یہ حُسنِ یار اور عشقِ یار واہ واہ غزل نمبر 68 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
یہ حُسنِ یار اور عشقِ یار واہ واہ
ہر دور میں ملیں گے یہ بیمار واہ واہ

کیا خوب محبت کا ہے اظہار واہ واہ
انکار کے پردے میں ہے اقرار واہ واہ

جانے سے تیرے دل ہے بے قرار واہ واہ
موسم تیرے آنے سے خوشگوار واہ واہ

ہر صبح کریں ان کا انتظار واہ واہ
ہر شام ہو محبوب کا دیدار واہ واہ

اب اور کریں کس کا اعتبار واہ واہ
اپنے ہوئے غیروں کے طرفدار واہ واہ

کس پر ہو اعتبار کہ سب ہیں ملے ہوئے
نادان دوست دشمنِ عیار واہ واہ


دنیائے بے ثبات کے دستور ہیں عجب
جو جیتیں ڈالتے ہیں اس کو ہار واہ واہ


زندہ تھے ہم تو حال کوئی پوچھتا نہ تھا
اب مر گئے تو روئے زار زار واہ واہ

دل توڑ دیا اس نے میرا کس خوشی کے ساتھ
تحفے کے ساتھ لکھ دیا انکار واہ واہ


دکھ سہتے رہے اور ہم اف بھی نہیں کریں
کیا خوب کہی آپ نے سرکار واہ واہ

ہمت اگر جواں ہے تو منزل نہیں ہے دور
چیونٹی کے مقابل ہے اک کوہسار واہ واہ

تم سے ملے نہیں تھے ذوق آشنا نہ تھے
شاعر بنادیا مجھے اے پیار واہ واہ

اچھے تیرے اشعار ہیں پر اتنے بھی نہیں
ہر کوئی کہے گا نہیں ہر بار واہ واہ

کیا بات ہے ہر ایک کو آتے نہیں سمجھ
شارؔق تیرے یہ بے لگام اشعار واہ واہ
 
Top