یوسف کو صدا

اظہرالحق

محفلین
میرا ایک مضمون جو چاہ یوسف سے صدا کے تناظر میں‌ لکھا گیا ہے
------------------------------------------------------------------------

شاید چاہ یوسف سے جو صدا ابھری تھی وہ قافلے نے سُن لی ، اور اس قافلے نے اس یوسف کو آج اپنا حاکم بنا دیا ۔ ۔ ۔ آج جمہوریت کی زلیخا نے اس یوسف کو رجھانہ شروع کر دیا ہے ، مگر دور کہیں اسی یوسف کا بوڑھا باپ اپنی آنکھیں اندھی کر چکا ہے ، پتہ نہیں کب اس یوسف کا کرتا اس تک جاتا ہے ، کیونکہ یہ یوسف خواب دیکھ چکا ہے ، بے جرم مجرم بھی ہے ، زندان کو بھی دیکھ چکا ہے اور اب خواب دیکھنے والوں کو اسکی تعبیر بھی چاہیے ۔ ۔
یہ وہ یوسف ہے جسنے ایک اتھاہ اندھیرے کنوئیں سے جو صدا دی تھی اس کا اتنساب اس “خاموش اکثریت“ کے نام کیا تھا کہ جسے بولے بغیر ارض پاک پر حیات جرم اور زندگی وبال ہی رہتی ۔ ۔ ۔ مگر آج اس خاموش اکثریت نے ایک گونج کے ساتھ اسے اس پاک دھرتی کی گدی سونپ دی ، کہ جسکا ہر انسان اسکا مرید ہو جائے گا اگر اسی کی دعا قبول ہو گئی


خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے میرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو ، زندگی وبال نہ ہو


یہ وہی یوسف ہے جسے خدا کا حضرت موسٰی سے کہا یاد ہے کہ “فرعون سے نرمی سے بات کرو“ جسے باطل کے مٹنے کا یقین ہے اور وہ “خاموش اکثریت“ کی آرزو جانتا ہے
یہ وہ یوسف ہے جو “حسنی الحسینی سید“ کہلاتا ہے جو گیلان (ایران کا ایک شہر) کے بزرگ سے نسبت رکھتا ہے جو خانوادہ رسول(ص) سے نسبت رکھتا ہے اور جو “اوچ شریف“ (بہاول پور اور ملتان کے درمیان کا شہر) کے اولیاء کی اولاد سے ہے (حضرت موسٰی پاک شہید )
یہ یوسف حطہ سندھ و پنجاب کے درمیان شہر اولیاء کا فرد ہے جہاں کی زبان پاک وطن کی مٹھی ترین زبان ہے ( سرائیکی ) یہ زبان ہی پاکستان کو بیان کر لیتی ہے جسپر پنجابی سندھی بلوچی اور پشتو کا اثر واضح ہے اور اردو سمجھنے والا ہر شخص اسے آسانی سے سمجھ لیتا ہے ۔ ۔۔
یہ وہ شخص ہے جسکے اباء و اجداد اس ملک کی سیاست کا ہمیشہ سے حصہ رہے ہیں ۔ ۔۔ آج اسی خاندان کا فرد ملک کے سب سے اعلٰی عہدے تک پہنچا ہے
یہ وہ سید ہے جو سنی شعیہ اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے ، اس یوسف کے والد کا قول ہے کہ “اگر کسی شخص کے ہاتھ میں شفا ہونے کے باوجود وہ کسی دوسرے شخص کو فیضیاب نہ کرے تو ایسا شخص خود بدنصیب ہے “ کیا یہ بیٹا ایسا کر پائے گا ؟؟؟
کہنے کو بہت کچھ ہے ، یہ یوسف ہمہ سفت انسان ہے ، زندگی کے ہر اچھے برے دور سے گذرا ہے ، اسے درد کا بھی پتہ ہے اور مرہم کا بھی ، وہ شکپیئر کے مرچنٹ آف وینس کا پرفارمر بھی ہے اور جالب و فیض کے شعروں کا شیدائی بھی ، وہ کھیل کود میں بھی رہا ہے اور ایمان کی حرارت بھی جانتا ہے ۔ ۔۔ یہ شخص اس دیس کی دیہی اور شہری زندگی سے واقف ہے ، سید زادیوں کے پردوں سے بھی واقف ہے اور یورپ کی بے باکیوں سے بھی ۔۔ ۔
ایوبی دور سے لیکر مشرفی دور تک یہ مخدوم زادہ کسی نہ کسی صورت کارِ حکومت کا حصہ رہا ہے کبھی موافقت میں تو کبھی مخالفت میں اسے ہر پارٹی کا تجربہ بھی ہے ۔۔ ۔
کچھ بھی ہے ، آج چاہِ یوسف کی صدا اس دیس کے ہر گھر میں پہنچ گئی ہے ۔ ۔ ۔ کیا اب یہ یوسف اپنے سامعین کو وہ بینائی دے گا جسے اس قوم کا ہر فرد رو رو کر کھو چکا ہے ۔ ۔۔
میں مایوس نہیں ہوں میری قوم مایوس نہیں ہے ، ہمیں اس یوسف سے امید ہے بہت ۔ ۔ میں اسی کی کتاب کا آخری قطعہ یہاں لکھتا ہوں شاید اس میں سب کچھ سمٹ گیا ہے

ہمیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دیا
گراں تھے سینہ خاک پر وہی بن کہ بیٹھے ہیں معتبر
یہ بجا کہ آج اندھیرا ہے بس رُت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے وہی شاخ لائے گی برگ و بر

اب رُت بدل گئی ہے ، خشک شاخوں پر کونپلیں نکلتیں نظر آ رہیں ہیں ۔۔ ۔ ۔ شاید یہ یوسف ۔ ۔۔ ۔ ہمیں آنے والے قحط سے بچا لے !!!!!!
 
Top