ہوئے مر کے ہم جو رسوا

سحرش سحر

محفلین
اچھا ہے کہ پنکھے سے جھول گئ ......بد چلن کہیں کی ......اپنے باپ دادا کی پگڑی اچھال کر؛ بھائی کی غیرت کا جنازہ نکال کر؛ اچھا ہے کہ اس کا اپناجنازہ ہی آج نکل جائے ۔

گھر کے چھوٹے سے کچے پکے صحن میں بد چلن کی لاش چارپائی پر دھری تھی ۔ شاید وہ بھی اپنی نیم وا آنکھوں سے اپنے ارد گرد لگے تماشے کو دیکھ اور سن رہی تھی ۔ بلکہ آج تو وہ خود تماشا بنی ہوئی تھی ۔ ہر کوئی اس پر تھو تھو کر رہا تھا ۔ اس نے
اپنی بیس سالہ بھری جوانی میں ناقابل معافی جرم بلکہ گناہ کا ارتکاب جو کیا تھا ۔
جرم؟؟؟؟؟ ہاں جی جرم! کیا یہ جرم کافی نہیں کہ ایک نوجوان لڑ کی بھری جوانی میں فوت ہو جائے اور اس کی میت کے پیچھے خود کشی کی افواہیں بھی گرد اڑانا شروع کردیں ۔
اسے اپنی مشکوک چال چلن و طرز عمل کے بارے میں معاشرہ کو مطمئن کیے بناء، یوں اچانک موت کو گلے لگا نے کی قطعًا اجازت نہیں تھی ، بالکل بھی نہیں!
اور اس بد کردار کا جرم تو بہت ہی زیادہ سنگین تھا کیونکہ وہ ایسے نازک حالات میں خود کشی کی مرتکب ہوئی تھی کہ جب ایک سے بڑھ کر ایک للو پنچو کا رشتہ آرہا تھا اور شاید ......؟؟؟؟ شاید وہی تو تھی جو مسلسل ہر رشتہ ٹھکرائے جا رہی تھی ۔
پرسوں بھی سکول سے واپسی پر جیسےہی وہ گھر میں داخل ہوئی تو اس کا ماتھا ٹنکا کیونکہ فرزانہ چچی محلے کی کچھ خواتین سمیت برآمدہ میں بیٹھی چائے کے ساتھ سموسے کتر رہی تھیں ۔ وہ بھی انھیں روکھا سا سلام کر کے آگے بڑھ گئی ۔ اب تو وہ یہ تماشا روز ہی دیکھتی تھی ۔ رشتہ کے نام پر، اس کی صورت و سیرت دیکھنے و پرکھنے کے لیے ہر قسم کی صورت و سیرت کے حامل شہزادہ گلفام کی ماں بہنیں آجاتی تھیں ۔
ان کو رخصت کرنے کے بعد حسب معمول اس کی امی اسے سمجھاتی رہی کیونکہ صور تحال ہی ایسی بن گئی تھی ۔ بھابی کے آوارہ بھائی کو یہ کہہ کر اس نے سختی سے ٹھکرا دیا تھا کہ ابھی وہ شادی نہیں کرنا چاہتی ۔
لہذا اب تو بھابی بڑی ڈھٹائی سے، امی کو خاطر میں لائے بغیر ہی ' ہر اچھے رشتہ کو جوتے کی نوک پر رکھتی ۔ موقع بے موقع ہر جگہ ہر وقت وہ یہی کہتی پھرتی کہ ہماری لڑکی ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی ۔
امی آگے سے کچھ نہ کہہ پاتی ۔امی تو پہلے بھی ان سے الجھتی نہ تھی آخر کو اکلوتا بیٹا اور بہو تھی البتہ ان کے غلط کو غلط کہہ دیتی تھی اور اب تو ابا کی وفات کے بعد اور اپنی بیماری کی وجہ سے وہ بھائی اور بھابی سے با لکل بھی نہ الجھتی تھیں بلکہ انھوں نے تو چپ سادھ لی تھی ۔
