ہنوستان نامہ

ہندوستانی وزیر کا یہ سوال اہم ہے
Bae+Yaft.jpg
’’انڈین مجاہدین کا ہیڈکوارٹر کہاں ہے؟ جب دہشت گردی کے نام پر سیمی پر پابندی عائد کرنے کے لیے حکومت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاسکتی ہے تو کون سی چیز ہے جو اسے آر ایس ایس پر کارروائی کرنے سے روک رہی ہے؟ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں دوہرا معیار کیوں؟ انڈین مجاہدین کا سرغنہ کون ہے؟ اس کا ہیڈکوارٹر کہاں ہے اور اسے اب تک سیل کیوں نہیں کیاگیا؟‘‘ یہ چند اہم سوالات ہیں جو یوپی اے سرکار کے مرکزی وزیر مملکت برائے زراعت و خوراک و رسد جناب طارق انور نے اپنے ایک تجزیاتی مضمون میں اٹھائے ہیں۔ یہ مضمون ایک معاصراردو روزنامے میں ۱۴؍فروری کو شائع ہوا تھا۔ فاضل تجزیہ نگار نے عام انتخابات سے کچھ ماہ قبل یوپی اے سرکار سے راست سوالات کرکے اس کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ اس تجزیے کے ساتھ ہی انھوں نے اپنا نام ملک کے ان لیڈروں کی فہرست میں شامل کرالیا ہے جو سرکار سے سوالات تو کرتے ہیں لیکن جواب نہ ملنے کی صورت میں بھی سرکار کے مفادات کے تحفظ کے لیے کمربستہ رہتے ہیں، لہٰذا اب طارق انور صاحب بھی دگ وجے سنگھ، منی شنکر ایئر اور مرکزی وزی داخلہ سشیل کمار شندے کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جو آر ایس ایس پر پابندی لگانے کی بات کرتے ہیں۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ موصوف نے جن سوالات کو اٹھایا ہے وہ سوالات طویل عرصے سے ملک کے انصاف پسند افراد اٹھاتے رہے ہیں، جن میں مسلمان اور غیرمسلم کی بھی کوئی قید نہیں رہی ہے۔ ایسے درجنوں غیرمسلم کالم نگار ہیں جنھوں نے بارہا اپنی تحریروں کے ذریعے سرکار کو دہشت گردی سے نمٹنے کے طریق کار کو بدلنے اور سیاسی قوت ارادی کا عملی مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔بلاشبہ وہ سوالات جو ایک طویل عرصے سے ایک سنجیدہ طبقہ اٹھاتا رہا ہے، وزیر موصوف نے بھی انھیں چھیڑکر مظلومین کو فوری طورپر ذہنی سکون تو فراہم کیا ہے لیکن مکمل اطمینان تو اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ان سوالات کا جواب مل جائے، لہٰذا وزیر موصوف اگریہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک خاص طبقے کو دہشت گردی کے نام پر بے جا پریشان کیا جارہا ہے تو انھیں چاہیے کہ اپنے ان سوالات پر سرکار میں شامل ان تمام لوگوں کو ساتھ لیں جو اِن سوالات کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ سرکار پر عملی اقدامات کرنے کے لیے دباؤ بنانے کا یہ مناسب وقت ہے، ورنہ یہ سوالات جواب طلب ہی رہ جائیں گے۔
 
Top