ہوں جب سے میں چاہت میں گرفتار وغیرہ

محمد وارث

لائبریرین
خوب غزل ہے عاطف صاحب، ردیف کو خوب نبھایا ہے آپ نے۔

اور اس بے نیازی کی داد بھلا کون دے سکتا ہے

میں ماننے والا ہوں حسین ابنِ علی کا
خاطر میں کہاں لاتا ہوں دربار وغیرہ

ایک بات یہ کہ مطلع میں "دروازہ و دیوار" کی ترکیب اچھی نہیں لگ رہی، "در و دیوار" مستعمل ہے اور بڑی آسانی سے استعمال ہو سکتی ہے، مثلاً

بھاتے نہیں اِک پل در و دیوار وغیرہ
یا
بھاتے نہیں مجھ کو در و دیوار وغیرہ
وغیرہ وغیرہ :)
 

آوازِ دوست

محفلین
محترم بٹ صاحب آپ نے غزل کو عین اُسی طرح آڑے ہاتھوں لیا ہے جیسے بٹ صاحبان نان، کُلچے وغیرہ کو لیتے ہیں۔ وغیرہ کے لفظ میں آپ نے قارئین کے لیے بڑی سہولت رکھ دی ہے اب ہر بندہ اپنے ذوق یا تجربے کے مطابق وغیرہ کی جگہ موزوں خیالات رکھ کرآپ کی درگت کا نظارہ کر سکتا ہے۔ سنجیدہ شاعری کی پرشکوہ مگر سپاٹ دیوار میں ایک شاندار ڈینٹ ڈالنے کا شکریہ۔
 
کیا کہنے جناب
تھوڑی بہت شاعری فیس بک پر پڑھ چکا ہوں
مکمل غزل پڑھنے کا پہلا اتفاق ہے
پہلی غزل ہی متاثر کر گئی
سوچ و فکر کہ گہرائی لئے سادہ الفاظ اس پر سنگلاخ زمیں میں اتنی خوبصورت غزل
بہت سی داد آپ کی کاوش کی نظر
اللہ کرے زور قلم زیادہ
 

عاطف ملک

محفلین
میں دور کھڑا دیکھ رہا ہوں یہ تماشا
محفل میں تری بیٹھے ہیں اغیار وغیرہ
واہ!
اس عشق کی بازی میں سبھی جان سے ہارے
فرہاد ہو یا عاطفِ بیمار وغیرہ
عاطفِ بیمار کی کیا بات ہے :)
میں ماننے والا ہوں حسین ابنِ علی کا
خاطر میں کہاں لاتا ہوں دربار
سبحان اللہ۔۔۔۔۔زبردست :)
ڈھیر ساری داد قبول کیجیے۔

کیا خوب ہیں یہ آپ کے اشعار وغیرہ
 
Top