ضیاء حیدری
محفلین
ایک جھینگر سے کسی نے پوچھا:
"تم سردیوں میں کہاں غائب ہو جاتے ہو؟"
جھینگر نے مغموم سا منہ بنا کر جواب دیا:
"گرمیوں میں کون سی عزت رہتی ہے جو سردیوں میں آ کر سڑکوں پر بجاؤں؟ آواز بھی نکالو، اور بدتمیزی کا طعنہ بھی سنو؟ عزت اگر گرمیوں میں پامال ہو جائے تو سردیوں میں چپ رہنا ہی بہتر ہے!"
اسی دن خان صاحب سے بھی کسی نے عاشورہ کے بعد احتجاج کی کال نہ دینے پر سوال کر دیا۔
خان صاحب نے بےنیازی سے بال سنوارتے ہوئے فرمایا:
"دیکھیں جی، عاشورہ ہو یا عشرہ آخر، جب میری کال پر لوگ نکلتے ہی نہیں تو میں عزت کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہوں۔ اب بار بار بےعزتی کروانا بھی تو حماقت کی حد ہے۔"
گویا جھینگر اور خان صاحب، دونوں نے موسموں کے مطابق خاموش رہنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جھینگر کے پاس سردی کا بہانہ ہے، خان صاحب کے پاس قوم کے نون رسپانس کا۔
ہمارے برگرز بھی اب خان صاحب کی یوٹرن پالیسی سے اس قدر نالاں ہیں کہ کال آتے ہی فون سائلنٹ، میسج پڑھ کر ریجیکٹ، اور احتجاج ملتوی از خود ہو جاتا ہے۔
اب خان صاحب کی کال دینا ویسا ہی ہے جیسے کوئی ریٹائرڈ استاد دوبارہ کالج بلا کر یہ کہے:
"آج سے میں پھر پڑھاؤں گا!"
اور شاگرد جواب دیں:
"استاد جی، ہم تو اب آن لائن پڑھتے ہیں، اور وہ بھی مفت والے چینل سے۔"
کسی زمانے میں کال پر لبیک کہنے والے اب واقعی لبیک والوں کے جلوس میں مصروف ہو چکے ہیں۔
خان صاحب جیل میں بیٹھے اب خود ہی مارکیٹنگ ٹیم کے صدر بھی ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا سیل کے انچارج بھی۔
کبھی وڈیو پیغام، کبھی خط، اور کبھی وہ مشہورِ زمانہ "قیدی نمبر فلاں فلاں" والا وکیلوں کے ہاتھ بھیجا گیا لیگل لیٹر —
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے احتجاج کا مقصد ریاستی دباؤ نہیں، بلکہ پبلسٹی گین ہو چکا ہے۔
اور اب تو وہ بانی تحریک انصاف سے پیٹرن ان چیف بن چکے ہیں —
فرماتے ہیں:
"قوم ان چیف کو زیادہ عزت دیتی ہے، چاہے وہ آرمی کا ہو یا پارٹی کا!"
لیکن کارکن کہتے ہیں:
"قبلہ! قوم چیف کی عزت تو کرتی ہے، مگر وہ جو کام کرتا ہو —
جو ہر دو دن بعد یوٹرن لے، اسے تو GPS بھی تلاش نہ کر سکے!"
خان صاحب کے یوٹرن کی رفتار ایسی ہے کہ پچھلی گلی میں جاتے جاتے خود ہی سامنے سے آ جاتے ہیں۔
اب تو خان صاحب کے حامی جلسوں میں یہی پکار رہے ہوتے ہیں:
"خان صاحب قدم بڑھاؤ — مگر تھوڑا ٹھہر کے، کہیں پیچھے نہ ہٹ جاؤ!"
محلے کے چاچا جی، جنہیں بیوی سے سالگرہ نہ منانے کی اجازت لینا ہوتی ہے، فرماتے ہیں:
"خان صاحب کی کال دینا ایسی ہی ہے جیسے بیوی سے اجازت لیے بغیر شاپنگ مال جانا —
خطرہ ہر طرف سے ہے، اور واپسی ناممکن!"