آج صبح بھی وہ کراکری کی دکان والے لڑکے وقار کا رشتہ آیا تھا ۔ وہ ایک ٹانگ سے معذور تھا مگر بھابی نے اس کی ماں کو کھرا کھرا جواب دے دیا تھا ۔ آنسہ کا دل دھک سے رہ گیا ۔ وہ خوابوں کے تعاقب میں اڑنے پھرنے والی لڑکی نہ تھی ۔ وہ تلخ حقائق پر مبنی اس دنیا کو دیکھنے والی آنکھ رکھتی تھی ۔ افسوس کہ انسانوں کے بنائے گئے حسن کے معیار کے مطابق وہ معمولی شکل و صورت لے کر اس دنیا میں آئی تھی، ایک معمولی گھرانے کی لڑکی تھی اسے اندازہ تھا کہ اس کا ہاتھ تھامنے کے لیے کوئی شہزادہ کوئی امیر زادہ نہیں آئے گا ۔ سو وہ کسی ایسی مخلوق کی منتظر بھی نہ تھی اسے اپنے ہی جیسا ایک انسان چاہیے تھا ۔ جو اس پر اعتماد کرے، جواسے عزت سے رکھے ۔ معلوم نہیں ایسےانسان کہاں اور کیسے ملتے ہیں ۔ اب وہ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے تو رہی ۔
کاش وقار اس کی نصیب ہوتا ۔
وہ وقار کو جانتی تھی ۔ وہ بہت شریف، سلجھا ہوا پڑھا لکھااور محنتی لڑکا تھا ۔ کیا ہوا اگر وہ معذور تھا انسان تو اچھا تھا نا!
اگر وقار کے بارے میں اِس کی رائے پوچھی جاتی تو شاید وہ کبھی انکار نہ کرتی مگر اقرار بھی تو نہ کر سکتی تھی کیونکہ وہ ایک لڑکی تھی ۔
وقار کی والدہ کو بھی اندازہ ہورہا تھا کہ آنسہ کی والدہ کو تو کوئی اعتراض نہیں البتہ اس کی بھابی کو لڑکے کی معذوری پر سخت اعتراض ہے ۔ ایسے مایوس کن حالات میں قسمت کی ماری آنسہ اور کر بھی کیا سکتی تھی ۔ حیا کے مارے بس یہی کہہ کر امی کے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتی کہ دونوں بہنوں کی طرح اگر وہ بھی گھر سے رخصت ہو لی تو بھائی اور بھابی ان کا جینا دوبھر کر دیں گے ۔ مل کر ایک دوسرے کا سہارا بن کر ماں بیٹی کاوقت ذرا اچھا کٹ سکتا ہے تو اس میں مضائقہ ہی کیا ہے . ۔ امی اسے اپنی آنکھ بند ہونے کے بعد کے حالات سے اکثر ڈرایا کرتی تھی مگر وہ یہ کہہ کر انھیں خاموش کروا دیتی تھی کہ اگر ایسے حالات میں اس کی جگہ گھر میں نہ ہوگی تو وہ دارالامان چلی جائیں گی ۔ اس کی اسی بات پر امی کا کلیجہ کچھ حد تک کٹ جاتا تھاالبتہ........ پورا نہیں کیونکہ انھیں بھی دل کے کسی تاریک گوشے میں یہ کھٹکا لگا رہتا کہ آ نسہ کے چلے جانے کے بعد اس کا کیا بنے گا ۔ بیٹا تو جورو کا غلام تھا ۔ من مرضی کا مالک تھا ۔ تھوڑی دیر دکان پر بیٹھتا باقی سارا دن اپنے دوستوں کے ساتھ گلچرّے اڑایا کرتا تھا۔
اکثر رات کے بارہ بارہ بجہ تک اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ آوارگی میں مصروف رہتا تھا ۔
۔ ایسے میں گھر آ کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا جاتا تھا ۔ ماں اور بہن کی کار گزاری سے اس کی بیوی اسے آگاہ کرہی لیتی تھی ۔ صبح صبح بھائی کے رویہ سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ بھابی نے رات کو ساس اور نند کی کار گزاری بتاتے ہوئے دلائل دینے میں کتنی مشقت اٹھائی ہو گی ۔
