یہ میرا پاکستان ہے

پاکستانی

محفلین
عامر احمد خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، اسلام آباد



خدا کا شکر ہے کہ 20 جولائی کے سائے میں پلنے والے اندھیرے چھٹ گئے اور اب ایک بار پھر پاکستان کا مستقبل روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ لیکن کہانی ذرا لمبی ہے ، تفصیل سے سنئیے۔

جب جنرل ضیاالحق کا مارشل لاء لگا میری عمر 14 سال تھی۔ آج میں 44 برس کا ہوں اور صدر مشرف کے دو عہدوں سے متعلق عدالتی فیصلے سے چند لمحے قبل تک مجھے یوں لگ رہا تھا کہ ان دو فوجی حکومتوں کے بیچ میں گزاری گئی زندگی جو پاکستانی سیاست کے شیطانی چکر میں تیس سال سے مزے میں پل رہی تھی یکایک ایک تاریک راہ پر آ کھڑی ہے۔

آگے کیا ہونے والا ہے ، کچھ پتا نہیں۔ بالکل جیسے ایک کتا اپنی دم کاٹنے کے چکر میں گھنٹوں گول گول گھومتا رہے اور پھر اس کی دم اچانک اس کے منہ میں آ جائے۔

میرا خوف بے وجہ نہیں تھا۔ میں نے جنرل ضیا کو دیکھا تھا اس لیے بیس جولائی کے فیصلے سے قبل میں جنرل پرویز مشرف کا مستقبل اپنے ہی ماضی میں با آسانی دیکھ سکتا تھا۔

جنرل ضیاء الحق نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا، جنرل مشرف نے بھی۔ اپنے اقتدار کے پہلے دو سالوں میں ہی جنرل ضیاء کو ایک بین الاقوامی واقعہ کی وجہ سے بیرون ممالک سے قبولیت اور سہارا ملا۔ صدر مشرف کے ساتھ بھی بالکل یہی ہوا۔

جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ کا چنا ہوا صدر ہٹایا اور خود صدر بن بیٹھے۔جنرل مشرف نے بھی یہی کیا۔پھر جنرل ضیاء نے ایک ریفرنڈم کرایا اوراس میں 90 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ صدر مشرف کو بھی ایک ریفرنڈم کے ذریعے 90 فیصد سے زائد ووٹ ملے۔

اس دوران دونوں جرنیلوں کو مقدمات بھگتنے پڑے لیکن پاکستان کی عدلیہ نے کمال مہارت کے ساتھ انہیں ان مشکل لمحوں سے نکالا۔ جنرل ضیاء الحق کو نظریہ ضرورت نے بچایا اور صدر مشرف کو بھی اسی نظریہ کے تحت ایک محدود مدت کے لیے حکمران مان لیا گیا۔

اپنی تمام تر طاقت کے باوجود بھی جنرل ضیاء الحق کو ایک منتخب پارلیمنٹ کی ضرورت پڑی۔ صدر مشرف کی بھی اسی راہ سے گزرنا پڑا۔

ایک نے پاکستان مسلم لیگ بنائی تو دوسرے نے اس میں قاف لگائی۔ دونوں کے دور میں دوست یا دشمن کی شکل میں مذہبی جنونیوں کا پلڑا بھاری رہا۔

اب تک یہی تیس سالہ شیطانی چکر میرے سیاسی تجزیوں کی بنیاد رہی۔ جنرل مشرف نے بغاوت کی تو میں نے سوچا پھر کیا، عدالت ان کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی راہ نکال لے گی۔نواز شریف پر مقدمہ چلا تو فیصلہ آنے سے بہت پہلے یہ واضح تھا کہ سزا جو بھی ہو ، ہوگی ضرور۔ نواز شریف جلاوطنی کا معاہدہ توڑنے پر بضد ہوئے تو اپنے ہی دفتر میں شرط لگی کہ فوراً اگلے جہاز پر واپس جدہ جائیں گے۔ ساتھیوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا کیا ہوگا۔ میں بولا وہ عدالت ہے تھانہ نہیں کہ جو چاہے کرا بھی لے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے طیارے ٹکرائے تو یہی لکھا کہ پاکستان میں اس واقعہ کا واحد مستفیض ایک فوجی حکمران ہوگا اور اس سے مضبوط حلیف امریکہ کو دنیا بھر میں کہیں اور نصیب نہ ہوگا۔

