یونہی رستے کو منزل مت سمجھنا

نوید ناظم

محفلین
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظر کا دھوکا ہے جو سامنے ہے
یونہی رستے کو منزل مت سمجھنا

تمھیں سمجھا رہا ہوں ڈوب کر میں
ہر اک ساحل کو ساحل مت سمجھنا

اگر وہ مار دے مجھ کو تو پھر بھی
خدارا اُس کو قاتل مت سمجھنا

بس اک دھوکا ہے اس دنیا کی رونق
تُو ویرانے کو محفل مت سمجھنا

جو دل تھا وہ کسی کو دے چکا ہوں
یہ جو سینے میں ہے، دل مت سمجھنا

یہاں ذرے میں اک صحرا چُھپا ہے
کسی شے کو بھی باطل مت سمجھنا

مِرے ہاتھوں کے پھیلانے پہ مت جا
تُو مجھ کو صرف سائل مت سمجھنا
 

نوید ناظم

محفلین
بہت شکریہ،

بس اک دھوکا ہے اس دنیا کی رونق
تُو ویرانے کو محفل مت سمجھنا
اس شعر کو یوں کر دیتے ہیں۔۔۔
بس اک دھوکا ہے اس دنیا کی رونق
نہ، ویرانے کو محفل مت سمجھنا!
دیکھتے ہیں، استادِ محترم کیا کہتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن ’نہ‘ کی بہ نسبت ’تو‘ ہی بہتر لگ رہا ہے یہاں۔ ہاں ویرانے کی جگہ اگر خرابہ یا صحرا لا سکو تو شاید بہتر ہو۔
لیکن ’سمجھنا‘ یا ’سمجھیو‘ میں جو امر ہے وہ عموماً تم کے تخاطب میں استعمال میں آتا ہے۔ ’تو‘ کے ساتھ یا آپ کے ساتھ نہیں۔ سائل والے مصرع میں بھی ایسا ہی ہے۔لیکن اسے تم میں بدلا جا سکتا ہے۔ ’جا‘ کی بجائے ’جاؤ‘ بھی آ سکتا ہے۔ اور دوسرا مصرع
مجھے بس ایک سائل مت سمجھنا
کیا جا سکتا ہے
 

نوید ناظم

محفلین
لیکن ’نہ‘ کی بہ نسبت ’تو‘ ہی بہتر لگ رہا ہے یہاں۔ ہاں ویرانے کی جگہ اگر خرابہ یا صحرا لا سکو تو شاید بہتر ہو۔
لیکن ’سمجھنا‘ یا ’سمجھیو‘ میں جو امر ہے وہ عموماً تم کے تخاطب میں استعمال میں آتا ہے۔ ’تو‘ کے ساتھ یا آپ کے ساتھ نہیں۔ سائل والے مصرع میں بھی ایسا ہی ہے۔لیکن اسے تم میں بدلا جا سکتا ہے۔ ’جا‘ کی بجائے ’جاؤ‘ بھی آ سکتا ہے۔ اور دوسرا مصرع
مجھے بس ایک سائل مت سمجھنا
کیا جا سکتا ہے
بہتر سر، اشعار کو یوں کر دیا۔۔

بس اک دھوکا ہے اس دنیا کی رونق
کبھی صحرا کو محفل مت سمجھنا

مِرے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو چھوڑو
مجھے بس ایک سائل مت سمجھنا
 
Top