آنسہ کو اس منافق معاشرہ سے شدید نفرت تھی جہاں ایک لڑکی کو ہمیشہ سے دبا کر رکھا جاتا ہے ۔ شرم وحیا کے نام پر ہمیشہ اس کو زبان بند رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے ۔ بے شک شرم وحیا عورت کا زیور ہے مگر ایک لڑکی کو شرم وحیا کے بھاری زیور سے اتنا بھی مزین نہیں کرنا چاہیے کہ اس کی شخصیت اس کا اعتماد ہی اس میں دب کر رہ جائے اور اس گھٹن سے کہیں وہ مر ہی نہ جائے ۔
خاص طور پر رشتہ کروانے کے معاملے میں ایک لڑکی کو اتنا بھی حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ماں تک کو اپنی پسند و ناپسند کا بتا سکے اور اگر ایسے میں کسی کی بہن بیٹی کوئی نادانی کر بیٹھے ۔ رشتہ سے خوش نہ ہونے کی بناء پر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دے یا کسی فریبی کے دام محبت میں پھنس کر اپنی زندگی یا اپنی ناموس داؤ پر لگا دے تو سارا قصور لڑکی کا ۔
شاذونادر ہی اگر کوئی لڑکی اپنی ساری ہمت جمع کر کے اپنی پسند کو تو رہنے ہی دے، اپنی نا پسندید گی کا اظہار ہی کر دے تو سب سے پہلے ماں نے اس کو بے شرمی کا طعنہ مار کر باپ بھائی کے غضب سے ڈرا دینا ہےکہ آئندہ منہ پر کبھی بھی ایسی بات نہ لا ئے ورنہ............
وہ سوچا کرتی تھی کہ بیٹوں کے معاملے میں یہ معاشرتی رویہ اس کے بالکل برعکس کیوں ہے؟
اس کے غیرت مند بھائی نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنی پسند کا اظہار کیا تھا ۔ حالانکہ اس کے والدین کسی بھی حالت میں رابعہ کو اپنی بہو نہیں بنانا چاہتے تھے ۔
بھائی نےاپنی شادی کی تیاریوں میں والد سے کئ بار لڑائی کی حد تک بحث کی تھی کہ بے شک وہ کسی سے ادھار لے لیں مگراس کی شادی دھوم دھام سے ہونی چاہیے ورنہ وہ کورٹ میرج کر کے بیوی کو گھر لےآئےگا پھر خرچہ کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔
ادھر آنسہ نے اک بار دھڑکتے دل کا ہاتھ تھام کر کانپتی آواز میں یہ کہہ کر انکار کر تو دیا تھا کہ وہ ابھی شادی کے موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی ۔ پھر شاید کئی روز تک بے حیائی کے طعنہ کے پیچھے گھر والوں کی زہریلی مشکوک نگاہوں کا زہر اس کی آنکھوں کے رستہ دل میں اتر تا رہا جس سے وہ کئ روز لمحہ لمحہ مرتی ۔ وہ اُن دنوں سکول سے آ کر اپنے کمرے یا باورچی خانہ ہی میں مقید ہو جاتی تھی ۔
اس کی بھابی کی طرح اہل محلہ اور اس کے رشتہ دار کافی عرصہ سے بہت زیادہ فکر مند تھے بلکہ کئ ایک تو شاید ڈپریشن کے مریض بن جاتے اگر وہ بروقت مر نہ جاتی ۔ وہ سب اس غم میں گھلتے جا رہے تھے کہ آخر اس کے بار بار انکار کی وجہ کیا ہے؟؟؟ ضرورکہیں اس کا کسی سے عشق معاشقہ چل رہا ہے یا کسی کے انتطار میں بیٹھی ہے..... بھئی اہل محلہ و قرب وجوار کے درد دل رکھنے والے خواتین و حضرات کے دل پر ایسے کئ سوالوں کا غبار چھوڑ کر یوں اس کا منہ پھیر کر دنیا سے چلےجانا بالکل مناسب نہیں تھا ....خیر اس کی اچانک موت نے سب سوالوں کے جواب دے ہی دیے تھے...وہ بھی مثبت!
