یکم مئی (مزدوروں کا عالمی دن

سیما علی

لائبریرین
yRUfqNR.jpg

یکم مئی بین الاقوامی سطح پر "یوم محنت" کے طور پرمنایا جاتاہے۔ یہ دن ان مزدوروں کی یاد میں ہے جو یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے آجروں کے خلاف مظاہر ہ کر رہ تھے۔ ان میں سے بعض کو فائرنگ کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا اور بعض کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ پس یہ دن مغربی و اشترا کی ممالک میں انہی "شہدائے شکاگو" کو خراچی عقیدت پیش کرنےکے لیے منایا جاتا ہے۔ اس دن مزدورں کے حق میں پروگرام ہوتے ہیں۔ حکمران مزدوروں کی مراعات کے لئے کچھ بیانات جاری کرتے ہیں۔ اسی طرح عالم اسلام میں بھی کئی مقامات پر یہ دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس دن سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔۔۔
تاریخ اسلام سے گواہی
ہمیں پوری "تاریخ اسلام" میں امیری و غریبی کی بنا پر یا مالک ومزدور کی بنیاد پر نفرت و امتیاز کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہاں تو امیر وغریب کو ، شاہ و گدا کو، کالے اور گورے سب کو بھائی بھائی کہ کر ایمان و ایقان کی ایک ہی لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔ صدقات و زکوۃ کے نظام اور بیت المال کے ذریعہ مساکین و یتامی کی اور دیگر تمام حاجت مندوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہے۔۔۔قرآن وسنت نے بڑی وضاحت کے ساتھ آجر و اجیر کے معاملات تعین کر دیا ہے۔ زیر دستوں سے اچھا سلوک، ان کی ضروریات و آرام کا خیال اور اس سے شفقت و محبت کی ہدایات بکثرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور ارشادات میں موجود ہیں۔
اسلام میں محنت کا مقام
اسلام نے محنت کو بڑا مقام عطا کیا ہے اور محنت شخص کی بڑٰ حوصلہ افزائی کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (طبرانی)" خود کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے " فرما کر محنت کی قدرو قیمت اجاگر فرما دی ہے۔ ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: () " کسی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا۔ (صحیح البخاری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزدوروں کے حقوق کا اس حد تک پاس تھا کہ وصال سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی"() " کہ نماز کا خیال رکھو اور ان لوگوں کا بھی جو تمہارے زیر دست ہیں" (احمد ، ابو داؤد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا :"تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں خود جھگڑوںگا ۔ ان میں سے ایک وہ ہو گا جس نے کسی کام کروایا ۔ کام تو اس سے پورا لیا مگر اسے مزدوری پوری ادا نہ کی( صحیح البخاری)
آج ہر طرف یہی سوال ہے کہ مزدور کی مناسب اجرت کیا ہونے چاہیے؟ حالانکہ اسلام نے چودہ سو سال قبل اس کا صحیح حل پیش کر دیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو خود کھاؤ یسا انہیں کھلاؤ ، جو خود پہنو ویسا ان کو پہناؤ " اس طرح وہ آجر و مزدور کے درمیان تعلقات، آزادی اور مساوات کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"ابن آدم کا بنیادی حق یہ ہے کہ اس کے لیے گھر ہو جہاں وہ رہ سکے، کپڑا ہو جس سے وہ اپنے جسم کو ڈھانپ سکے، کھانے کے لیے روٹی اور پینے کے لیے پانی ہو جس سے وہ زندہ رہ سکے۔ زیر دست کو ضرورت کے مطابق مناسب غذا اور لباس دیا جائے اور اس پر اتنا بار ڈالا جائے جسے وہ آسانی سے برداشت کر سکے" (مسلم)
وقت بیہودہ مشاغل میں وہی کھوتے ہیں جو کہ نا آشنائے سود و زیاں ہوتے ہیں
شور ماتم ہی پہ موقوف نہیں اے عاجز قہقہے بھی دل زندہ پہ گراں ہوتے ہیں
عبدالرحمن عاجز
اے کاش کے ہم اسلام کے بنائے ان اُصولوں پر عمل کرنا شروع ہوں
 
Top