ہم کیا ہیں؟... صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود

میں نے گزشتہ کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ سیاست کے جوہڑ کو گندی مچھلیوں سے صاف کرنے کے لئے جتنے فلٹر لگائے گئے تھے وہ بظاہر ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ محض فلٹر لگانے سے بات نہیں بنتی جب تک اس کے پیچھے خلوص نیت اور ارادہ نہ ہو۔ چنانچہ امکان یہی ہے کہ ان انتخابات میں اکثریت انہی چہروں کی ہو گی جو اپنے سکینڈلز اور دوسرے کارناموں کے حوالے سے خاصے مانوس ہیں۔ ہاں اس بار ایک چھوٹی سی تبدیلی دیکھنے میں آئے گی اور وہ یہ کہ مشرف کے کوئی چالیس کے لگ بھگ وفا دار مسلم لیگ (ن) میں، دس پندرہ کے لگ بھگ پی پی پی میں اور کوئی تین چار تحریک انصاف میں گھس گئے ہیں۔ صرف جماعت اسلامی اپنے کردار اور نظم و ضبط کی وجہ سے محفوظ رہی ہے۔
یہ کاریگر حضرات اپنے نئے قائدین سے ٹکٹ بھی لینے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اُن میں سے بہت سے اسمبلیوں میں بھی پہنچ جائیں گے۔ تاریخ پھر ایک مرتبہ اپنے آپ کو دہرائے گی حالانکہ اس سے قبل بہت دفعہ دہرا چکی کہ کل تک مشرف کے گن گانے والے اور کچھ اس کے کندھوں پر سواری کرنے والے اب میاں نواز شریف، صدر زرداری اور بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان کے ترانے گائیں گے اور اس سے اُن کے ”صاف ستھرے ضمیروں“ میں ذرہ بھر خلش بھی پیدا نہیں ہو گی کیونکہ ہمارے ہاں لیڈر کو دھوکہ دینے، وفا داری بدلنے، پینے پلانے، اربوں ہضم کرنے سے ضمیر میں ہرگز خلش نہیں ہوتی۔ ہمارا ضمیر مفادات کا اسیر ہے اس لئے جب مفاد پہ ضرب پڑے تو یہ تڑپنا شروع کر دیتا ہے۔ میاں صاحب کو جنرل پرویز مشرف نے دیس نکالا دیا تو اُن کے ان گنت ساتھی جنرل مشرف کے قدموں میں گر گئے، جنرل مشرف مزید طاقتور ہوا تو بہت سے نئے کھلاڑی اقتدار کے خواب آنکھوں میں سجائے مشرف کے کندھوں پر سوار ہو گئے۔ جنرل مشرف کو دیس نکالا ملا تو اُن کی آنکھیں کھلیں کہ وہ تو ایک فوجی آمر یعنی ڈکٹیٹر کے قصیدے پڑھ رہے تھے اور بہ آواز بلند پڑھ رہے تھے۔ تب اُن کے سینوں میں جمہوریت کا درد اٹھا اور وہ بھاگم بھاگ بڑی جماعتوں میں مشرف بہ جمہوریت ہو گئے۔
ہمارے قائدین اور سیاسی جماعتیں بھی ماشاء اللہ بڑی اصولی، جمہوری اور نظریاتی ہیں انہوں نے مشرف کے سابق وفا داروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بس اس دوڑ میں صرف چوہدری برادران اور ان کے چند ساتھی پیچھے رہ گئے۔ اصول نہیں، ذاتی انا اور عناد کی دیواروں نے اُن کا راستہ روک لیا۔ ہم نہایت وفا دار، مخلص اور اصول پسند لوگ ہیں۔ میاں برادران کو اقتدار سے نکالا گیا۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھاتو وہاں موٹے حروف میں لکھا تھا ”جا پتر چڑھ جا سولی رام بھلی کرے گا“ اُن کے سابق وفا دار سڑکوں پر یوم نجات مناتے اور مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے۔ اب انہی میں سے کچھ پھر اُن کے وفا دار بن گئے ہیں۔ بچارا مشرف واپس آیا ہے تو وہ اسی طرح تنہا پھر رہا ہے جس طرح میاں برادران اقتدار سے نکلنے کے بعد پھرتے تھے۔ وفا داری کی داد دینی چاہئے چاہے وہ داد عتیقہ اڈھو ہی کے حصے میں آئے۔ تاریخ اپنے دامن میں بہت سے سبق چھپائے پھرتی ہیں لیکن ہم ان پڑھ اس سے کچھ بھی نہیں سیکھتے۔
دیکھئے تاریخ کس طرح اپنے آپ کو دہراتی ہے اور قدرت کے نظام کا پہیہ کیسے چلتا ہے۔ میاں برادران سعودی دوستوں کے ذریعے گئے اور اُنہی کے ذریعے واپس آئے۔ جنرل پرویز مشرف بھی انہی کے ذریعے گیا اور انہی کے ذریعے واپس آیا۔ بُرے وقت میں جن لوگوں نے میاں صاحبان کو چھوڑا اور مشرف کی حکمران ویگن میں سوار ہو گئے اب وہ مشرف کی ویگن سے اتر کر میاں صاحبان کی مرسیڈیز میں سوار ہو گئے ہیں۔ کل کلاں وقت بدلے تو وہ مرسیڈیز سے اتر کر کسی اور کے ٹانگے میں جا بیٹھیں گے۔