اہل محلہ کے کانوں میں صبح سویرےہی اس کی موت کی سنسنی خیز خبر کی بھنک پڑ گئی تھی ۔اس بریکنگ نیوز کے بعد ماشاءاللہ ہر ایک مرد وعورت کی قیاس آرائی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اہل محلہ کی سوچ اور ان کے رویہ و مزاج میں کتنی ہم آہنگی ہے ۔ مگر ابھی بھی کچھ الجھن سی تھی کہ آیا اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی یا نہیں کیونکہ خود کشی کے فعل کے بعد نماز جنازہ پڑھانے یا نہ پڑھانے کے حکم کے بارے میں سبھی کو علم تھا ۔ بھئ اسلام سے با خبر لوگ تھے مگروہ اس اندیشہ کو بھی تو نہیں جھٹلا سکتے تھے کہ بھائی نے غیرت میں آ کر کہیں ..... !!!!
اسلیے کہ اس گناہگار کو ہسپتال لیجانے کی بھی نوبت نہ آئی تھی ۔ اب کوئی جا کر کیسے اس کے بھائی یا بھابی سے یا اس کی امی سے معلوم کرے کہ حقیقت کیا ہے ۔ اپنے اڑوس پڑوس کوبے سکونی میں مبتلہ کر کے وہ خود کیسے سکون سے سو رہی تھی ۔
اس کے سرہانے غم سے نڈھال بیٹھی ہوئی ماں اور بہنوں کے غم میں لتھڑے ہوئےگرم گرم آنسو، موسلادھار بارش کے لگاتار ٹپ ٹپ گرتے بوندووں کی مانند گر تے چلے جا رہے تھےمگر بہت ضبط اور خاموشی سے ۔
ایک طرف کو بیٹھی ہوئی اس کی اکلوتی بھابی رابعہ دکھاوے کے ٹسوے بہا رہی تھی جس میں اس کی خوشی کی ٹھنڈک بھی شامل تھی کیونکہ گھر میں ایک ایسی نند جس نے اس کے آوارہ، لفنٹر بھائی کے رشتہ سے انکار بھی کر دیا تھا ، کے وجود کو
برداشت کرنااس کے لیے مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔ چچی فرزانہ بھی انتقامًا ایسے ایسے رشتہ ڈھونڈ کر لاتیں کہ جو اس کے بیٹے کی طرح ایک نمبر کے نکھٹو ہوتے ۔
اگر چہ وہ صبح سے دو بجے تک گھر پر نہ ہوتی، پھر دو بجہ سے لیکر شام تک بھائی بھابی کی آنکھوں کے سامنے اس کا منڈلانا بھی ان کے لیے سخت نا گوار تھا ۔ بھائی کواپنی شادی سے قبل کبھی بھی یہ احساس نہ ہوا تھا کہ اس کی بہن اچھی لڑکی نہیں ہے یہ تو بعد میں جب اس نے اپنی چہیتی بیوی کی آنکھ سے دیکھا اور کانوں سے سنا تو اندازہ ہوا کہ اس بہن کے ہاتھوں وہ اور اس کی بیوی کتنی تنگ ہیں ۔ ہر مہینے کی تنخواہ ہاتھ میں نہ رکھتی ہوتی تو اس کا وجود وہ اس گھر سے کب کا فنا کر چکے ہوتے ۔
آج بھی اس بد نصیب کی میت کے پاس فرزانہ چچی جو کہ اس کی بھابی کی امی بھی تھی،کے بغل میں محلے کی کچھ عورتیں بیٹھی تھیں ۔ چچی مسلسل سرگوشیوں میں مصروف تھیں اور اپنی مکار بیٹی کی گناہگار آنکھ وکانوں کی گواہی کی روشنی میں مسلسل اظہار خیال فرما کر اپنا برائے نام غم اور انکی پریشانی کو ہلکا کر رہی تھیں ۔ چچی جان ارد گرد بیٹھی خواتین کو کبھی ہاتھ اور کبھی آنکھ کے اشار ے سے اور کبھی کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر اس کے سارے کرتوت بتائے جا رہی تھیں ۔

