یہ کونسی بحر ہے ۔۔۔؟

یہ کوئی بحر نہیں۔ اگر ہو بھی تو یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کونسی بحر ہے۔ اگر دوسرا مصرع پیش کیا جائے تو کچھ بات بنے۔
البتہ یوں تو مانوس ہو:
کمبخت عشق نے مجھے سکھلادی شاعری
 

متلاشی

محفلین
یہ کوئی بحر نہیں۔ اگر ہو بھی تو یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کونسی بحر ہے۔ اگر دوسرا مصرع پیش کیا جائے تو کچھ بات بنے۔
البتہ یوں تو مانوس ہو:
کمبخت عشق نے مجھے سکھلادی شاعری
جناب میں اس کا عددی نظام آپ کو بتاتا ہوں ۔۔۔ اصل میں گنگنانے میں تو یہ مصرعہ مجھے موزوں لگ رہا تھا مگر بحر کا پتہ نہ چل رہا تھا۔۔۔
کمبخت عشق نے سکھلا دی مجھ کو شاعری
21212122212122
مفعول فاعلاتن فاعلات فاعلن
 
جناب میں اس کا عددی نظام آپ کو بتاتا ہوں ۔۔۔ اصل میں گنگنانے میں تو یہ مصرعہ مجھے موزوں لگ رہا تھا مگر بحر کا پتہ نہ چل رہا تھا۔۔۔
کمبخت عشق نے سکھلا دی مجھ کو شاعری
21212122212122
مفعول فاعلاتن فاعلات فاعلن

ایسی کوئی معروف بحر نہیں ذیشان بھائی
 

متلاشی

محفلین
ایسی کوئی معروف بحر نہیں ذیشان بھائی
اگر یوں کردیں تو۔۔۔! مزمل بھائی میں آپ کو بار بار اس لئے زحمت دے رہا ہوں کی گنگناتے ہوئے مجھے یہ مصرعہ موزوں لگتا ہے ۔۔۔
آپ بھی اسی حروفِ علت کو گرا کر پھر چیک کر کے دیکھیں۔۔!
کمبخت عشق نے سکھلا دی مجھ کو شاعری
21212122112122
مستفعلن فَعِلن فاعلن مفاعلن
 
ایسی بھی کوئی بحر نہیں۔
دیکھو! موزوں دکھنا ایک الگ بات ہے، اور عروضی بحر میں ہونا الگ بات ہے۔ کل عروض کی بنیاد ”رکنیے“ (syllable) پر ہے۔ اگر آپ کو یہ مصرع موزوں لگتا ہے تو اس میں کچھ عجب نہیں۔ لیکن میرے علم کے مطابق آپ کی مذکورہ دونوں اوزان عروض میں موجود نہیں۔ یہ سارا کھیل رکنیوں پر مبنی ہے۔ کسی کو کہیں بھی کوئی بھی مصرع موزوں لگ سکتا ہے۔ جیسے رودکی کو یہ مصرع موزوں لگا:
غلطاں غلطاں ہمے رود تابن گو
اس کے بعد ہزاروں استاد شعراء نے اسے رباعی کہہ کر اشعار موزوں کر ڈالے۔ اور کامل شاعر رباعی نہ کہے ایسا ممکن ہی نہ تھا۔

مزید یہ کہ ہو سکتا ہے میں اس بحر کو پکڑنے میں دھوکہ کھا رہا ہون اس کے لئے عروضی اساتذہ کو ٹیگ کرتا ہوں شاید کچھ مدد حاصل ہو جائے۔ بہر حال میرا موقف یہی ہے کہ یہ کوئی معروف بحر نہیں۔
فاتح
محمد یعقوب آسی
محمد وارث
 
اگر دوسرا مصرع پیش کیا جائے تو کچھ بات بنے۔​

جناب مزمل شیخ بسمل کے اس ارشاد کو صاد کرتا ہوں۔ اصولی طور پر ایک اکیلے مصرعے کی تقطیع ہو تو سکتی ہے مگر قابلِ اعتماد بھی ہو ضروری نہیں۔ روایتی نظامِ عروض میں بحور کے ناموں کو دیکھ لیجئے۔ ان کو ہم ’’مسدس‘‘، ’’مثمن‘‘ وغیرہ کہتے ہی دو مصرعوں یا ایک پورے بیت کی بنیاد پر ہیں۔
 
’’ذو بحرین‘‘ کا معاملہ میری مندرجہ بالا گزارش کی دلیل ہے۔

’’آسان عروض کے دس سبق‘‘ میں ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی ایک غزل پر میرے اپنے مشاہدات اور تاثرات کی مختصر روداد شامل ہے۔
صفحہ 68 ’’ہمارے مطالعے میں ایک ایسی غزل بھی آئی ہے ۔۔۔۔‘‘ سے سبق کے آخر تک ملاحظہ ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھے بھی ناموزوں ہی لگا یہ مصرع، دوسرا مصرع کچھ کہو تو دیکھا جائے کہ کس طرح کھینچ تان کر تم کسی بھی بحر میں لا رہے ہو، جو تقطیع تم نے دی ہے، اس کے حساب سے بھی کوئی بحر نہیں جیسا کہ مزمل نے درست کہا ہے اور آسی بھائی نے بھی صاد کیا ہے
 
شکریہ استاد الف عین اور محمد یعقوب آسی صاحب۔
دو اساتذہ کی تصدیق کے بعد شاید اب تشنگی نہ رہی۔
اب بات یہ ہے کہ اس صورت میں یہ کوئی بحر نہیں، اگر ہو بھی تو معروف بحر نہیں ہے، اور دوسرے مصرعے کے بنا کچھ کہنا صرف قیاس ہوگا۔
 
Top