یہ ہمارے نمائندے ہیں۔ افسوس

محمداحمد

لائبریرین
کل پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم کے مابین ملاقات ٹھہری۔

ہمارے 'رہنما' نواز شریف نے نہ تو بلوچستان میں ہندوستانی مداخلت کی بات کی اور نہ ہی کشمیر کے دیرینہ معاملے کو حل کرنے کی۔

اسی لئے:


ایسی ملاقات جس میں فریقِ مخالف کی مرضی کے خلاف ایک بات بھی نہ ہو، اُسے کس طرح کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے؟
 
ان کے منہ میں زبانیں صرف پاکستانی عوام سے جھوٹے وعدے کرنے آئین کی دھجیاں اڑانے اور سفید جھوٹ بولنے کے واسطے ہیں۔۔۔
دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا تو دور رہ گیا۔۔۔۔یہ لوگ تو اس سے ناراضگی کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔۔۔
یہ ملاقات جہاں ہوئی وہاں مودی نے ہر دوسرے ملک کے رہنما سے پاکستان کے مخالف پراپیگینڈہ کیا حالانکہ مودی کے حالیہ بیانات کے بعد مودی کی پوزیشن کافی کمزور تھی پاکستان کے سامنے۔۔۔۔
اس نے ممبئی حملوں کی بات کی ۔۔
اس نے پاکستان کے خلاف قرارداد پیش کی جسے چائنہ نے ویٹو کر دیا جس پہ انڈٰیا نے چائنہ سے احتجاج کیا اور انڈین عوام نے ٹوئٹر پر چائنہ کے خلاف کمپین چلائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے پھر بھی سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی بات نہ کی۔۔۔۔
کشمیر کے ایشو پر بات نہ کی۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ان کے منہ میں زبانیں صرف پاکستانی عوام سے جھوٹے وعدے کرنے آئین کی دھجیاں اڑانے اور سفید جھوٹ بولنے کے واسطے ہیں۔۔۔
دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا تو دور رہ گیا۔۔۔۔یہ لوگ تو اس سے ناراضگی کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔۔۔
یہ ملاقات جہاں ہوئی وہاں مودی نے ہر دوسرے ملک کے رہنما سے پاکستان کے مخالف پراپیگینڈہ کیا حالانکہ مودی کے حالیہ بیانات کے بعد مودی کی پوزیشن کافی کمزور تھی پاکستان کے سامنے۔۔۔۔
اس نے ممبئی حملوں کی بات کی ۔۔
اس نے پاکستان کے خلاف قرارداد پیش کی جسے چائنہ نے ویٹو کر دیا جس پہ انڈٰیا نے چائنہ سے احتجاج کیا اور انڈین عوام نے ٹوئٹر پر چائنہ کے خلاف کمپین چلائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے پھر بھی سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی بات نہ کی۔۔۔۔
کشمیر کے ایشو پر بات نہ کی۔۔

بالکل ٹھیک کہتے ہیں آپ۔

ہمارے ہاں بلوچستان میں ہندوستانی مداخلت کی بات ہر دوسرے روز سیکیورٹی ادارے کر رہے ہوتے ہیں۔

لیکن وہاں جا کر ان کے لب سل گئے۔

کشمیری ہیں کہ پاکستان کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ ساری عمر پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور ہمارے رہنما کشمیریوں کے قاتلوں سے اس محبت سے ملتے ہیں کہ دل دہل کے رہ جاتا ہے۔

ع۔ بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
 
آخری تدوین:
ہمارے ہاں بلوچستان میں ہندوستانی مداخلت کی بات ہر دوسرے سیکیورٹی ادارے کر رہے ہوتے ہیں۔
بلوچستان کے حوالے سے ہمارے پاس کافی ثبوت بھی موجود ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے را کے ملوث ہونے پر پاکستان کا موقف دنیا کے سامنے کافی مظبوط صورت میں سامنے ابھر کر آیا اور مل کر یہ طے کیا گیا کہ اسے اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے گا۔۔ اس حوالے سے پاکستان کی سفیر سے بات بھی مکمل ہو گئی لیکن اب سننے میں آ رہا ہے کہ سیاسی رہنما اس میں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں اور اسے پھر سے بیک فٹ پہ لے آئے ہیں اور بجائے عالمی فورم پہ اٹھانے کے باہمی طور پر اسے حل کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔۔۔انڈیا ہر معاملے میں پاکستان پر عالمی فورمز پر کیچڑ اچھالتا رہے اور یہ امن کی آشا کا راگ الاپتے رہیں۔۔
کشمیری ہیں کہ پاکستان کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ ساری عمر پاکستان کی محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور ہمارے رہنما کشمیریوں کے قاتلوں سے اس محبت سے ملتے ہیں کہ دل دہل کے رہ جاتا ہے۔
کشمیر کے حوالے سے اس وقت پاکستان کی پوزیشن کافی مظبوط ہر چکی تھی کیونکہ انڈٰیا جو آج تک اسے متنازعہ علاقہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا ۔۔ اکنامک کاریڈور کی وجہ سے اپنے منہ سے اسے متنازعہ علاقہ تسلیم کر چکا ہے۔۔

