ہم کہ ٹہرے اجنبی ۔ ۔ ۔

یوسف-2

محفلین
ہر چند کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے چار دہائیاں گذرچکیں لیکن آگ اور خون کے جس دریا کو عبور کرکے یہ علیحدگی عمل میں آئی، اس کی تلخ اور ڈراؤنی یادیں تاحال انفرادی اور اجتماعی حافظے میں محفوظ ہیں۔ فیض صاحب نے ڈھاکہ سے واپسی پر کہا تھا:
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
اسلام آباد میں جی ایٹ کانفرنس میں شرکت کے لیے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی اور موجودہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے شرط عائد کی کہ پاکستان 1971ء کے ملٹری آپریشن اور کشت و خوں پر معافی مانگے، چونکہ پاکستان نے ایسا نہیں کیا، لہٰذا حسینہ واجد بھی جی ایٹ کانفرنس میں شریک نہیں ہوئیں۔ اگلے روز ممتاز کالم نگار نذیر ناجی نے حسینہ واجد کے مطالبے کے حق میں ایک کالم باندھا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ و ہ بنگلہ دیش سے معافی مانگ کر اس معاملے کو رفت گزشت کرے۔
پاکستان اور حکومت پاکستان کی مثال اب غریب کی بیوی جیسی ہوگئی ہے ، جو سب کی ’بھابھی‘ ہوتی ہے۔ امریکا ہو یا بھارت، افغانستان ہو یا بنگلہ دیش، جس ملک کا جی چاہتا ہے، اٹھ کر پاکستان پر کوئی نہ کوئی الزام عائد کرکے اس سے طرح طرح کے مطالبے شروع کردیتاہے۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور نامسعود سے پاکستان نے خارجہ محاذ پر جو پسپائی کی پالیسی اختیار کررکھی ہے، اس نے یہ دن دکھائے ہیں کہ جس ملک کا جی چاہتاہے ، راشن پانی لے کر پاکستان پر چڑھ دوڑتا ہے اور ہماری حکومت کو خاموشی اختیار کرنے یا گھگھیانے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا جرم کیا ہے؟ ہم نے ایسا کیا کیا ہے کہ ہر معاملے میں احساس جرم کا شکار ہوں اور دنیا سے منہ چھپاتے پھریں۔ بھارت ساٹھ ہزار کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر اور ہزارہا باعصمت کشمیری مسلم خواتین کی آبروریزی کرکے تو دنیا سے شرمندہ نہیں ہے۔ اسرائیل ڈھٹائی سے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور آئے دن فلسطینیوں کو پرندوں کی طرح نشانہ بناتا رہتا ہے لیکن اسے تو کوئی احساس جرم نہیں ہے۔ امریکا اپنے ڈرون حملوں اور دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت بے جا کرکے ایک عالمی غنڈے کے روپ میں ابھرا ہے لیکن اسے تو کوئی حجاب نہیں آتا، وہ ساری دنیا میں اس طرح دندناتا پھرتا ہے جیسے خدا کی سرزمین اس نے پٹے پر لے رکھی ہے۔ تو پھر ہم پر ایسی کیا مار پڑی ہے کہ ہم ہر ایک کے آگے جا کر گھگھیائیں اور بنگلہ دیش جیسے ملک سے بھی معافی مانگیں، جس کی آزادی بھی ہماری حماقتوں کی رہین منت ہے۔
بنگالیوں کے نجات دہندہ المعروف بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان نے جو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بنگالی فوجوں کے ہاتھوں نہایت بے رحمی و سفاکی سے قتل ہوئے ، یہاں تک کہ ان کی خون میں نہائی ہوئی لاش بے گور و کفن پڑی رہی ،بنگلہ دیش بننے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں ببانگ دہل یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ پچھلے پچیس سال سے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے کام کررہے تھے۔ چنانچہ دور ایوبی میں پکڑا جانے والا اگرتلہ سازش کیس بھی صحیح تھا اور یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں اپنے امیدوار کیوں کھڑے نہیں کیے۔ اور جب انتخابات جیت کر عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن گئی تو شیخ مجیب الرحمن نے یہ اعلان کیوں کیا کہ وہ فوجی ٹولے سے مذاکرات کرنے اسلام آباد نہیں جائیں گے۔ اور وہ فوجی ٹولے تو چھوڑیے مغربی پاکستان کے عوام سے رابطے کے لیے بھی نہیں آئے، اس وقت بھی نہیں ، جب جنرل یحییٰ خان نے انھیں ملک کا آئندہ وزیر اعظم بنانے کا اعلان کردیا۔ واقعات کی درست ترتیب یہ ہے کہ فوجی آپریشن سے بہت پہلے عوامی لیگ کی نیم فوجی تنظیم مکتی باہنی نے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کردی تھی ۔مکتی باہنی نے غیر بنگالیوں کا قتل عام اور ان کے املاک کو تباہ و برباد کرکے پورے صوبے میں امن و امان کو تہس نہس کرکے غنڈ ہ راج قائم کردیا تھا۔ ملٹری آپریشن سے پہلے ہی خود شیخ مجیب الرحمن نے اپنے گھر پر آزاد بنگلہ دیش کا پرچم لہرادیا تھا۔ بڑی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ 25مارچ1971کے ملٹری آپریشن کے گناہ عظیم کی مذمت کرتے ہوئے ہم ان حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔فوج نے سرکش بنگالیوں کو کچلنے کے لیے جو ظلم کیا ، وہ تو ہمیں یاد ہے اور اس پر ہماری زبانیں فوج کو لعن طعن کرتے ہوئے نہیں تھکتیں لیکن عوامی لیگ کی مکتی باہنی نے ملٹری آپریشن سے قبل، اس کے دوران اور سقوط ڈھاکہ کے بعد غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کے ساتھ جو بہیمانہ اور درندگی کا سلوک کیا، وہ ہمیں بھول جاتا ہے اور کوئی یاد دلائے تو اسے ہم عمل کا رد عمل کہہ کر ٹال جاتے ہیں۔ فوج نے جو کچھ کیا، اسے عوامی لیگ مبالغے کے ساتھ بیان کرتی ہے حالانکہ عوامی لیگ کے پاس اپنے دعوے کے ٹھوس شواہد بھی نہیں ہیں۔ مکتی باہنی کے غیر انسانی برتاؤ کی تو تصویری شہادتیں دستیاب ہیں۔ مکتی باہنی کا کمانڈر ٹائیگر عبدالقادر بھرے مجمع میں محب وطن پاکستانی بنگالیوں کو گرا کر ان کے سینوں میں سنگینیں بھونک رہا ہے یا پاکستان کے عشق میں سرشار ایک صاحب ایمان بنگالی کو چاروں طرف سے مکتی باہنی کے دہشت گرد وں نے گھیررکھا ہے اور اس پر رائفلیں تان رکھی ہیں اور ان دہشت گردوں کے چہروں پر فتحیابی کی مکروہ ہنسی ہے، جبکہ بے خوف بنگالی کے چہرے پریقین و ایمان کی ایک ایسی کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا یہ اور ایسی کتنی ہی تصویریں ہیں جو مکتی باہنی کے ظلم و درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن عوامی لیگ اور بھارت کے پروپیگنڈے کے سحر میں ہم اس درجہ گرفتار ہوچکے ہیں کہ ہمیں مکتی باہنی کی درندگی ، درندگی محسوس نہیں ہوتی اور اس ظلم کی مذمت کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی۔
اصل بات یہ ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب و محرکات کے ایک غیر جانب دارانہ اور معروضی جائزے اور تجزیئے کی ضرورت ہے اس کے لیے ہمیں اس نوع کے پروپیگنڈے کے سحر سے نکلنا پڑے گا کہ سقوط مشرقی پاکستان دراصل پچیس سال تک مغربی پاکستان کے ہاتھوں بنگالیوں کے استحصال کا منطقی نتیجہ تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بنگالیوں کو شریک اقتدار نہ کرکے بہت اچھا کیا گیا یا ملٹری آپریشن جنرل یحییٰ کا ایک درست اقدام تھا ۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ بنگالیوں پر کیے گئے مظالم اور ناانصافی کی مبالغہ آمیز تصویر کشی، دراصل تصویر کا ایک رخ ہے۔ قارئین کو اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا ہو تو انھیں ڈھاکہ یونیورسٹی اور راج شاہی یونیورسٹی کے بنگالی وائس چانسلر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی کتاب “The Wastes of Time”کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ حال ہی میں “شکست آرزو”(جب پاکستان دو لخت ہوا) کے عنوان سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی ، کراچی نے شایع کیا ہے۔ڈاکٹر سید سجاد حسین خالص بنگالی اور محب وطن پاکستانی تھے، جنہوں نے تحریک پاکستان میں پر جوش حصہ لیا اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی سچے اور کھرے پاکستانی رہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت او ر متحدہ پاکستان سے والہانہ عشق کرنے کے جرم میں مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے انھیں گرفتار کیا، انھیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا، چاقو کے کاری وار سے اپنے خیال میں انھیں قتل کرکے ان کی لاش چوراہے پر پھینک کر چلے گئے۔ خدا نے انھیں شاید پاکستان کی محبت میں مہکتی دمکتی یہ کتاب لکھنے کے لیے زندہ رکھا۔ یہ کتاب ان بہت سے سوالوں کے جواب فراہم کرتی ہے ، جو سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ سوال کہ بنگالی جو تحریک پاکستان میں سرگرمی سے شریک رہے تھے، آخر کیوں پاکستان سے برگشتہ ہوگئے؟ یا یہ کہ عوامی لیگ کے اس پروپیگنڈے کی کیا حقیقت ہے کہ فوج نے 1971ء میں تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا۔
میں اگلے کالم میں اس کتاب کے مندرجات کی روشنی میں ا ن سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

(طاہر مسعود کا کالم۔ مطبوعہ نئی بات 27 نومبر 2012 ء)
 

یوسف-2

محفلین
(قسط ۔2)
بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کہتی ہیں کہ پاکستانی فوج نے 1971ء میں بنگالیوں کا جو قتل کیا تھا، اس پر پاکستان کو بنگلہ دیش سے دست بستہ معافی مانگنی چاہئے۔ عوامی لیگ کا دیرینہ پروپیگنڈہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے 25مارچ 1971ء سے 15دسمبر1971ء تک نو ماہ کے عرصے میں تیس لاکھ بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور تین لاکھ خواتین کی آبرو ریزی کی۔پاکستانی فوجیوں پر پورے کے پورے گاؤں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا الزام بھی عاید کیا جاتا ہے۔ پاکستانی فوج کو لائق گردن زدنی قرار دیتے ہوئے عوامی لیگ کو یہ یاد نہیں رہتا کہ اس کی مسلح تنظیم مکتی باہنی نے ہزاروں محب وطن بنگالیوں اور پاکستان کے حامی غیر بنگالیوں کا بہیمانہ طریقے سے قتل عام کیا، ان کی املاک کو نذر آتش کیا۔ یہاں تک کہ بعض شہروں میں غیر بنگالی عورتوں کے برہنہ جلوس تک نکالے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ چالیس برسوں میں کسی ایک پاکستانی حکومت نے بھی پلٹ کر عوامی لیگ اور اس کے نیتاؤں سے نہیں پوچھا کہ مکتی باہنی کے ان انسانیت سوز مظالم کا کیا جواز تھا؟ ان مظلوموں کا جرم صرف اتنا ہی تھا کہ وہ پاکستان کے حامی تھے اور بنگلہ دیش بننے کے مخالف۔ بس اتنے سے قصور پر انھیں پنجابی فوج کا ایجنٹ قرار دے کر وحشیانہ طریقے سے مارا گیا، لوٹا گیا اور تباہ و برباد کردیا گیا۔ کیا حکومت بنگلہ دیش ان جرائم پر پاکستان سے معافی مانگنا پسند کرے گی؟
