یاد ماضی: خواجہ شہید

یوسف-2

محفلین
اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے پہلی بار یہ خبر سنی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا ہوگا۔ میں اپنے کمرے سے نکل کے دوسرے کمرے میں گیا جہاں الطاف حسن قریشی اور مجیب شامی بیٹھے تھے۔ میں گویا انہیں یہ روح فرسا خبر سنانا چاہتا تھا، مگر ان کے اداس چہرے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ انہیں یہ خبر مل چکی ہے۔
ان دنوں فضاؤں میں پہلے ہی خوف سا طاری تھا۔ بھٹو کا دبدبہ پورے ملک پر ایک آسیب کی طرح مسلط تھا۔ مخالفین کا خیال تھا کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، اس سے کچھ بعید نہیں، اس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ وہ پاکستان کی سالمیت کو روندتا ہوا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا ہے اور اب وہ کم از کم بیس برس تک اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اہل عزم حوصلے کھو بیٹھے تھے کہ اس آفت کا ہر حال میں مقابلہ کرنا ہے۔ ہماری عزت و آبرو، ہماری آزادی، ہمارا سب کچھ داؤ پر ہے۔ ایسے میں اس خبر نے گویا یقین دلا دیا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، یہ شخص کس حد تک جا سکتا ہے۔
مجھے نہیں پتا کہ یہ تاثر درست تھا یا غلط، مگر ملک کی فضا ایسی تھی۔ بنگلہ دیش کا سانحہ ابھی نیا نیا تھا۔ بھٹو اس سانحے کی پشت پر سوار ہو کر باقی ماندہ پاکستان کا حکمران بن چکا تھا۔ اس نے آتے ہی مار دھاڑ شروع کر دی تھی۔ پہلے ہی روز صحافیوں کی برطرفیاں اور ان کو دھمکیاں، پھر اردو ڈائجسٹ اور پنجاب پنچ پر بندش، پھر مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کی فلم کی نمائش، سرحد کے ایک ممتاز خانوادے کی خواتین کی اپنے تئیں توہین آمیز فلمیں، سب کام اس نے پلک جھپکتے ہی کرکے بتا دیا کہ اس کا ارادہ کیا تھا۔ اس نے سویلین مارشل لاء کی وردی اتار کر ایک سال کے لئے ایک آمرانہ آئین مسلط کر دیا تھا۔ عجیب خوف کی فضا تھی، ملک کے اندر۔ ایسا تو مارشل لاؤں میں بھی نہیں ہوتا۔ یہ پہلے سال ہی کی کہانی ہے۔ ابھی اقتدار میں آئے چھ ماہ ہی نہ ہوئے تھے کہ ملک ایک مرد درویش سے محروم ہوگیا۔ وہ بھی کیا شخص تھا۔ ڈیرہ غازی خاں کے تمن داروں کے درمیان سے اٹھ کر اس نے اپنی آواز ملک کے طول و عرض میں پھیلا دی تھی۔ یہ ڈاکتر نذیر تھے۔ جماعت اسلامی ہی کا نہیں، ملک کاایک قیمتی اثاثہ جو70ء کے جمہوری عمل کے ایک آدھ نایاب تحفوں میں سے تھے۔
اس فضا میں جب وہ خبر آئی جس کا میں ذکر کر رہا ہوں تو دل کی عجیب کیفیت تھی۔ خبر یہ تھی کہ خواجہ رفیق بھی شہید کر دیئے گئے ہیں۔ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ اس خبر کا کیا اثر ہوا ہوگا۔ یہ واقعہ کسی دور افتادہ مقام پر نہیں ہوا، بلکہ لاہور کی صوبائی اسمبلی کی عمارت کے عین عقب میں۔ یہ20دسمبر72ء تھا۔ بھٹو کو اقتدار سنبھالے پورا سال بیت چکا تھا۔ جیالے کام دکھا گئے تھے۔ اور یہ ڈاکٹر نذیر کی طرح کوئی چھپا ہوا کیس بھی نہ تھا۔ لگتا تھا پورا لاہور ابل پڑا ہے۔ اور اگلے روز اس کے جنازے پر مال روڈ پر امڈ آیا۔ میں نے اتنا بڑا جنازہ نہ دیکھا تھا۔ چند پرانے بوڑھوں سے بات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ لاہور کی تاریخ نے غازی علم الدین شہید کے جنازے کے بعد ایسا جنازہ نہیں دیکھا۔ اللہ اللہ کیا موت تھی، اس مرددرویش کی۔ میں نے اگلے ہی روز یہ غازی علم الدین والی بات لکھ ڈالی تھی۔
