یہ زمیں ہے صورتِ شاہکار میرے سامنے غزل نمبر 95 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
یہ زمیں ہے صورتِ شاہکار میرے سامنے
روز ہوتے ہیں تماشے یار میرے سامنے

زندگانی روئے زار زار میرے سامنے
روز ہوتے ہیں یہ دامن تار میرے سامنے

ڈوبتے ہیں ڈوبنے کا خوف جن کے دل میں ہو
سینکڑوں کرتے ہیں دریا پار میرے سامنے

جو اعانت نا کرے مجبور کی ذی حیثیت
ایسے ہر کم ظرف کو تو مار میرے سامنے

فقر کی دولت ہے میرے پاس وہ ہوں فقیر
سر جھکاتے ہیں بڑے سردار میرے سامنے

راہِ حق کا ہوں مسافر شان میری دیکھ لو
سر جھکائے شجرِ سایہ دار میرے سامنے

قوتِ ایمان روکے کھینچے طاقت کفر کی
نور میرے پیچھے ہے اور نار میرے سامنے

کیا سنہری دور تھا یہ قلبِ مسلم نے کہا
سر اُٹھا نہ پاتے تھے کفار میرے سامنے

جب تلک اپنے میرے دشمن سے جاکر نہ ملیں
باخُدا یہ کچھ نہیں اغیار میرے سامنے

محل میں دیکھا ہے اُمراء کو اُداس اور غریب
جھونپڑی میں رہتے ہیں سرشار میرے سامنے

مجھ کو جینے کی دعا ہے ڈُو ب سکتا میں نہیں
کشمکش میں ہے بہت منجھدار میرے سامنے

کیسے نیند آتی ہے تجھ کو رزق کے غاصب بتا
بے تحاشا لوگ ہیں لاچار میرے سامنے

ایک میں تنہا خدایا کبتک یہ صدمے سہوں
مشکلوں کا ایک ہے انبار میرے سامنے

اللہ اللہ کر کے چُھوٹی جان اِک دِقت سے تو
پھر نئی مشکل ہے اک تیار میرے سامنے

منتخب کرتا ہوں شارؔق جو مجھے اچھا لگے
دست بستہ ہیں کھڑے اشعار میرے سامنے
 

یاسر شاہ

محفلین
بھائی امین اپنی توجہ فی الحال اوزان سیکھنے کی طرف مرکوز کریں۔اس دوران اگر کوئی اشعار کی مشق کریں جس پہ رائے چاہیے ہو تو میرا مشورہ ہے پانچ اشعار سے زیادہ نہ پیش کریں۔فی الحال سرخ کیے دے رہا ہوں ان مقامات کو جو وزن میں نہیں۔مضامین و خیالات تو بعد کی بات ہے۔
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
یہ زمیں ہے صورتِ شاہکار میرے سامنے
روز ہوتے ہیں تماشے یار میرے سامنے

زندگانی روئے زار زار میرے سامنے
روز ہوتے ہیں یہ دامن تار میرے سامنے

ڈوبتے ہیں ڈوبنے کا خوف جن کے دل میں ہو
سینکڑوں کرتے ہیں دریا پار میرے سامنے

جو اعانت نا کرے مجبور کی ذی حیثیت
ایسے ہر کم ظرف کو تو مار میرے سامنے

فقر کی دولت ہے میرے پاس وہ ہوں فقیر
سر جھکاتے ہیں بڑے سردار میرے سامنے

راہِ حق کا ہوں مسافر شان میری دیکھ لو

سر جھکائے شجرِ سایہ دار میرے سامنے

قوتِ ایمان روکے کھینچے طاقت کفر کی
نور میرے پیچھے ہے اور نار میرے سامنے

کیا سنہری دور تھا یہ قلبِ مسلم نے کہا

سر اُٹھا نہ پاتے تھے کفار میرے سامنے

جب تلک اپنے میرے دشمن سے جاکر نہ ملیں
باخُدا یہ کچھ نہیں اغیار میرے سامنے

محل میں دیکھا ہے اُمراء کو اُداس اور غریب
جھونپڑی میں رہتے ہیں سرشار میرے سامنے

مجھ کو جینے کی دعا ہے ڈُو ب سکتا میں نہیں
کشمکش میں ہے بہت منجھدار میرے سامنے

کیسے نیند آتی ہے تجھ کو رزق کے غاصب بتا
بے تحاشا لوگ ہیں لاچار میرے سامنے


ایک میں تنہا خدایا کبتک یہ صدمے سہوں
مشکلوں کا ایک ہے انبار میرے سامنے

اللہ اللہ کر کے چُھوٹی جان اِک دِقت سے تو
پھر نئی مشکل ہے اک تیار میرے سامنے

منتخب کرتا ہوں شارؔق جو مجھے اچھا لگے
دست بستہ ہیں کھڑے اشعار میرے سامنے



 
Top