عورتیں بھی کبھی منہ بند؛ کبھی منہ کھول؛ کبھی آنکھیں نکا ل اور کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر چچی کی ہر بات پر حیران ہوئے جا رہی تھیں، ایک نگاہ ناگوار اس گناہ گار کی میت پر بھی ڈال لیتی تھیں اور بعض کے منہ سے بے ساختہ نکل جاتا تھا "تبھی تو...... " ۔
اب دیکھیں نا! محلہ کی شریف عورتیں حیران کیوں نہ ہوں اگر ایک جوان جہاں لڑکی رات کے گیارہ بجے بے حیائی کا جھنڈا تھامے ایک بڑی سی گاڑی سے اس حال میں اترتی ہے کہ اترے ہوئے چہرہ پر اسکا دوپٹہ خون آلود ہو اور اس کے کپڑے بھی پھٹے ہوئے ہوں تو غیرت مند بھائی یہ تک نہ پوچھے کہ اب تک کہاں تھیں اور کس کے ساتھ آئی ہے؟ایسے میں بے حیا وبےشرم بہن کا پنکھے سے جھول جانا ہی بہتر ہے ۔ شکر ہے کہ حرام موت مر گئ بد چلن ۔
اہل محلہ کو اس بات پر سب سے زیادہ تاؤ آ رہا تھا کہ یہ میسنی کم ازکم کسی کو اتنا تو بتا دیتی کہ آئی کس یار کے ساتھ تھی؟؟؟؟
اتنے میں پولیس کی بھاری نفری اس کے بھائی کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالے گھر میں داخل ہوئی مگر ساتھ میں بھابی کے بد معاش بھائی کے ہاتھوں میں بھی ہتھکڑیاں .....؟؟؟؟ یہ منظر دیکھ کرسبھی ششدر رہ گئے ۔
لیڈی پولیس نے رابعہ کے بارے میں پوچھا ۔ رابعہ بھابی کی تو جیسے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو ۔ اس کا رنگ فق ہو گیا ۔ وہ سارا معاملہ بھانپ گئ ۔ فرزانہ چچی نے واویلا مچانا شروع کیا کہ اسی کے ہوتوں سوتوں کو ہی ہتھکڑیاں کیوں پہنائی گئی ہیں ۔ ادھر بھابی نے بھی آسمان سر پر اٹھا لیا کہ وہ سب بے قصور ہیں ۔ انسپکٹر صاحب نے کہا کہ یہ تو تھانے چل کر تفصیل دوگی کہ کون قصور وار ہے اور کون بے قصور؟ ؟ بھابی کو بھی گرفتار کر لیا گیا ۔ ایک شور بپا ہوا۔ اتنے میں انسپکٹر صاحب کے ساتھ تھری پیس سوٹ میں ملبوس بیرسٹر اسدشبیر اپنی رعب دار بھاری آواز میں گویا ہوئےکہ تفصیلات بے شک تھانے میں دیجئے گا مگر اس معصوم کے کردار پر اس کی پاک دامنی پر جو کیچڑ اچھالا گیا ہے اسکی صفائی ابھی اس مجمع ہی میں دینی ضروری ہے ۔
بیرسٹراسد شبیر ہسپتال میں اپنی اکلوتی دس سالہ بچی کو چھوڑ کر'ایمرجنسی میں پولیس کو لے کر آیا تھا ۔ کل اس کی بیٹی حادثہ کا شکار ہو گئی تھی ۔ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے اس کو سکول سے لینے کے لیے گاڑی بروقت نہ پہنچ سکی تھی ۔ جب اس کی گاڑی سکول گیٹ کے سامنے رکی تو عین اسی وقت جب بچی بھی اپنے سکول گیٹ سے نکلی تو وہیں پر مس آنسہ ویگن نہ ملنےکی وجہ سے پیدل گزر ہی رہی تھی کہ اچانک ایک شخص نے اس بچی کو پکڑ کر اغواء کر کے لے جانے کی کوشش کی مگر مس آنسہ کی مزاحمت کی وجہ سے اور خوش قسمتی سے سامنے سے آتی ہوئی پولیس وین دیکھ کر اغواء کار بھاگنے لگے مگر کامیاب نہ ہو سکے اور موقع پر ہی دھر لیے گئے ۔رات کو ذرا سی پولیس کی چھترول پر ان بزدلوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے نام بھی بتا دیئے ۔ انہی میں سے ایک بھابی کا بھائی بھی تھا جو کہ کئ ایک وارداتوں میں ان کے ساتھ ملوث تھا ۔