یہی وہ دن تھے جب ان لوگوں کو اپنی بات پر یقین آگیا کہ بھٹو ایک شیطانی ذہن رکھتے ہیں جو پہلے ہی سے اس فخر ایشیا اور قائد عوام کے بارے میں بدظن تھے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا تھا، میں یہ بتا رہا ہوں یہ فضا تھی۔ یہ اس فضا کا نتیجہ تھا کہ جب بھٹو پر احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ بنا تو بہتوں کو یقین تھا کہ ہو نہ ہو، یہ مقدمہ درست ہے۔ اب میں اس مقدمے کی طرف نہیں آنا چاہتا، صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ فضا کیسے بنی تھی۔ اس ایک قتل نے بھٹو کے خلاف ذہن بنانے میں جو کسر رہ گئی تھی، وہ بھی پوری کر دی۔ یہ قتل دن دہاڑے ہوا تھا، لاہور جیسے شہر میں ہوا تھا۔ رونقوں بھرے علاقے میں ہوا تھا اور کھلم کھلا ہوا تھا۔
خواجہ رفیق سے میرا عجیب طرح کا رشتہ تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں لاہور آیا تو ان دنوں خواجہ صاحب ایک فعال، حساس اور محب وطن سیاسی کارکن کے طور پر معروف تھے۔ میں نے کارکن لکھا ہے، لیڈر نہیں لکھا۔ اس لئے کہ ان میں لیڈروں والے کوئی لچھن نہ تھے۔ ایک بار ان سے کوئی کام تھا، دیکھا تو اپنی پریس کے باہر تھڑے پر چارپائی ڈالے سو رہے تھے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ وہ اس وقت بھی خدمت کے لئے حاضر رہتے تھے۔ ایسی بات ان دنوں صرف ایم حمزہ کے حوالے سے سننے میں آتی تھی جو اپنی سائیکل پر بیٹھ کر اسمبلی جاتے تھے۔ خواجہ صاحب ان دنوں نوابزادہ نصر اللہ خاں کی پارٹی میں تھے۔ اس پارٹی میں ہمارے ایک اور دوست تھے، مسعود احمد پوسوال۔ہائے کیا نام یاد آیا ساہیوال سے ابھرنے والا یہ وکیل مڈل کلاس قیادت کی علامت تھا۔ سوچنے سمجھنے والا ذہن اور فعال اور متحرک روح۔ موت نے اسے جلد ہم سے چھین لیا۔ یہ دونوں نوابزادہ صاحب کی نوابی شان کا نشانہ بنے۔ مسعود پوسوال نے ایک مضمون لکھا کہ جب تک ہمارے قائد نواب صاحبی سے نکل کر نئے روپ میں نہیں آتے پارٹی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ70ء کے انتخابات میں شکست کے بعد کے بعد کے دن تھے۔ نوابزادہ صاحب یہ سوچ بھلا کیسے قبول کر سکتے تھے۔ مجلس عاملہ کا اجلاس تھا۔ وہاں ایک رکن نے پوسوال صاحب کی اس طرح سرزنش کی کہ انہیں گریبان سے پکڑ لیا۔ بابائے جمہوریت یہ تماشا دیکھتے رہے۔ برسوں بعد جب مجیب شامی کے ساتھ یہی صورت حال پیش آئی، تو لوگوں کو حیرانی ہوئی۔ عرض کیا ، حیرانی کی کیا بات ہے۔ بابائے جمہوریت نواب بھی تو تھے۔
