داغ یہ بات بات میں کیا ناز کی نکلتی ہے - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
یہ بات بات میں کیا ناز کی نکلتی ہے
دبی دبی ترے لب سے ہنسی نکلتی ہے
ٹھہر ٹھہر کے جلا دل کو ایک بات نہ پھونک
کہ اس میں بوئے محبت ابھی نکلتی ہے
بجائے شکوہ بھی دیتا ہوں میں دعا اس کو
مری زباں سے کروں کیا وہی نکلتی ہے
ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا حاصل
دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے
اولاد اسے تری کھنچ رہی ہیں تلواریں
نگہ نگہ سے چھری پر چھری نکلتی ہے
سمجھ تو لیجئے کہنے تو دیجئے مطلب
بیاں سے پہلے ہی مجھ پر چھری نکلتی ہے
یہ دل کی آگ ہے یا دل کے نور کا ہے ظہور
نفس نفس میں مرے روشنی نکلتی ہے
صنم کدہ میں بھی ہے حسن اک فدائی کا
کہ جو نکلتی ہے صورت پری نکلتی ہے
غم فراق میں ہو داغ اس قدر بیتاب
ذرا سے رنج میں جان آپ کی نکلتی ہے
 

عرفان سرور

محفلین
آئے کوئی، تو بیٹھ بھی جائے، ذرا سی دیر
مشتاقِ دید، لُطف اُٹھائے ذرا سی دیر

میں دیکھ لوں اُسے، وہ نہ دیکھے مری طرف
باتوں میں اُس کو کوئی لگائے ذرا سی دیر

سب خاک ہی میں مجھ کو ملانے کو آئے تھے
ٹھہرے رہے نہ اپنے پرائے ذرا سی دیر

تم نے تمام عمر جلایا ہے داغ کو
کیا لُطف ہو جو وہ بھی جلائے ذرا سی دیر

داغ دہلوی
 

عرفان سرور

محفلین
یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے
ہم بیٹھ بیٹھ کر جو چلے بھی تو کیا چلے

بیٹھے اُداس اُٹھے پریشان خفا چلے
پوچھے تو کوئی آپ سے کیا آئے کیا چلے

آئیں گی ٹوٹ ٹوٹ کر قاصد پر آفتیں
غافل اِدھر اُدھر بھی ذرا دیکھتا چلے

ہم ساتھ ہو لئے تو کہا اُس نے غیر سے
آتا ہے کون اس سے کہو یہ جُدا چلے

بالیں سے میرے آج وہ یہ کہہ کے اُٹھے گی
اس پر دوا چلے نہ کسی کی دعا چلے

موسیٰ کی طرح راہ میں پوچھی نہ راہ راست
خاموش خضر ساتھ ہمارے چلا چلے

افسانۂ رقیب بھی لو بے اثر ہوا
بگڑی جو سچ کہے سے وہاں جھوٹ کیا چلے

رکھا دل و دماغ کو تو روک تھام کر
اس عمر بیوفا پہ مرا زور کیا چلے

بیٹھا ہے اعتکاف میں کیا داغ روزہ دار
اے کاش مے کدہ کو یہ مردِ خدا چلے

داغ
 

عرفان سرور

محفلین
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے؟

رحم کر میرے حال پر واعظ
کہ اُمنگیں بھی ہیں شباب بھی ہے

مار ڈالا ہے اِس دو رنگی نے
مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے

عشق بازی کو ہے سلیقہ شرط
یہ گناہ بھی ہے یہ ثواب بھی ہے

داغ کا کچھ پتا نہیں ملتا
کہیں وہ خانماں خراب بھی ہے

داغ
 

عرفان سرور

محفلین
کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو

مطلب کے کہہ رہے ہیں وہ دانا ہمیں تو ہیں
مطلب کے پوچھتی ہو وہ ناداں تمہیں تو ہو

آتا ہے بعد ظلم تمہیں کو تو رحم بھی
اپنے کئے سے دل میں پشیماں تمہیں تو ہو

پچھتاؤ گے بہت مرے دل کو اُجاڑ کر
اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمہیں تو ہو