مگر بچی بد حواس ہوکر روڈ کی طرف بھاگی اور حادثہ کا شکار ہو گئ ۔ مس آنسہ اور بیرسٹر کے ڈراٰئیور نے لہو لہان بچی کو اٹھا کر ہسپتال پہنچا دیا ۔ بیرسٹر صاحب اور اس کی بیوی شہر سے باہر تھے لہذا اطلاع ملنے کے بعد پہنچتے پہنچتے رات ہو گئ ۔
بچی کے گھر والوں کی غیر موجودگی اور بچی کی مسلسل بے ہوشی کی وجہ سے آنسہ ہسپتال میں دیر تک رکی رہی کیونکہ اس کی زندگی ہر طرح سے خطرہ میں تھی ۔ اپنے گھر والوں کو مطلع کرنے کے لیے اس نے بار بار فون ملایا مگر کسی نے فون نہ اٹھایا ۔ بھابی کی منشا یہی تھی کہ وہ ہر طرح سے اس سے بے خبر رہے اور پھر فساد ڈال دے ۔
بیرسٹر اور اس کی بیوی جیسے ہی ہسپتال پہنچے توانھوں نے اسے گیارہ بجے اپنے ڈرائیور کے ساتھ گھر بھیج دیا ۔ بچی صبح تک ہوش میں آ گئی تھی ۔ مگر انھیں کیا معلوم تھا کہ ان کی محسن اپنی جان سے چلی جائیں گی ۔ اتفاق سے انسہ کا فون مسلسل بند ہونے کی سورت میں صبح بیرسٹر کی بیوی اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ڈرائیور کے ساتھ اس کے گھر چلی آئی تو یہاں کچھ اورتماشا لگا دیکھا ۔ فورًا واپس جاکر بیرسٹر صاحب کو آگاہ کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بیرسٹر صاحب نےخاموش ہو جانے کے بعد اس کے بھائی اور بھابی کو "جی " کہہ کر مخاطب کیا کہ وہ بھی آگے کا ماجرا سنائے ۔
گھر آکر بھابی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا کیونکہ ایک دو بار وہ کسی سکول ایکٹیویٹی کی بناء پر ایک ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ آئی تھی تو بھی بھابی نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ کہیں ہوٹلوں میں کسی کے ساتھ.....اس پر بھائی بھڑک اٹھے تھےاور بیوی کو منہ بند رکھنے کا کہا تھا ۔اور آنسہ کی بھی ایک نہیں سنی تھی بلکہ گالیاں بک کر اسے آئندہ کے لیےخبردار کیا تھا ۔
یہی کچھ ہوتا ہے جب دل میں خود غرضی داخل ہو جاتی ہے تو اس کا پہلا کام ہی محبت کی جگہ نفرت کو لا بسانا ہوتا ہے اور پھر دونوں مل کر اعتماد کو بھی دھکے دے دے کر نکال باہر کر دیتے ہیں پھر کیاماں ' کیا باپ ؛ کیا میاں 'کیا بیوی ؛ کیا بھائی اور کیا بہن؛ ہر رشتہ خودغرضی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ آج تو حد ہی ہو گئ تھی وہ رات کے ساڑھے گیارہ بجے گھر پہنچی تھی ۔ اماں سلیپنگ پلز لے کر سو رہی تھیں ۔ بھائی تو رات بارہ بجہ کے بعد گھر آیا ۔ نشہ کی حالت میں تھا ۔ اور طبیعت خراب تھی اس وقت بھابی کی چغلی اس کے پلے زیادہ نہ پڑسکی اگرچہ اس نے راگ الاپنے کی کوشش کی ...........
