یہاں مرنا ہی فائدہ مند ہے

عالمی ادارہِ صحت کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت جتنی بھی ایلوپیتھک ادویات بن رہی ہیں ان میں سے کم از کم دس فیصد غیر معیاری یا جعلی ہیں۔
ہر سال دنیا میں چالیس ارب ڈالر کی جعلی و غیر معیاری ادویات کی تجارت ہوتی ہے۔کئی ممالک میں استعمال ہونے والی پچاس فیصد سے زائد ادویات غیر معیاری ہیں۔ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، جہاں وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے دو برس قبل قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ پاکستان کی ڈرگ مارکیٹ میں چالیس سے پچاس فیصد تک ادویات مشکوک ہیں
جو ممالک جعلی اور غیر معیاری دوا سازی میں سرِ فہرست ہیں ان میں چین ، بھارت اور مصر بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں بیرونِ ملک سے دواؤں کے جو دس ہزار برانڈز درآمد کیے جاتے ہیں ان میں سے کم و بیش ایک ہزار دوائیں چین سے آتی ہیں۔پاکستان فارما سوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں پچیس ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت لگ بھگ چار سو لائسنس یافتہ کمپنیاں سالانہ ستر کروڑ ڈالر کی دوائیں تیار کررہی ہیں۔یہ کمپنیاں پاکستان میں دواؤں کی ستر فیصد ضروریات پوری کر رہی ہیں۔جبکہ ساٹھ سے زائد ممالک کو بھی پاکستانی ادویات برآمد کی جاتی ہیں۔
سنہ دو ہزار سات تک پاکستان میں تقریباً ستائیس ہزار ادویات رجسٹرڈ تھیں۔اب ان کی تعداد پچپن ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ستمبر دو ہزار نو میں صرف ایک دن میں پاکستان کی ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی نے چار ہزار کے لگ بھگ ادویات رجسٹر کیں۔اس رجحان پر صحت سے متعلق سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے برملا مگر لاحاصل تشویش کا اظہار بھی کیا۔
صوبہ پنجاب کے سیکرٹری صحت ڈاکٹر سعید الہی کے بقول پاکستان میں رجسٹرڈ پچپن ہزار ادویات کے مقابلے میں امریکہ اور بھارت میں رجسٹرڈ برانڈز کی تعداد محض چار سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔
کہنے کو پاکستان میں تین ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز ( کراچی، لاہور، اسلام آباد ) موجود ہیں لیکن ان کی افادیت پر خود حکومتی اداروں کو بھی پورا اعتماد نہیں۔اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ حکومتِ پنجاب نے دل کے امراض میں استعمال ہونے والی پانچ متنازع ادویات کے سیمپلز برطانیہ، بیلجئیم اور امریکہ بھیجے ہیں۔کیونکہ مقامی لیبارٹری میں یہ دوائیں ٹیسٹنگ کے باوجود نقائص سے پاک نکلیں۔
پاکستان میں دوا سازی اور اس کے معیار سے متعلق لگ بھگ وہی قوانین اور ڈھانچہ ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں ہے۔نئی دوا کی رجسٹریشن کا عمل آٹھ سے دس ماہ میں مختلف مرحلوں سے گذر کر اور کئی افسروں کے دستخطوں کے بعد مکمل ہوتا ہے۔
تمام سرکاری ہسپتال جو ادویات خریدتے ہیں ان کے سیمپلز ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز کے سرٹیفکیٹس کے ساتھ آتے ہیں۔ان دواؤں کی اثر پزیری (پوٹینسی) اور مواد (سالٹس) کی چھان بین کے علاوہ ہر دوا کے ہر مینو فیکچرڈ بیجز کو چیک کرنے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔چاروں صوبوں میں وفاقی و صوبائی ڈرگ انسپکٹرز بھی تعینات ہیں۔ان کی رپورٹ کی روشنی میں کسی بھی دوا کی فروخت روکی جا سکتی ہے یا فیکٹری و دوکان کو بند کر کے سربمہر کیا جا سکتا ہے۔لیکن ان تمام انتظامات و قوانین کے ہوتے ہوئے بھی جعلی و غیر معیاری یا زائد از معیاد ادویات کی بھرمار ہے۔
چین میں سنہ دو ہزار آٹھ میں ناقص اور خطرناک دودھ کا ایک سکینڈل سامنے آیا ۔تین لاکھ بچے میلامائن اور دیگر کیمیکلز سے آلودہ دودھ سے متاثر ہوئے۔ آٹھ سو ساٹھ بچے اسپتال میں داخل ہوئے اور چھ بچے ہلاک ہوگئے۔حکومتِ چین نے سکینڈل کی ذمہ دار کمپنی سنلو کا بوریا بستر گول کروادیا۔
مقدمے کے نتیجے میں دو زمہ دار اہلکاروں کو فائرنگ سکواڈ نے گولی مار دی۔ایک کو معطل سزائے موت سنائی گئی۔تین کو عمرقید ہوئی، دو کو پندرہ برس قید ملی۔کوالٹی کنٹرول کے ڈائریکٹر سمیت آٹھ اعلیٰ افسروں کو نوکری سے نکال دیا گیا۔اس قدر سختی کے باوجود گیارہ ممالک نے چین سے ڈیری مصنوعات درآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی اور چین سے آنے والی تیار شدہ خوراک باقی دنیا کے لیے مشکوک ہوگئی۔
پاکستان میں انسانی استعمال کی خوراک، کھاد اور ادویات میں ملاوٹ اور جعلی تیاری و فروخت پر قتل کی دفعہ تین سو دو عائد نہیں کی جا سکتی۔زیادہ سے زیادہ لائسنس منسوخ ہو سکتا ہے یا مجرمانہ غفلت کا مقدمہ بن سکتا ہے اور سزا بھی صرف چند سال ہے اور یہ سزا بھی پوری ہونے سے پہلے ہی رہائی مل جاتی ہے۔
اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اٹھارہ کروڑ عوام کی صحت کے نگراں اور زمہ دار ہیں، ان میں سے اکثریت پاکستان کے سٹیٹ آف دی آرٹ طبی مراکز یا بیرونِ ملک اپنے یا سرکاری خرچے پر علاج کرانے کا استحقاق، اہلیت یا صلاحیت رکھتی ہے۔لہذٰا لوکل ڈرگ مارکیٹ اور طبی مراکز میں کیا ہو رہا ہے، یہ دوا ساز جانے، ڈاکٹر جانے، خریداری کرنے والا افسر جانے، ڈرگ انسپکٹر جانے یا پھر مریض جانے۔
مگر مرنے والے مریض کا ایک فائدہ البتہ ضرور ہوتا ہے۔
لواحقین کو پانچ لاکھ روپے مل جاتے ہیں۔
از:بی بی سی
 
Top