سو جھینگر ہو یا خان، دونوں اب یہی سمجھ چکے ہیں کہ:
"جس موسم میں آواز بےمعنی ہو جائے، وہاں خاموشی عزت کا پردہ بن جاتی ہے۔"
"تم سردیوں میں کہاں غائب ہو جاتے ہو؟"
جھینگر نے مغموم سا منہ بنا کر جواب دیا:
"گرمیوں میں کون سی عزت رہتی ہے جو سردیوں میں آ کر سڑکوں پر بجاؤں؟ آواز بھی نکالو، اور بدتمیزی کا طعنہ بھی سنو؟ عزت اگر گرمیوں میں پامال ہو جائے تو سردیوں میں چپ رہنا ہی بہتر ہے!"
اسی دن خان صاحب سے بھی کسی نے عاشورہ کے بعد احتجاج کی کال نہ دینے پر سوال کر دیا۔
خان صاحب نے بےنیازی سے بال سنوارتے ہوئے فرمایا:
"دیکھیں جی، عاشورہ ہو یا عشرہ آخر، جب میری کال پر لوگ نکلتے ہی نہیں تو میں عزت کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہوں۔ اب بار بار بےعزتی کروانا بھی تو حماقت کی حد ہے۔"
گویا جھینگر اور خان صاحب، دونوں نے موسموں کے مطابق خاموش رہنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جھینگر کے پاس سردی کا بہانہ ہے، خان صاحب کے پاس قوم کے نون رسپانس کا۔
ہمارے برگرز بھی اب خان صاحب کی یوٹرن پالیسی سے اس قدر نالاں ہیں کہ کال آتے ہی فون سائلنٹ، میسج پڑھ کر ریجیکٹ، اور احتجاج ملتوی از خود ہو جاتا ہے۔
اب خان صاحب کی کال دینا ویسا ہی ہے جیسے کوئی ریٹائرڈ استاد دوبارہ کالج بلا کر یہ کہے:
"آج سے میں پھر پڑھاؤں گا!"
اور شاگرد جواب دیں:
"استاد جی، ہم تو اب آن لائن پڑھتے ہیں، اور وہ بھی مفت والے چینل سے۔"
کسی زمانے میں کال پر لبیک کہنے والے اب واقعی لبیک والوں کے جلوس میں مصروف ہو چکے ہیں۔
خان صاحب جیل میں بیٹھے اب خود ہی مارکیٹنگ ٹیم کے صدر بھی ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا سیل کے انچارج بھی۔
کبھی وڈیو پیغام، کبھی خط، اور کبھی وہ مشہورِ زمانہ "قیدی نمبر فلاں فلاں" والا وکیلوں کے ہاتھ بھیجا گیا لیگل لیٹر —
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے احتجاج کا مقصد ریاستی دباؤ نہیں، بلکہ پبلسٹی گین ہو چکا ہے۔
اور اب تو وہ بانی تحریک انصاف سے پیٹرن ان چیف بن چکے ہیں —
فرماتے ہیں:
"قوم ان چیف کو زیادہ عزت دیتی ہے، چاہے وہ آرمی کا ہو یا پارٹی کا!"
لیکن کارکن کہتے ہیں:
"قبلہ! قوم چیف کی عزت تو کرتی ہے، مگر وہ جو کام کرتا ہو —
جو ہر دو دن بعد یوٹرن لے، اسے تو GPS بھی تلاش نہ کر سکے!"
خان صاحب کے یوٹرن کی رفتار ایسی ہے کہ پچھلی گلی میں جاتے جاتے خود ہی سامنے سے آ جاتے ہیں۔
اب تو خان صاحب کے حامی جلسوں میں یہی پکار رہے ہوتے ہیں:
"خان صاحب قدم بڑھاؤ — مگر تھوڑا ٹھہر کے، کہیں پیچھے نہ ہٹ جاؤ!"
محلے کے چاچا جی، جنہیں بیوی سے سالگرہ نہ منانے کی اجازت لینا ہوتی ہے، فرماتے ہیں:
"خان صاحب کی کال دینا ایسی ہی ہے جیسے بیوی سے اجازت لیے بغیر شاپنگ مال جانا —
خطرہ ہر طرف سے ہے، اور واپسی ناممکن!"
سو جھینگر ہو یا خان، دونوں اب یہی سمجھ چکے ہیں کہ:
"جس موسم میں آواز بےمعنی ہو جائے، وہاں خاموشی عزت کا پردہ بن جاتی ہے۔"