اک روز رنگ لائیں گی یہ مہربانیاں
ہم جانتے تھے جان کے خواہاں تمہیں تو ہو

دلدار و دلفریب دل آزار دلستاں
لاکھوں میں ہم کہیں گے کہ ہاں ہاں تمہیں تو ہو

کرتے ہو داغ دور سے مے خانے کو سلام
اپنی طرح کے ایک مسلماں تمہیں تو ہو

داغ
 

عرفان سرور

محفلین
یاں دل میں خیال اور ہے، واں مد نظر اور
ہے حال طبیعت کا اِدھر اور، اُدھر اور

ہر وقت ہے چتون تری اے شعبدہ گر اور
اک دم میں مزاج اور ہے، اک پل میں نظر اور

ناکارہ و نادان کوئی مجھ سا بھی ہو گا
آیا نہ بجز بے خبری مجھ کو ہنر اور

ہوں پہلے ہی میں عشق میں غرقاب خجالت
کیا مجھ کو ڈبوتے ہیں مرے دیدۂ تر اور

ٹھہرا ہے وہاں مشورۂ قتل ہمارا
لو حضرت دل ایک سنو تازہ خبر اور

بھر بھر کے جو دیتے ہیں وہ جام اور کسی کو
لے لے کے مزے پیتے ہیں یا خون جگر اور

ہم جانتے ہیں خوب تری طرز نگہ کو
ہے قہر کی آنکھ اور، محبت کی نظر اور

اے داغ مے عشق کو کیا زہر سے نسبت
ہے اِس میں اثر اور ، وہ رکھتا ہے اثر اور

داغ
 

عرفان سرور

محفلین
کہا نہ کچھ عرض مدعا پر، وہ لے رہے دم کو مسکرا کر
سنا کے حال چپکے چپکے، نظر اُٹھائی نہ سر اُٹھا کر

نہ طور دیکھے، نہ رنگ برتے غضب میں آیا ہوں دل لگا کر
وگرنہ دیتا ہے دل زمانہ یہ آزما کر، وہ آزما کر

تری محبت نے مار ڈالا ہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رُلا رُلا کر، گھلا گھلا کر، جلا جلا کر، مٹا مٹا کر

تمہیں تو ہو جو کہ خواب میں ہو، تمہیں تو ہو جو خیال میں ہو
کہاں چلے آنکھ میں سما کر، کدھر کو جاتے ہو دل میں آ کر

ستم کہ جو لذت آشنا ہوں، کرم سے بے لطف، بے مزا ہوں
جو تو وفا بھی کرے تو ظالم یہ ہو تقاضا کہ پھر جفا کر

شراب خانہ ہے یہ تو زاہد، طلسم خانہ نہیں جو ٹوٹے
کہ توبہ کر لی گئی ہے توبہ ابھی یہاں سے شکست پا کر

نگہ کو بیباکیاں سکھاؤ، حجاب شرم و حیا اُٹھاؤ
بھلا کے مارا تو خاک مارا، لگاؤ چوٹیں جتا جتا کر

نہ ہر بشر کا جمال ایسا، نہ ہر فرشتے کا حال ایسا
کچھ اور سے اور ہو گیا تو مری نظر میں سما سما کر

خدا کا ملنا بہت ہے آساں، بتوں کا ملنا ہے سخت مشکل
یقیں نہیں گر کسی کو ہمدم تو کوئی لائے اُسے منا کر

الہٰی قاصد کی خیر گذرے کہ آج کوچہ سے فتنہ گر کے
صبا نکلتی ہے لڑکھڑا کر، نسیم چلتی ہے تھرتھرا کر

جناب! سلطانِ عشق وہ ہے کرے جو اے داغ اک اشارہ
فرشتے حاضر ہوں دست بستہ ادب سے گردن جھکا جھکا کر

داغ
 

عرفان سرور

محفلین
واعظ بڑا مزا ہو اگر یوں عذاب ہو
دوزخ میں پاؤں ہاتھ میں جامِ شراب ہو

معشوق کا تو جُرم ہو، عاشق خراب ہو
کوئی کرے گناہ کسی پر عذاب ہو

وہ مجھ پہ شیفتہ ہو مجھے اجتناب ہو
یہ انقلاب ہو تو بڑا انقلاب ہو

دنیا میں کیا دھرا ہے؟ قیامت میں لطف ہو
میرا جواب ہو نہ تمہارا جواب ہو

نکلے جدھر سے وہ، یہی چرچا ہوا کیا
اس طرح کا جمال ہو ایسا شباب ہو

در پردہ تم جلاؤ، جلاؤں نہ میں چہ خوش
میرا بھی نام داغ ہے گر تم حجاب ہو

داغ
 
Top