یاد کے درِیچے۔

رشید حسرت

محفلین
یاد کے دریچے۔


اِدھر تیرے کُوچے سے میرا گُزر
بہانے سے وہ تیرا لے جانا گھر

زمانہ لڑکپن کا رنگِین تھا
کہ تُو شِعر و نغمے کا شوقِین تھا

بڑی دیر تک سِلسلۂِ سُخن
مِری شخصیت، میرا اندازِ فن

سراہا کِیا تُو جو اشعار کو
تشّفی ھُوئی تیرے فنکار کو

یہِیں سے جُڑا سِلسلۂِ حیات
بدل سی گئی تھی مِری کائنات

عجب درد سِینے میں پلتا رہا
دِیّا سا ھواؤں میں جلتا رہا

بِلا وجہ پِھرنا گلی میں تِری
کہ تھم کر وہیں رہ گئی زِندگی

وُہ کُہسار، وُہ برف پر چاندنی
اُدھر چاند چڑھتا، اِدھر چاندنی

وُہ تنہائیاں، درد کا وُہ سفر
تصّوُر میں میں غرق تھا سر بسر

اچانک جو تُو نے نظر پھیر لی
دُکھوں کی مِرے دل کو جاگِیر دی

کہیں دُورجا خُود بسیرا کِیا
اِدھر دل میں آہوں نے ڈیرا کِیا

جو اظہار کو میری آنکھوں میں تھے
وہ جُگنُو تو مٹّی میں جذب ہو چُکے

کہو کُچھ مِری یاد آتی بھی ھے؟
خلِش دل کی تُجھ کو ستاتی بھی ھے

مِرے چار سُو ھے اُداسی مُحِیط
کہوں کِس طرح میں وُہ پہلے سے گِیت

اثر کُچھ بھی شِعروں میں باقی نہیں
وُہی بزم ھے، پر وہ ساقی نہیں

جو گُزرے کبھی تُجھ کو میرا خیال
نظر دِل گرِفتہ پہ تُو آ کے ڈال

زمانہ ھُؤا تیرے درشن کِیے
بہت چاک سِینے کے میں نے سِیئے

کسی طور اب دل بہلتا نہیں
گھڑی بھر کو بھی چین مِلتا نہیں

صنم کوئی مِلنے کی تدبِیر کر
معاف اب مِرے دل کی تقصِیر کر۔


رشید حسرتؔ کوئٹہ۔
 
Top