ریفرنڈم ہوا تو بے دھڑک کہہ دیا کہ فوجی حکمران کے لیے کم از کم 90 فیصد ووٹوں کے ذریعے ایک عوامی مینڈیٹ گھڑا جائے گا۔ 2002ء کے انتخابات ہوئے تو بنا حیل و حجت لکھ ڈالا کہ ایک نئی مسلم لیگ بنے گی جو پہلی تمام لیگوں کی نسبت فوج کی کہیں زیادہ وفادار ہوگی۔ ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو قلم خودبخود ہی چل پڑا۔ تحریر پڑھی تو لکھا تھا کہ ابھی تو کئی وزیراعظم آئیں جائیں گے۔ فوجی حکمرانوں کی اردل میں یہی کچھ ہوتا ہے۔

کوئی میرے تجزیے کی تعریف کرتا تو بڑی بے نیازی سے کندھے اچکا کے کہہ دیتا کہ پاکستانی صحافت میں ایک عمر گزاری ہے۔ سب سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں کیا ممکن ہے اور کیا نہیں۔

پھر 20 جولائی کا فیصلہ آیا۔ یوں لگا جیسے کسی نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہو۔ میری زندگی میں اس فیصلے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ ایک فوجی حکمران کی عدالت کے ہاتھوں اتنی بڑی سیاسی شکست؟ یہ کیسے ممکن تھا؟ صحافت میں برسوں کی کمائی ضائع ہوتی نظر آئی۔ رہ رہ کر یہی سوال دل میں اٹھا کہ اب تجزیہ کیسے کروں گا۔ زندگی بھر کی کمائی، وہ پیمانے جو تجزیوں میں استعمال ہوتے تھے، ایک عدالتی فیصلے کی نذر ہوئے۔ میں تو کنگال ہو گیا۔

دوستوں نے پوچھا کہ دو عہدوں کے مقدمے پر فیصلہ آنے والا ہے، کیا ہوگا؟ سوچا کس منہ سے جواب دوں، کیا کہوں، اب خدا جانے عدالت کیا کر دے؟ دل و نظر، حواس و دماغ پر ایسی دھند چھائی کہ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔

28 ستمبر کا دن چڑھا، دفتر ایک ایسے بچے کی طرح آیا جس نے نیا نیا چلنا سیکھا ہوتا ہے اور چلتے وقت اس کے چہرے پر کسی بھی وقت ڈھے پڑنے کا خوف واضح ہوتا ہے۔ پھر فیصلہ آ گیا۔ یوں لگا جیسے میں ایک بار پھر جوان ہو گیا۔ ساری دھند چھٹ گئی۔ وہ غلام گردش جو 20 جولائی سے مجھے باہر پھینکنے کی دھمکیاں دے رہی تھی، ایک بار پھر ماں کی گود بنی۔ میری باچھیں کھل گئیں، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

یہ تو وہی پاکستان ہے جسے میں جانتا ہوں، پہچانتا ہوں، اپنے ہاتھوں کی لکیروں کی طرح۔ یہ وہی فوج ہے جو میری زندگی کی غلام گردش کی محافظ ہے اور اگر وہ چوک بھی جائے تو اسے راہ راست پر لانے کے لیے عدالت ہے نا۔

اب میں جانتا ہوں کیا ہونے والا ہے۔ میرا صدر وردی میں ہوگا۔ آئین کے ورقوں پر سموسے بکیں گے اور سرکس کے مسخرے پارلیمان میں بیٹھیں گے۔

یہ میرا پاکستان ہے۔



بشکریہ بی بی سی اردو
 

میم نون

محفلین
کیا ہی کھری حقیقت سنائی ہے عامر احمد حان صاحب نے۔۔۔

لیکن مایوسی گناہ ہے، اور امید پر دنیا قائم ہے۔
 
Top