اور حالیہ دنوں میں کشمیری مسلمانوں اور سکھوں نے کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرا کر جس طرح پاکستانی موقف کو مضبوط کیا اس کے بعد ہمارے رہنماؤں کی طرف سے خاموشی مجرمانہ ہے بلکہ یہ تو جلتی پہ تیل کا کام کر رہے ہیں ان کے سامنے جھک کے اور سارے کیے کرائے پر پانی پھیر رہے ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
بلوچستان کے حوالے سے ہمارے پاس کافی ثبوت بھی موجود ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے را کے ملوث ہونے پر پاکستان کا موقف دنیا کے سامنے کافی مظبوط صورت میں سامنے ابھر کر آیا اور مل کر یہ طے کیا گیا کہ اسے اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے گا۔۔ اس حوالے سے پاکستان کی سفیر سے بات بھی مکمل ہو گئی لیکن اب سننے میں آ رہا ہے کہ سیاسی رہنما اس میں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں اور اسے پھر سے بیک فٹ پہ لے آئے ہیں اور بجائے عالمی فورم پہ اٹھانے کے باہمی طور پر اسے حل کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔۔۔انڈیا ہر معاملے میں پاکستان پر عالمی فورمز پر کیچڑ اچھالتا رہے اور یہ امن کی آشا کا راگ الاپتے رہیں۔۔

کشمیر کے حوالے سے اس وقت پاکستان کی پوزیشن کافی مظبوط ہر چکی تھی کیونکہ انڈٰیا جو آج تک اسے متنازعہ علاقہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا ۔۔ اکنامک کاریڈور کی وجہ سے اپنے منہ سے اسے متنازعہ علاقہ تسلیم کر چکا ہے۔۔

اور حالیہ دنوں میں کشمیری مسلمانوں اور سکھوں نے کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرا کر جس طرح پاکستانی موقف کو مضبوط کیا اس کے بعد ہمارے رہنماؤں کی طرف سے خاموشی مجرمانہ ہے بلکہ یہ تو جلتی پہ تیل کا کام کر رہے ہیں ان کے سامنے جھک کے اور سارے کیے کرائے پر پانی پھیر رہے ہیں

ہائے افسوس!

ان پر کوئی تنقید بھی نہیں کرنے والا نہیں۔ انہوں نے کشمیر کاز کا بیڑہ غرق کر دیا۔
 

راشد احمد

محفلین
کشمیر کے مسئلے پر کوئی بھی سیریس نہیں ہے۔۔اسی لئے تو اسکا کوئی حل نہیں نکل رہا

مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کا چئیرمین ہے لیکن اسکا کام مسئلہ کشمیر کو دبانا ہے، اجاگر کرنا نہیں
 

Fawad -

محفلین
کل پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم کے مابین ملاقات ٹھہری۔

ہمارے 'رہنما' نواز شریف نے نہ تو بلوچستان میں ہندوستانی مداخلت کی بات کی اور نہ ہی کشمیر کے دیرینہ معاملے کو حل کرنے کی۔

اسی لئے:

؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نہيں سمجھ سکا کہ کس بنياد پر آپ امريکی حکومت کے ايک ايسے سرکاری بيان کو منفی انداز ميں ديکھ رہے ہيں جو پاکستان اور بھارت کے مابين تعلقات کو مستحکم کرنے کے ليے جاری کوششوں کی حمايت ميں ديا گيا تھا۔ کيا آپ کے خيال ميں امريکی حکومت کو دو پڑوسی ممالک کے مابين بات چيت کے عمل پر ناراضگی کا اظہار يا اس کی مذمت کرنی چاہيے تھی؟

امريکی حکومت اس بات کو تسليم کرتی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درميان ايسے بہت سے حل طلب معاملات موجود ہيں جو دونوں ممالک کے درميان تعلقات کی بحالی اور خطے کی مجموعی سيکورٹی اور استقامت کی راہ میں رکاوٹ ہيں۔ اگر آپ خبر کو پڑھيں تو آپ پر واضح ہو گا کہ امريکی حکومت نے صرف اس خواہش کو بيان کيا تھا کہ ہم خطے ميں اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے مابين سفارتی ذريعوں سے اختلافات کو دور کرنے اور امن کے حصول کے ليے ان مسا‏ئل کو حل ہوتا ديکھنا چاہتے ہيں جن کی بدولت دونوں ممالک کے ہزاروں افراد کئ دہائيوں کے دوران ہلاک ہو چکے ہيں۔

ميں اس بات سے انکار نہيں کر رہا کہ بہت سے پاکستانی پانی کی تقسیم اور کشمير سميت ديگر کئ معاملات پر شدید جذبات رکھتے ہیں۔ امريکی حکومت اس بات پر يقين رکھتی ہے کہ ان ايشوز کے حل کے ليے باہم مذاکرات، مسلسل ڈائيلاگ اور دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابين سفارتی تعلقات ميں وسعت انتہائ ضروری ہے۔ امريکی حکومت دونوں ممالک کو ايسی شرائط اور جبری حل کے لیے زبردستی مجبور يا کنٹرول نہيں کر سکتی جسے دونوں ممالک کے عوام میں پذيرائ حاصل نہ ہو۔ ايسی کوئ بھی کوشش نہ صرف يہ کہ نقصان دہ ہو گی بلکہ اس سے کوئ پائیدار حل بھی حاصل نہيں کيا جا سکے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 
Top