یقیں کیسے کیسے، گماں کیسے کیسے - محمد رفیع

یقیں کیسے کیسے، گماں کیسے کیسے
ہیں آباد مجھ میں جہاں کیسے کیسے

فلک پر ملیں کیسی کیسی زمینیں
زمین پر ہوئے آسماں کیسے کیسے

ابھر آئے دھرتی پہ کیا کیا جزیرے
سمندر ہوئے بے نشاں کیسے کیسے

زمانے نے بوئے ہیں صحرا و دریا
ترے اور مرے درمیاں کیسے کیسے

جوانی سے لبریز مفلس بدن پر
اٹھیں وقت کی انگلیاں کیسے کیسے

مرے دور کی خوش نما بستیوں میں
ملے جنگلوں کے نشاں کیسے کیسے

مری سوچ کے دل ربا ساحلوں پر
اترتے رہے کارواں کیسے کیسے

خزاؤں میں بھی لہلہاتی رہی ہیں
تری یاد کی تتلیاں کیسے کیسے

تری بات ہر دن سناتی ہیں مجھ کو
سحر کی دل آویزیاں کیسے کیسے

ترے وصل میں جو جو بولا کئے ہے
تو دھڑکا کئے ہے زباں کیسے کیسے

جوانی نے دل کیسے کیسے جگایا
بڑھاپے نے دیں لوریاں کیسے کیسے

رفیع اور اقبال کی سرزمیں پر
غزل خواں ہیں اہل زباں کیسے کیسے

محمد رفیع​
 
Top