ساجدتاج
محفلین


یہ آنسو اپنے رَب کے لیے کیوں نہیں؟

السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ :۔
آج اچانک ایک آنسو میری آنکھ سے نکل آیا میںنے اسے پوچھا کہ تُو آنکھ سے باہر کیوںآیا تو وہ بولا آج تُو نے کسی کو اپنی آنکھ میںکسی کو اتنا بسایا کہ میں بدنصیب اپنی جگہ نہ بنا پایا۔
آپ کو بھی شاید ایسے ہزاروں میسجز دیکھنے کو ملتے ہوں گے اپنے سیل پر۔ پڑھتے ساتھ ہی اندازہ ہو جاتا ہوگا کہ کسی شخص نے اپنے محبوب کے لیے یہ الفاظ بیان کیا ہے اور واقعی ہی بہت ہی خوبصورت انداز میںاپنے محبوب کے لیے اپنا پیار جتایا۔
ویسے اگر یہ ورڈنگ اپنے رَب کے لیے استعمال کی جائے اُس رَب کے لیے جو انسان کو صرف دیتا ہی دیتا ہے۔ ہم اگر اللہ کی یاد اپنے سینے میںبسا لیں اور اُس کے علاوہ کسی اور کی یاد دل میںبسنے نہ دیں اور اُس کی یاد میں یا اُس کے خوف سے ہماری آنکھ نم ہو جائے تو کبھی سوچا ہے کہ ہمیں اس کا کتنا اجر ملے گا ؟ کبھی سوچا ہے کہ اگر اپنے رَب کے لیے اگر ایک آنسو بھی بہائیں گے تو کتنی رحمتیںہم پر وہ برسائے گا ؟
انسان کا محبوب اُس سے بیوفائی کر سکتا ہے، اُس کا ساتھ مشکل وقت میںچھوڑ سکتا ہے، اُس سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ سکتا ہے ، اُسے ہمیشہ کے لیے بُھلا سکتا ہے ، اُسے دغا دے سکتا ہے ، لیکن کیا ہمارا اللہ ہم سے بیوفائی کر سکتا ہے کیا ؟ ہمارا مشکل وقت میںساتھ چھوڑ سکتا ہے کیا ہے ؟ ہم سے کبھی منہ موڑ سکتا ہے کیا ؟ ہمیںکبھی تنہا کر سکتا ہے کیا؟ ہمیں دغا دے سکتا ہے کیا ؟ نہیں ہمارا پروردگار ہمیںکبھی تنہا چھوڑ نہیںسکتا کیونکہ وہ اپنے بندے سے بہت پیار کرتا ہے۔انسان اپنے رَب کو تو بھول سکتا ہے مگر رَب اپنے بندے کو کبھی نہیں بھول سکتا۔
ہم کتنے جذباتی ہو کر اپنے محبوب کے لیے دل کی گیرائیوں سے الفاظ اپنی زبان سے نکالتے ہیں۔ لیکن کبھی اسی دل کی گیرائیوں سے ہم نے اپنے رَب کے احسانات کو ، اُس کی قُدرت کو ، اُس کی دی ہوئی نعمتوں کو ، اُس کے پیار کو محسوس کیا ہے ؟ کیا کبھی ان نعمتوںکے لیے اُس کا شُکر ادا کیا ہے ؟
محبت وہی اچھی ہے جو اپنے رَب سے کی جائے یہ انسان کی ایسی محبت ہو گی جس میںاُس کو صرف فائدہ ہی فائدہ ملے گا۔ انسان کا محبوب اپنے محبوب سے محبت کا صلہ ضرور مانگتا ہے لیکن آپ کا رَب کیا آپ سے کوئی صلہ مانگتا ہے ؟ کبھی سوچا ہے ہم نے نہیں ہم نے کبھی سوچا نہیں اپنے رَب کی رحمتوں کے بارے میں۔ کیونکہ ہمارے پاس فُرصت ہی نہیں ساجد کہ ہم اُس پاک ذات کی قُدرت کو دیکھ کر بس ایک بار کہہ سکیں کہ اللہ اکبر۔