ان دنوں خواجہ رفیق اور مسعود پوسوال نے الگ ہو کر ایک نئی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔ بھلا سا نام تھا، شاید وطن پارٹی، یا شاید شہر کے حوالے سے کوئی نام تھا۔ اس وقت یاد نہیں آرہا۔ وقت کتنا ظالم ہے حالانکہ اس کی بنیادی دستاویزات تیار کرنے میں ان دوستوں کی میں نے مدد کی تھی۔ ان دنوں ایسے کام میں بہت کیا کرتا تھا۔ یہ تو پھر دوست تھے۔ میں نے مسعود پوسوال سے پوچھا یہ آپ دو آدمی مل کر کیا انقلاب لائیں گے۔ ان کے دلائل بڑے واضح تھے۔ ہمیں اس ملک کی قسمت بدلنے کے لئے گر اس روٹس سے کام کرنا پڑے گا۔ خواجہ صاحب کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ پرانے اور اصلی لاہور میں اپنی جڑیں رکھتے ہیں۔ تبدیلی کے لئے وہ یہاں ایک فضا بنا سکتے ہیں۔ ہم ملک بھر میں ایسے لوگوں ہی کو اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ جغادری لیڈروں پر انحصار کرنے کا وقت نہیں رہا۔ ہو سکتا ہے، ہمیں منزل دیر سے ملے، مگر جدوجہد تو کرنا ہوگی۔
مجھے یاد ہے، یہ بھی طے پایا کہ پہلی پریس کانفرنس میں امرتسری کشمیریوں والی خاطر کی جائے گی۔ خطائیاں(جنہیں یہ کھنڈ کلچے کہتے ہیں) اور سبز قہوہ۔ عام طور پر امرتسریوں میں شام کو خاطر کا یہی طریقہ ہوا کرتا تھا۔ باقرخانی اور دودھ والی سبز چائے یا کھنڈ کلچے اور قہوہ۔ میں امرتسر کا کشمیری ہوں اس رواج کو جانتا ہوں۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ اتنا تو سرمایہ ہی نہ تھا کہ کوئی دھوم دھڑکے سے پارٹی لانچ کی جاتی۔ مجھے یاد ہے کارکن اکٹھا ہونا شروع ہوگئے تھے۔ کام چل نکلا تھا۔ یہ لوگ بڑے پرجوش اور پر عزم تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ خوش خوش پھرتا تھا۔
اس کے بعد میں ایک لمبا عرصہ کراچی میں رہا۔ اس دوران ان کا بیٹا خواجہ سعد رفیق ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ مجھے ان کے والد ہی کی وجہ سے ان سے محبت ہے۔ ویسے ایک دوسرا رشتہ ان کے ماموں کا بھی ہے، ہمارے خواجہ زکریا، ادب کے بے بدل استاد۔ انہیں پھلتا پھولتا دیکھ کر یوں احساس ہوتا ہے کہ جیسے چمن میں پھول کھل رہے ہیں۔ کوئی اس کے خلاف بولتا ہے تو میں خالص، متعصب اور جانبدار بن جاتاہوں۔ خواجہ رفیق کا چہرہ یاد آجاتا ہے اور ان کی جدوجہد۔ خدا نے انہیں یقیناًجنت نصیب کر رکھی ہوگی۔ انہیں تو میری دعاؤں کی بھی حاجت نہیں۔ ہاں، سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق سے اتنی گزارش ضرور ہے، دیکھنا ہمارے بھائی کے خون کی لاج رکھنا، تم اس خون کے امین ہو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن خواجہ سعد میرے ایک ٹی وی پروگرام میں شمولیت کے لئے آیا اور شمولیت سے پہلے کسی بات پر ناراض ہوگیا، سخت ناراض۔ میں نے پیار سے اس کے گال تھپتپائے جیسے کوئی بڑا محبت سے اپنے چھوٹوں کی پٹائی کرتا ہو اور اس کی پیشانی کو بوسہ دیتے ہوئے کہا،اٹھو اور پروگرام میں شریک ہو جاؤ، خواجہ رفیق پر میرا بڑا حق ہے۔ اس غصیلے نوجوان نے کاندھے جھٹکے، غصہ تھوکا اور سیدھا سٹودیو میں چل دیا۔
خواجہ رفیق پر میرا یا سعد رفیق ہی کا حق نہیں، پوری قوم کا حق ہے! کیا کسی کو خبر ہے کہ ہمیں یہ حق ادا کرنا ہے۔ (سجاد میر کا کالم، نئی دنیا۔ 23 دسمبر 2012)
 
Top