(ہنوستان) پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کی قلت کاشکوہ بے معنی

پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کی قلت کاشکوہ بے معنی
خبر در خبر: شمس تبریز قاسمی
ایڈیٹر بصیرت آن لائن انگریزی
آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب پچیس کروڑ مسلمانوں کے پچیس نمائندے بھی پارلیمنٹ میں نہیں پہونچ سکے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ حکمراں جماعت کی جانب سے جیت درج کرانے والے 282 اراکین میں ایک بھی مسلم چہرہ نہیں ہے۔حکومت میں صرف ایک مسلمان ہے اور وہ بھی برائے نام۔ مسلم آبادی کا تناسب اس بات کا متقاضی ہے کہ پارلیمنٹ میں کم ازکم 80مسلم نمائندے ہوں لیکن آج تک ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ آبادی کے تناسب سے تو کبھی بھی مسلم نمائندگی نہیں ہوئی ہے۔ حالیہ الیکشن میں جو تعداد پارلیمنٹ میں پہنچی ہے اس پر آٹے میں نمک کے برابر کی یہ مثال بھی صادق نہیں آرہی ہے۔
آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کے تمام لوک سبھا انتخابات میں مسلم نمایندگی کچھ یوں رہی ہے:1952ء کے انتخابات میں11،1957ء میں23،1962ء میں 20،1967ء میں25،1972ء میں28،1977ء میں34،1980ء میں51،1984ءمیں42،1989ء میں27،1991ء میں25،1996ء میں29،1998ء میں28،1999ء میں31،2004ء میں34 اور 2009ء میں29رہی ہے، جبکہ2014 کے حالیہ الیکشن میں یہ تعداد صرف23 ہے۔
مسلم ممبران پارلیمنٹ کے کم ہونے کی بنیادی وجہ ہے کہ ملک کی اہم سیاسی پارٹیوں نے بہت کم مسلم امیدوار اتارے تھے،بی جے پی نے صرف ایک مسلم امیدوار کھڑاکیا تھا اور جہاں مسلمان تھے وہاں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کچھ اس طرح ہوئی کہ مسلمان خود اپنوں کی سازش کے شکار ہوکر شکست سے دوچار ہوگئے۔ بعض تو منزل کے قریب پہونچ کردم توڑگئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اتر پردیش ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان امیدوار اتارے گئے تھے۔ بی ایس پی نے 19،ایس پی نے13 اور کانگریس نے 11 مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا تھا،ان کے علاوہ محمد ادیب خود ساختہ راشٹروادی سماج پارٹی سے بجنور پارلیمانی حلقے .ڈمریاگنج سے ڈاکٹرایوب اپنی پیس پارٹی سے ،گھوسی سے مختار انصاری اپنی پارٹی سے میدان میں تھے،مگر ان میں سے کسی بھی امیدوار کو کامیابی نہیں ملی،گزشتہ لوک سبھاالیکشن میں اس صوبے سے7ممبران منتخب ہوئے تھے۔ مہاراشٹر سے بھی اس بارایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوا،اس سلسلے میں مغربی بنگال اول نمبر پر رہاکہ وہاں سے کل8؍مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ منتخب ہوکرآئے،جب کہ بہار سے4،کیرل سے4،جموں و کشمیر سے3، آسام سے2،جب کہ آندھرا پردیش،تملناڈو اورلکشدیپ سے ایک ایک مسلم امیدوار کامیاب ہوئے،گجرات کا چالیس سالہ ریکارڈ برقراررہا اور وہاں سے ایک بھی مسلم امیدوارمنتخب نہیں ہوا،آخری بار1984ء میں گجرات سے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ احمد پٹیل کی شکل میں منتخب ہواتھا۔
مسلم نمائندگی کی یہ زبوں حالی افسوسناک ضرور ہے لیکن اس سے زیادہ قابل افسوس امر یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود مسلم نمائندوں سے آج تک مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ آزادی کے 67 سالوں میں ملت اسلامیہ ہند پر دسیوں المناک حادثے آئے ہیں ،عظیم ترین مصائب سے دوچارہوئے ہیں، بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا، مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیاگیا، مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر جیل کی سلاخوں میں ڈالاگیا، لیکن پارلیمنٹ میں بیٹھے ان مسلمانوں کے سرپہ جوں تک نہیں رینگی ۔کبھی انہوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا، پارٹی سے استعفی نہیں دیا تازہ ترین مثال اتر پردیش کی ہےوہاں کی اسمبلی میں 59 ممبران ہیں لیکن مظفرنگر کے فساد پر ان لوگوں کوئی احتجاج نہیں کیا کبھی بھی انہوں نے اسے موضوع بحث نہیں بنایا۔
مسلم امیدوار کو مسلم عوام پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی اور مسلم مفاد کو بروئے کار لانے کے لئے بھیجتی ہے لیکن یہ ممبران پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنی پارٹی کے غلام بن جاتے ہیں۔ ان کے اشاروں کے تابعدار ہوتے ہیں، مسلم نمائندگی اور مسلم مفاد کا احساس بھولے سے بھی کبھی ان کے حاشیہ خیال میں نہیں آتا ہے۔ تو پھرکیا فائدہ ان مسلمانوں کا ان کے پارلیمنٹ میں پہونچنے کا ہاں کچھ مسلم ممبران وہ بھی ہیں جو حق گوئی بے باکی اور حرات و ہمت کے جذبے سے شرشار ہیں۔ ان کی ہمت کو سلام عرض کرتاہوں اس طرح کے لوگوں کی شکست افسوسناک ہے۔ان لوگوں کی نہیں جو ضمیر فروش ہیں، پارٹی کے غلام ہیں اور مسلم مسائل سے بے خبر ہیں۔(بصیرت فیچرسروس
 

arifkarim

معطل
مسلم امیدوار کو مسلم عوام پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی اور مسلم مفاد کو بروئے کار لانے کے لئے بھیجتی ہے لیکن یہ ممبران پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنی پارٹی کے غلام بن جاتے ہیں۔
پاکستانی سیاست دان بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں اکثریت مسلمین اور مومنین ہی کی ہے :) باقی حقیقی و عملی سطح پر دونوں ممالک بھارت اور پاکستان کی پیشتر عوام خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو، غربت کی عالمی لکیر سے نیچے ہی ہے۔
 
Top