سوچ اے انسان۔
تحریر : ساجد تاج
آج اچانک ایک آنسو میری آنکھ سے نکل آیا میںنے اسے پوچھا کہ تُو آنکھ سے باہر کیوںآیا تو وہ بولا آج تُو نے کسی کو اپنی آنکھ میںکسی کو اتنا بسایا کہ میں بدنصیب اپنی جگہ نہ بنا پایا۔
آپ کو بھی شاید ایسے ہزاروں میسجز دیکھنے کو ملتے ہوں گے اپنے سیل پر۔ پڑھتے ساتھ ہی اندازہ ہو جاتا ہوگا کہ کسی شخص نے اپنے محبوب کے لیے یہ الفاظ بیان کیا ہے اور واقعی ہی بہت ہی خوبصورت انداز میںاپنے محبوب کے لیے اپنا پیار جتایا۔
ویسے اگر یہ ورڈنگ اپنے رَب کے لیے استعمال کی جائے اُس رَب کے لیے جو انسان کو صرف دیتا ہی دیتا ہے۔ ہم اگر اللہ کی یاد اپنے سینے میںبسا لیں اور اُس کے علاوہ کسی اور کی یاد دل میںبسنے نہ دیں اور اُس کی یاد میں یا اُس کے خوف سے ہماری آنکھ نم ہو جائے تو کبھی سوچا ہے کہ ہمیں اس کا کتنا اجر ملے گا ؟ کبھی سوچا ہے کہ اگر اپنے رَب کے لیے اگر ایک آنسو بھی بہائیں گے تو کتنی رحمتیںہم پر وہ برسائے گا ؟
انسان کا محبوب اُس سے بیوفائی کر سکتا ہے، اُس کا ساتھ مشکل وقت میںچھوڑ سکتا ہے، اُس سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ سکتا ہے ، اُسے ہمیشہ کے لیے بُھلا سکتا ہے ، اُسے دغا دے سکتا ہے ، لیکن کیا ہمارا اللہ ہم سے بیوفائی کر سکتا ہے کیا ؟ ہمارا مشکل وقت میںساتھ چھوڑ سکتا ہے کیا ہے ؟ ہم سے کبھی منہ موڑ سکتا ہے کیا ؟ ہمیںکبھی تنہا کر سکتا ہے کیا؟ ہمیں دغا دے سکتا ہے کیا ؟ نہیں ہمارا پروردگار ہمیںکبھی تنہا چھوڑ نہیںسکتا کیونکہ وہ اپنے بندے سے بہت پیار کرتا ہے۔انسان اپنے رَب کو تو بھول سکتا ہے مگر رَب اپنے بندے کو کبھی نہیں بھول سکتا۔
ہم کتنے جذباتی ہو کر اپنے محبوب کے لیے دل کی گیرائیوں سے الفاظ اپنی زبان سے نکالتے ہیں۔ لیکن کبھی اسی دل کی گیرائیوں سے ہم نے اپنے رَب کے احسانات کو ، اُس کی قُدرت کو ، اُس کی دی ہوئی نعمتوں کو ، اُس کے پیار کو محسوس کیا ہے ؟ کیا کبھی ان نعمتوںکے لیے اُس کا شُکر ادا کیا ہے ؟
محبت وہی اچھی ہے جو اپنے رَب سے کی جائے یہ انسان کی ایسی محبت ہو گی جس میںاُس کو صرف فائدہ ہی فائدہ ملے گا۔ انسان کا محبوب اپنے محبوب سے محبت کا صلہ ضرور مانگتا ہے لیکن آپ کا رَب کیا آپ سے کوئی صلہ مانگتا ہے ؟ کبھی سوچا ہے ہم نے نہیں ہم نے کبھی سوچا نہیں اپنے رَب کی رحمتوں کے بارے میں۔ کیونکہ ہمارے پاس فُرصت ہی نہیں ساجد کہ ہم اُس پاک ذات کی قُدرت کو دیکھ کر بس ایک بار کہہ سکیں کہ اللہ اکبر۔
سوچ اے انسان۔
تحریر : ساجد تاج