اسے المیہ کہیں یا طربیہ کہ چھوٹے چھوٹے قصبوں یا تنگ گلی محلوں میں شدید قسم کے شرفاء رہتے ہیں ۔ ہر شخص دوسرے کے آنے جانے اٹھنے بیٹھنے پر نگاہ مشکوک رکھے ہوئے ہوتاہے تو جناب ایسی تنگ گلیوں میں کوئی بڑی سی نیلی ...پیلی یا سیاہ کار گھسنے کی کوشش کریےتو شرفاء کی رگ شرافت پھڑک ہی اٹھتی ہے اور وہ اس گاڑی کو تاڑتےرہتے ہیں کہ گاڑی کہاں سے آئی ....کہاں گئی اور اس میں سے کون برآمد ہوا ...مرد یا خاتون ....؟
ایسے میں کوئی محلہ کی عورت گاڑی سے برآمد ہو تو اس بد چلن پر لا حول پڑھنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ فورا سے پیشتر اس کی گاڑی سے اترنے کی تصویر لے لی جاتی ہے تاکہ اس کے خاندان کے غیرتی بلکہ بے غیرت مردوں کو دکھا کر بد چلنی کا قلع قمع کر کے ثواب دارین حاصل کی جائے ۔ آنسہ کے محلے کے شرفاء کے پاس آنکھ کان اور زبان کے ساتھ ساتھ سمارٹ فون بھی تھے ۔ اپنا دیکھا بھالا وہ اکیلے اکیلے کیسے ہضم کر سکتے تھے اخر محلہ داری تھی، بھائی بندی تھی ۔ عزت سب کی سانجھی تھی ۔ اسلیے رات ہی کو اس کے بھائی کو جھٹ پھٹ تصویریں بھیج دی گئ تھیں ۔
صبح چھ بجے بھابی کے نکھٹوبھائی نے باقاعدہ فون کر کے بھائی کی غیرت میں ابال لانے کی کوشش کی ۔ بس پھرکیا تھا.... بھائی کی غیرت کا آتش فشاں پھٹ پڑا ۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ وہ کچھ کہے سنے بغیر ہی گالیاں بکتا ہواچیل کی طرح بہن پر جھپٹا ۔ یہاں تک کہ وہ اس کے تابڑ توڑ تھپڑوں اور گھونسوں کی تاب نہ لا کر سیدھامیز کے ایک نوکدار سرےپرگری .....ایک چیخ......اورخاموشی......
بھائی پلٹا اور قریب ہی دیوار کے ساتھ جو مُنّی کی سائیکل کھڑی تھی اسے اٹھا کر فرش پر بے حس وحرکت پڑی ہوئی آنسہ کے جسم پر دے مارنی چاہی مگر امی نے زور سے اس کا بازو پکڑا اور اسے اس اردہ میں کامیاب نہ ہونے دیا ۔
بھائی بھابی طیش میں پلٹ کر کمرے میں چلے گئے کہ اب یہ بے حیا جانے اور اس کی ماں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ادھربد چلن کی ماں چیختی رہی چلاتی رہی........
وہ دیر تک وہیں کی وہیں بے حس وحرکت پڑی رہی ۔ اس کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا ۔ کچھ دیر بعد امی کے شور سے تنگ آ کر بھابی پیشانی پر بل ڈالے بڑبڑاتی ہوئی آئی تو اس کے ہوش اڑ گئے .... جلدی سےشوہر کو آواز دے دی ۔
شامت کے مارے دونوں میاں بیوی نے لاش چارپائی پر ڈالی اور واویلا مچایا کہ اس بدکردار نے خودکشی کر لی ہے کیونکہ وہ رات گئے کسی کے ساتھ گاڑی میں آ ئی تھی تو غیرتمند بھائی نے پوچھ گچھ .............
اچانک آنسہ کے ماتھے پر اس کی بہن نے پسینہ دیکھا ...وہ ابھی زندہ تھی ۔ اس میں زندگی کی رمق باقی تھی ۔اسے جلدی سے ہسپتال بھجوا دیا گیا ۔
آٹھ دن بعد وہ ہوش میں تھی ۔ وہ زندہ تھی ۔ اسے نئ زندگی ملی تھی ۔ اوپر والے نے اسےذلت و رسوائی کی موت مرنے سے بچا لیا تھا۔
آیا واقعی وہ ذلت ورسوائی کی موت مرنے سے بچ گئی تھی ۔ کیا اب وہ نیک نام بن گئ تھی؟ کیا یہ معاشرہ اب اسے قبول کرے گا ؟ کوئی اس پر اعتماد کرے گا؟
اہل محلہ اور بہنوں کے سسرالی.....؟؟؟ نہیں نہیں ! کوئی اعتبار نہیں کرے گا ۔ کبھی بھی نہیں ۔
اتنے میں ایک نرس اندر آئی ۔ اس کے ہاتھ مین خوبصورت پھولوں کا گلدستہ تھا ۔ اس نے گلدستہ آنسہ کے آگے بڑھا کر کہا کہ یہ کوئی وقار احمد صاحب آپ کے لیے لے کر آئے تھے مگر مجھے گلدستہ پکڑا کر دروازہ ہی سے رخصت ہو گئے ۔
ایس سحر
 
Top