میاں برادران نے مقدمات جھیلے اور جیلیں دیکھیں۔ قدرت کا نظام دیکھئے اب جنرل پرویز مشرف کی باری ہے پہلے تو عدالتوں کی خاک چھانے گا پھر امکان یہی ہے کہ چند ایک مقدمات میں سزا پائے گا اگرچہ لوگ کہتے ہیں کہ یونیفارم بڑی طاقتور شے ہے شاید اسے جیل جانے سے بچا لے لیکن میرا ناپختہ خیال ہے کہ وقت کے پیمانے بدل چکے ہیں، عدلیہ بھی بدل چکی ہے اس لئے مشرف کو جیل جانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ کبھی وہ اس ملک کا بلا شرکت غیرے حاکم تھا اب اس کا نام ای سی ایل میں شامل ہو چکا۔ ویسے بلاشرکت غیرے وہ کبھی بھی حاکم نہیں تھا کیونکہ میرے دوست طارق عزیز، چوہدری برادران اور چند ایک جمہوریت دشمن جرنیل بھی شریک اقتدار تھے۔ اب اُن کی اکثریت جنرل مشرف سے ملنے سے انکاری ہے۔ جن معززین نے جنرل صاحب کے ذریعے کروڑوں اور اربوں بنائے، اب وہ اُن کے سائے سے دور بھاگتے ہیں۔ خود جنرل صاحب نے بھی اربوں بنائے وہ نہ جانے کہاں جائیں گے کیونکہ آخر انسان کتنا کھا اور پی سکتا ہے، کتنے کروڑ قیمتی لباسوں، چہرے کی پالش اور بالوں کی ”رنگریزی“ پر لگا سکتا ہے
پھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں
دوستو! یہ ہماری تاریخ کا ایک نہایت ظالم سبق ہے… لیکن ہمارے سیاستدان، قائدین اور حکمران اس سے سبق نہیں سیکھتے کیونکہ وہ خوشامد کے عادی ہیں، خوشامد کے ذریعے اُن کے دلوں اور ذہنوں پر قبضہ کیا جاتا ہے جبکہ بے وفا خوشامد کے فن میں بڑا ہی طاق ہوتا ہے۔ دراصل وہ تو خوشامد کی کمائی کھاتا ہے۔ کردار نام کی شے اپنی ہی میت پر نوحہ گر ہے۔ عوام تماش بین بن چکے ہیں۔ یہی ہماری تاریخ ہے جو گزشتہ پانچ دہائیوں سے اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ ایوبی آمریت کے ستون سابق مسلم لیگی تھے۔ بھٹو صاحب کے اہم ساتھی سابق ایوبی تھے۔ ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ میں مسلم لیگی اور بھٹو صاحب کے سابق ساتھیوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو صف آرا ہوئیں تو سیاسی مسافرت جاری رہی لیکن جب انہیں دیس نکالے ملے تو سیاسی مسافروں نے کھُل کھیلے۔ تھوڑی ” تعداد“ کے علاوہ نہ چہرے بدلے، نہ موروثی سیاست بدلی اور نہ ہی نظام میں کوئی بہتری کی شکل نکلی۔ عوام ووٹ دیتے رہے اور عوام آئندہ بھی ووٹ دیتے رہیں گے، غلط ذرائع سے جمع کی گئی دولت سے الیکشن جیتے جاتے رہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ یوں ہی وقت کا دھارا بہتا رہے گا کیونکہ ہمارے پاس وہ قیادت ہی موجود نہیں جو نظام میں بڑی تبدیلی لانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ ہم جیسے کتابی لوگ مجالس، مذاکروں اور ٹی وی پروگراموں میں شدومد سے کہتے ہیں کہ جناب سسٹم چلتا رہا اور جمہوریت جاری و ساری رہی تو اعلیٰ درجے کی قیادت بھی پیدا ہو گی اور نظام میں بہتری کی صورت بھی نکلے گی۔ اگر ہم ضیاء الحق کے دور حکومت کو بنچ مارک یا نقطہ آغاز فرض کر لیں تو ضیاء الحق کے انتقال کو 25 برس گزر چکے۔ اس میں مشرف کے نو سالہ دور حکومت کو نکال لیجئے حالانکہ مشرقی دور میں بھی پہلے چند برسوں کے بعد کسی نہ کسی صورت سیاسی عمل کروٹیں لیتا رہا اور پرانے کھلاڑی سیاست کھیلتے رہے۔ حساب کر لیجئے کہ دوہائیوں میں نظام میں کتنی بہتری آئی ہے؟ کتنے نئے اور بصیرت مند اور باکردار لیڈران پیدا ہوئے ہیں جو کم از کم سچ بولتے ہوں کیونکہ ہمارے ہر بڑے لیڈر پر کسی نہ کسی مقام پر جھوٹ بولنے کا الزام ہے، کتنے کرپٹ چہرے سیاست سے نکلے ہیں اور اسمبلیوں میں کتنے چہرے بدلے ہیں۔ دوسری طرف ترقیاتی فنڈز نوکریوں ٹھیکوں اور بینک قرضوں کے نام پر کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوشربا کرپشن اسکینڈلز، بے اصول سیاست، لاقانونیت، خوشامد کلچر اور دربار داری، غرور گھمنڈ اور درمیانے درجے کی اہلیت و بصیرت کے اس دور میں ہم تبدیلی کی اور بہتری کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم اسلام کے نام پر مرتے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان پر فخر کرتے ہیں لیکن نہ ہمارے لیڈران ٹکٹ دیتے ہوئے امیدواروں کے کردار کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی عوام خزانہ چوروں، قرضے ہضم کرنے والوں، ترقیاتی فنڈز سے کمیشن لینے والوں، جھوٹ بولنے والوں اور پینے پلانے والوں کو ووٹ دیتے ہوئے شرماتے ہیں۔ یہ ہے ہماری اسلام سے عملی محبت؟ پھر بھی ہمیں اصرار ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں اسلام نافذ کرو…؟؟

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top