب تو لیکن جب موت آئی تو یہ فرق مرنے کے بعد کیوںنہیںرکھا گیا؟ دونوں کو ایک ہی زمین اور ایک ہی جیسی جگہوںپر کیوں دفنایا گیا؟ ہے کوئی اس کا جواب ؟
آخر یہ ہوس کیوں ساجد ؟
تحریر : ساجد تاج
کتاب : کچھ میری بھی
