طارق شاہ
محفلین
غزل
احمد فراز
ہنگامۂ محفل ہے کوئی دم کہ چلا میں
ساقی مِرے ساغر میں ذرا کم کہ چلا میں
کچھ دیرکی مہمان سرائے ہے یہ دنیا
چلنا ہےتوچل اے مِرے ہمدم، کہ چلا میں
پھر بات ملاقات کبھی ہو کہ نہیں ہو
پھریارکہاں فرصتِ باہم کہ چلا میں
یہ سلسلۂ آمد وشد کیا ہے، کہ یا رب!
اک شور نفس میں ہے دمادم کہ چلا میں
جوعمرگزاری ہے بڑی دھج سے گزاری
اب کوئی خوشی ہے نہ کوئی غم کہ چلا میں
یہ دل کا تپکنا، کہ ٹھرتا ہی نہیں ہے
یارو کوئی نشتر، کوئی مرہم کہ چلا میں
اے دوست، فراز ایک دِیا ہے تِرے در کا
کیا جانئے! کہہ دے وہ کسی دم، کہ چلا میں احمد فراز
احمد فراز
ہنگامۂ محفل ہے کوئی دم کہ چلا میں
ساقی مِرے ساغر میں ذرا کم کہ چلا میں
کچھ دیرکی مہمان سرائے ہے یہ دنیا
چلنا ہےتوچل اے مِرے ہمدم، کہ چلا میں
پھر بات ملاقات کبھی ہو کہ نہیں ہو
پھریارکہاں فرصتِ باہم کہ چلا میں
یہ سلسلۂ آمد وشد کیا ہے، کہ یا رب!
اک شور نفس میں ہے دمادم کہ چلا میں
جوعمرگزاری ہے بڑی دھج سے گزاری
اب کوئی خوشی ہے نہ کوئی غم کہ چلا میں
یہ دل کا تپکنا، کہ ٹھرتا ہی نہیں ہے
یارو کوئی نشتر، کوئی مرہم کہ چلا میں
اے دوست، فراز ایک دِیا ہے تِرے در کا
کیا جانئے! کہہ دے وہ کسی دم، کہ چلا میں احمد فراز