یوم عاشوراء اور اس کے روزے کی فضیلت

islamkingdom_urdu

محفلین
یوم عاشوراء اور اس کے روزے کی فضیلت
یوم عاشورا اور اس کے روزے کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ احادیث وارد ہیں ان میں سے برسبیل مثال ہم بعض كو ذکر کریں گے۔
صحیحین میں ابن عباس رضي الله عنهما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جن دنوں کو دوسرے دنوں پر اللہ نے فضیلت دی ہے ان دنوں کے روزوں کے آپ بہت متمنی ہوتے تھے یعنی یوم عاشورا اور رمضان کے روزوں کے۔ (صحیح البخاری ، حدیث : 2006 ) جیسے ہم پہلے ذکر کر چکے کہ یوم عاشورا کی عظمت و فضیلت اور حرمت قدیم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام اس دن کی فضیلت کی وجہ سے اس کا روزہ رکھتے۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ اہل کتاب میں بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور اسی طرح قریش بھی جاہلیت میں اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں یوم عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کو اس کا حکم نہیں دیا مگر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل کتاب کو اس دن کا روزہ رکھتے اور اس کی تعظیم کرتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور تاکیداً لوگوں کو اس کے روزے کا حکم دیا اور ان کو ابھارا یہاں تک کہ لوگ اپنے بچوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھواتے تھے۔
صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں قدم رنجہ ہوئے تو آپ نے یہود کو اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو آپ نے ان سے پو چہا:یہ کون سا دن ہے جسکی وجہ سے تم روزہ رکھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا :کہ اللہ نے اس دن موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی ۔ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تو موسیٰ نے اللہ کے شکر کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا۔ پس ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((فنحن احق واولٰی بموسیٰ منکم)) ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھراس دن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا۔
صحیحین میں ربیع بنت معوذ کی حدیث ہے ، کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراءکی صبح انصار کی بستیوں کی طرف اپنا ایک قاصد بھیجا کہ تم میں سے جو کوئی روزہ سے ہے وہ اپنے روزے کو پورا کرے اور جس نے روزہ نہیں رکھا وہ باقی دن کو (روزہ دار کی طرح) پورا کرے۔ اس کے بعد ہم اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھوایا کرتے تھے اور جب مسجد جاتے تو بچوں کے لیے روٹی کے بنے ہوئے کھلونے لے جاتے جب کوئی بچہ کھانے کی وجہ سے روتا تو ہم اسے یہ کھلونا دے دیتے۔ یہاں تک کہ افطاری کا وقت ہو جاتا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب بچے ہم سے کھانا مانگتے تو ہم ان کو کھلونے دے کر مشغول کر دیتے یہاں تک کہ وہ اپنا روزہ پورا کر لیتے تھے۔
جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یوم عاشوراءکے روزے کا حکم اور تاکید ترک کر دی تھی۔ جیسا کہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراءکا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا پس جب رمضان فرض ہو گیا تو آپ نے اس کو ترک کر دیا (یعنی اس کا حکم ترک کر دیا اور استحباب باقی رکھا)
صحیحین میں ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
((ھذا یوم عاشوراء ولم یکتب اللہ علیکم صیامه وانا صائم ، فمن شاءفلیصم ومن شاءفلیفطر))
” یہ عاشوراءکا دن ہے اللہ نے تم پر اس کا روزہ فرض قرار نہیں دیا اگرچہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ پس تم میں سے جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ “ (صحیح البخاری ، حدیث : 2003 )
((وھذا دلیل علیٰ نسخ الوجوب وبقاءالاستحباب)) ” اور یہ حدیث وجوب کے منسوخ ہونے اور استحباب کے باقی رہنے کی دلیل ہے۔ “
یہ بھی ماہ محرم کے فضائل میں سے ہے کہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے سے گزشتہ سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابوقتادہ سے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراءکے روزے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا :
((أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله)) ” میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یوم عاشوراءکا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ “

یوم عاشوراء کی فضیلت کے بارے اس کتاب کو ڈاؤن لوڈ کریں:

یوم عاشوراء اور اس کے روزے کی فضیلت
 
Top