یہ عشق پیار الفت سب خام سا لگتا ہے غزل نمبر 63 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
یہ عشق پیار الفت سب خام سا لگتا ہے
اور عاشقی میں دھوکا تو عام سا لگتا ہے

جب سے خفا ہیں دل میں کہرام سا لگتا ہے
اب میرے دل کا موسم بھی شام سا لگتا ہے

کہتے ہیں لوگ تم کو بد ذوق اور شرابی
جو کچھ سنا ہے ہم نے الزام سا لگتا ہے


یہ خود سے باتیں کرتا یہ بے ضرر سا شخص
مجنوں کی طرح عشق میں ناکام سا لگتا ہے


ہم دنیا گھوم آئیں گر ساتھ تیرا ہو تو
میلوں کا سفر بھی ہمیں دو گام سا لگتا ہے


یہ بے رخی لہجے کی یہ اجنبی سی آنکھیں
نہ جانے کیوں مجھے یہ انتقام سا لگتا ہے


حیران ہیں ہم خود بھی جو ذہن میں آتا ہے
جو شاعری لکھتے ہیں الہام سا لگتا ہے


عشقِ صنم کو چھوڑ کر عشقِ خدا اپنایا
بے چین اب نہیں دل آرام سا لگتا ہے


محبوب ہی لگتا ہے دنیا میں سب سے پیارا
ہر چہرہ اپنے یار کو گلفام سا لگتا ہے

ہے عشق میں یہ حالت مدہوش سے رہتے ہیں
پانی بھی پئیں ہم تو وہ جام سا لگتا ہے


شاعر تو ہے وہ اچھا غزلیں ہیں اس کی اچھی
شارؔق جسے کہتے ہیں بدنام سا لگتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
دو بحور کا امتزاج ہے اس میں، مفعول مفاعیلن اور مفعول فاعلاتن۔
مگر پہلے پچھلی 62 غزلیں تو درست کرو!
 
Top