رہا سوال پاکستانی فوج کے مظالم کا تو ڈاکٹر سید سجاد حسین نے اپنی کتاب”شکست آرزو”میں فوج کے ہاتھوں تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل عام کے الزام کو ایک بے بنیاد پروپیگنڈہ لکھا ہے ۔ انھوں نے اس پروپیگنڈے کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 25مارچ کا ملٹری آپریشن کوئی باقاعدہ جنگ نہیں تھی۔ اس میں ٹینک استعمال ہوئے نہ بمباری کی گئی۔ میزائل بھی نہیں برسائے گئے۔ بس مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوتی رہیں۔ لہٰذا تیس لاکھ ہلاکتوں کا پروپیگنڈہ مضحکہ خیز ہے جس کی تردید خود بنگالی صحافیوں اور دانش وروں نے گاہے گاہے کی ہے ۔ مثلاً انگریزی اخبار مارننگ سن، ڈھاکہ کے ایڈیٹرانوار الاسلام بوبی پاکستان کے حمایتی نہیں تھے، مگر انھیں بھی کہنا پڑا کہ نو ماہ میں تیس لاکھ کی ہلاکت یقینی بنانے کے لیے روزانہ گیارہ ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا پڑے گا جو انتہائی مبالغہ آمیز ہے۔ ایران اور عراق نے جدید ترین ہتھیاروں سے دس سال جنگ لڑی مگر اس میں بھی تیس لاکھ ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کا مجموعی جانی نقصان بھی تیس لاکھ ہلاکتوں کے ہدف تک نہیں پہنچ سکا۔ عوامی لیگ کے چند رہنماؤں کو بھی یہ تعداد ہضم نہ ہوسکی اور انھوں نے ہلاکتوں کی تعداد کو دس لاکھ تک محدود کرنے کی کوشش کی۔ حمید الحق چوہدری نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ دس ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک نہیں ہوسکتے تھے اور یہ تعداد بھی مبالغہ آمیز ہے۔ ڈاکٹر سجاد حسین نے انکشاف کیا ہے کہ یہ جاننے کے لیے کہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں کتنے، بنگالی قتل ہوئے، شیخ مجیب الرحمن کے دور میں ایک سروے شروع کرایا گیا تھا مگر ابتدائی نتائج “حوصلہ افزا”برآمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ سروے ترک کردیا گیا۔ ڈاکٹر سجاد حسین کا خیال ہے کہ پورے بنگلہ دیش میں نہ سہی، محض چند اضلاع کا سروے کرنے سے بھی اس پروپیگنڈے کی قلعی کھل جائے گی کہ پاکستانی فوج نے تیس لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ اصل میں یہ پروپیگنڈہ اس لیے تواتر کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان نے اس قسم کے الزامات کا جواب دینے کے بارے میں کبھی سنجیدگی اختیار نہیں کی۔ اگر پاکستان اس جھوٹ کا پول کھولنے کے لیے اقوام متحدہ پر اس الزام کی تفتیش کے لیے زور دیتا اور ایک تحقیقاتی کمیشن اصل حقائق کی چھان بین کرتا تو بنگلہ دیشی حکومت اور عوامی لیگ کے پروپیگنڈے کی اصلیت ظاہر ہوجاتی۔ ڈاکٹر سجاد حسین نے لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں (جن میں جنرل ضیاء الرحمن نمایاں تھے) آرمی کریک ڈاؤن کے جواب میں آزادی کے اعلان کا دعویٰ کیا تھا۔ اس نوعیت کے اعلان سے صرف یہ بات متر شح ہوتی ہے کہ فوج نے ریاست کی خود مختاری کے تحفظ کی خاطر اپنا فرض نبھایا۔ کوئی پارٹی لیڈر یا فوجی افسر قومی آزادی کا اعلان کرنے کا استحقاق نہیں رکھتا۔ ڈاکٹر سجاد نے اس پہلو کی نشان دہی بھی کی ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کی شاندار انتخابی فتح کے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف پرتشدد تحریک شروع کردی گئی تھی۔ اردو بولنے والوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اور پاکستان کی حمایت کرنے والے بنگالی مسلمانوں کو بھی جہاں موقع ملا وہاں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ان کی املاک لوٹ لی گئیں، مکانوں اور دکانوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس جانی اور مالی نقصان کا تخمینہ لگانے کی زحمت کسی نے گوارا نہیں کی۔ مشرقی پاکستان میں شمالی بنگال اور ڈھاکہ کے نواح سمیت جہاں بھی بہاری نمایاں تعداد میں تھے، انھیں منظم طریقے سے قتل کردیا گیا۔ 25مارچ 1971کے آرمی کریک ڈاؤن سے بہت پہلے عوامی لیگ کی جانب سے علیحدگی کی غیر اعلانیہ جنگ کا نقطہ عروج ڈھاکہ کے نواح میں کرمی ٹولہ کے مقام پر کنٹونمنٹ ایریا کا محاصرہ تھا۔ کریک ڈاؤن روکنے کی خاطر جنرل یحییٰ خان کی مذاکرات کی غرض سے ڈھاکا آمد سے ایک ہفتہ قبل تک کنٹونمنٹ میں رہنے والے فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو اشیائے خورو نوش کی فراہمی روک دی گئی۔ عوامی لیگ کے کارکنوں کی زبان پر ایک نعرہ تھا کہ ہم انھیں بھوکا رکھ کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیں گے۔ اگر یہ سب جنگی اقدامات نہیں تھے تو جنگی اقدامات کی نئی تعریف کرنا پڑے گی۔حقیقت یہ ہے کہ انتخابات سے قبل اور اس کے بعد بھی عوامی لیگ کا رویہ پر امن اور جمہوری نہیں تھا۔ وہ مزاجاً فاشسٹ جماعت تھی۔ ڈاکٹر سجاد حسین نے لکھا ہے کہ آرمی کریک ڈاؤن سے قبل جنرل یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان مذاکرات اس انداز سے شروع ہوئے جیسے دو خود مختار ریاستیں معاملات طے کررہی ہوں۔ عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے طلبہ مزید مذاکرات کے حق میں نہیں تھے۔ وہ تو 3مارچ ہی کو آزاد ریاست کا پرچم لہراچکے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے انھیں جنرل یحییٰ خان کا ایک غیر ملکی مہمان کی حیثیت سے استقبال کرنے کے لیے آمادہ کرلیا تب ہی مذاکرات کے لیے گرین سگنل دیا جاسکا۔ جنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمن کے تمام چھ نکات تسلیم کرلیے جس کا مطلب مشرقی پاکستان کو ایک آزاد ریاست میں تبدیل ہوجانا تھا۔ اس قدر رعایتیں دیے جانے کے باوجود خون خرابے کو روکا نہ جاسکا اس لیے کہ عوامی لیگ اس قضیے کا کوئی پر امن اور مذاکرات کی میز پر طے کیا جانے والا حل چاہتی ہی نہیں تھی۔ مختصراً یہ کہ سقوط مشرقی پاکستان آج بھی حقائق کی روشنی میں ایک تجزیہ طلب موضوع ہے جس کے بعد ہی یہ فیصلہ ممکن ہوگا کہ پاکستان کو بنگلہ دیش سے معافی مانگنی چاہئے یا بنگلہ دیش کو عوامی لیگ کی غداری پر پاکستان سے معذرت طلب کرنی چاہئے۔
 

یوسف-2

محفلین
(قسط-3)
میرا گمان یہ ہے کہ قوم نے سقوط مشرقی پاکستان سے عظیم سانحے کو بھلادیا ہے، حالانکہ یہ سقوط اسپین سے کم بڑا سانحہ نہ تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ میں اس سے زیادہ بڑی اور ذلت آمیز شکست مسلمانوں کو نہ ہوئی تھی کہ نوے ہزار سے زائد فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے۔ اسی دسمبر کے مہینے یہ المیہ رونما ہوا تھا۔ کہتے ہیںیہ جنگ نہ تھی، سازش تھی، جس میں بیگانے ہی نہیں اپنے بھی شریک تھے۔ مگر یہ کیسی سازش تھی جس پر سے پردہ اٹھانے کی توفیق کسی حکمراں کو نہ ہوسکی۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو بھٹو صاحب نے سرد خانے کی نذر کردیا۔ جنرل مشرف کے دور میں اس کے کچھ حصے طشت ازبام ہوئے، مگر پوری رپورٹ آج بھی صیغۂ راز ہے۔ سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں اڑھائی لاکھ غیر بنگالی جنھیں بہاری کہا جاتا ہے ، آج بھی پاکستان سے وفاداری کے جرم میں ڈھاکا کے میر پور اور محمد پور کیمپوں میں انتہائی غیر انسانی ماحول میں رہ رہے ہیں۔ کیمپوں پر پاکستانی پرچم لہراتا رہتا ہے۔ یہ بہاری آج بھی بنگلہ دیش میں ضم ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہندوستان سے بنگلہ دیش میں رہنے کے لیے ہجرت نہیں کی تھی، ان کے آباؤ اجداد نے پاکستان کے لیے اپنا جان مال لٹایا تھا۔ لہٰذا وہ ہر قیمت پر پاکستان جائیں گے۔ ادھر پاکستان اور ان کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا حال “مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے”کے مصداق ہے۔بھٹو، ضیاء الحق ، نوازشریف ، پرویز مشرف ، ان سبھوں نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا، ڈھاکا پہنچ کر ان مقتدر حکمرانوں نے نام نہاد آزادی کی جنگ لڑنے والے بنگالیوں کی یادگار پر تو حاضری دی اور نواز شریف اور جنرل (ر) پرویز مشرف تو 1971ء کے ملٹری آپریشن پر معافی بھی مانگ کر آئے لیکن ان میں سے کسی حکمران کو محمد پور اور میر پور کے کیمپوں میں جاکر پاکستان کے عشق میں تباہ و برباد ہوجانے والے آشفتہ سروں سے ہمدردی کے دو بول بولنے کی توفیق نہ ہوئی۔آج ان کیمپوں میں مقیم بہاریوں کی تیسری نسل ان پاکستانی حکمرانوں سے نفرت کرتی ہے لیکن ان کے دلوں میں پاکستان سے محبت کا دیا اب بھی روشن ہے۔ ان آشفتہ سروں کی روداد میں اگلے کسی کالم میں آپ کو سناؤں گا۔ فی الحال میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں سقوط ڈھاکا کے حوالے سے اپنا قومی اور اجتماعی مؤقف طے کرنا پڑے گا۔ ہمیں یہ متعین کرنا ہوگا کہ آیا شیخ مجیب الرحمن اور اس کی عوامی لیگ غدار تھے یا محب وطن؟ شیخ مجیب کے چھ نکات پاکستان کو متحد رکھ سکتے تھے یا اس کو قبول کرنے کے نتیجے میں ملک دو حصوں میں منقسم ہوجاتا؟ کیا مشرقی پاکستان کو واقعتا مغربی پاکستان کی نوآبادی بنادیا گیا تھا یا یہ محض عوامی لیگ کا زہریلا پروپیگنڈہ تھا جس کے جھانسے میں بنگالی عوام کی اکثریت آگئی تھی؟ اس سارے قضیے میں ان سینکڑوں بنگالیوں کی کیا حیثیت (Status)ہوگی، جو متحدہ پاکستان کے حامی تھے اور جو عوامی لیگ کے جھانسے میں نہیں آئے؟ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ 25مارچ 1971ء کو رمنا ریس کورس گراؤنڈ میں شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ لڑنے کا اعلان کردیا تھا اور اپنے بنگلے پر بنگلہ دیش کا آزاد پرچم بھی لہرادیا تھا؟ پاکستانی فوج نے اس کھلم کھلا بغاوت کو کچلنے کے لیے آپریشن کیا،یحییٰ حکومت کو اس آپریشن کا حق نہ تھا؟ جب بھارت سکھوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے گولڈن ٹمپل پر آپریشن کرسکتا ہے، کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے اپنی سات لاکھ افواج وہاں تعینات کرسکتا ہے اور جو ساٹھ ہزار کشمیریوں کو تہہ تیغ کرسکتی ہیں تو پاکستان کو اپنی سالمیت کے لیے کسی بغاوت کی سرکوبی کا حق کیوں حاصل نہیں ہے؟ کہا جاتا ہے کہ مغربی پاکستان نے بنگالیوں کا استحصال کیا، بنگال کی دولت سے نیا دارالحکومت اسلام آباد تعمیر کیا گیا۔ کیا کسی دانشور کو اس امرکی تحقیق کا خیال آیا کہ قیام پاکستان سے قبل مشرقی بنگال اور یہاں کے مسلمان بنگالیوں کی معاشی حالت کیا تھی؟ اور قیام پاکستان کے بعد زندگی کے ہر میدان میں انھوں نے کتنی ترقی کی اور ان کی حالت میں کیسا انقلاب آگیا؟ ہندو جو 1905ء کی تقسیم بنگال کے اس لیے مخالف تھے کہ اس کا فائدہ مسلمان بنگالیوں کو پہنچتا تھا، وہ 1947ء کے بعد کیو نکر مسلمان بنگالیوں کے اتنے ہمدرد ، مونس و غم گسار ہوگئے کہ انھوں نے اردو کے سرکاری زبان بنائے جانے پر کلکتے سے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ یہ بنگالیوں اور بنگالی زبان کے خلاف سازش ہے۔ آخر بھارت نے ہندی کو سرکاری زبان بنایا تو مغربی بنگال کے ہندو بنگالیوں نے یہ شور کیوں نہیں مچایا کہ یہ بنگلہ زبان اور بنگالیوں کے خلاف سازش کی گئی ہے۔ یہ اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ہیں، جن کا حتمی جواب دیئے بغیر ہم سقوط مشرقی پاکستان کے بارے میں اپنا موقف طے نہیں کرسکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں ، دانشوروں اور اس موضوع پر کتابیں لکھنے والوں نے سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے بغیر سوچے سمجھے ایک معذرت خواہانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ ہم 1971ء کے ملٹری آپریشن پر بنگلہ دیش اور عوامی لیگ کے سامنے شرمسار رہتے ہیں۔ اور ہمیں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ عوامی لیگ کی تنظیم مکتی باہنی کے ہولناک مظالم پر بنگلہ دیش سے جواب طلب کرسکیں۔ شیخ مجیب الرحمن جس نے اپنی غداری کا بارہا کھلے عام اعتراف کیا، اس غداری پر حکومت بنگلہ دیش کے سامنے کوئی سوال اٹھا سکیں۔ اگر بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن نے بنگالیوں کو آزادی کا عظیم تحفہ دیا تھا تو خود بنگالیوں نے اپنے ہر دل عزیز نیتا کو اتنی جلدی ایک عبرت ناک انجام سے کیوں دو چار کردیا؟
آج عوامی لیگ کی حکومت نے بنگلہ دیش کی آزادی کو توسیع پسند بھارت کی تجوری میں رہن رکھوادیا ہے۔ پاکستانی فوج کی حمایت کرنے کے جرم میں بوڑھے پروفیسر غلا م اعظم کو مقدمات بھگتنا پڑ رہے ہیں لیکن آج بھی پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین جیسے محب وطن پاکستانی، درد مند مسلمان بنگالی کی گواہی موجود ہے کہ ان کے ہم زبان بنگالی گمراہ ہوگئے تھے، ہندو پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے تھے، جلد یا بدیر انہیں اس کا احساس ہوجائے گا۔
 

ساجد

محفلین
بنگا لیوں سے کس بات کی معافی؟ ۔ ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے ، خانہ جنگی کے وقت وہ بھی پاکستانی ہی تھے الگ ملک کے باسی نہیں تھے کہ پاکستان ان کے ملک پر حملہ کرنے کی معافی مانگے۔ پاکستان کے شہری ہونے کے باوجود اگرتلہ جیسی سازشیں کرتے وقت انہیں اسلام یاد آیا نہ پاکستان ، اب عجیب منطق کے تحت ڈرامہ رچاتے پھر رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف نفرت بھڑکانا بنگلہ دیش کی داخلی سیاست میں حسینہ کی ضرورت ہے ورنہ اسی حسینہ نےاسلام پسندوں کا اپنے ملک میں جینا دو بھر کر رکھا ہے اور بین الاقوامی سطح پر یہ کچھ اور راگ الاپتی نظر آتی ہیں۔
کرکٹ کے میدان میں جیت کی بھیک مانگنے کے بعد اسی حسینہ نے کمال ڈھٹائی سے محسن کشی کا ثبوت دیا تھا ، ڈی ایٹ کانفرنس میں معافی کی شرط رکھنے سے اس نے اس کا ایک بار پھر ثبوت دے دیا :)
 

مہ جبین

محفلین
انتہائی اذیتناک موضوع ہے جس پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے دل کو بہت سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے
کسی کے بھی غیر انسانی و غیر اخلاقی سلوک کو جائز یا کسی کے عمل کا ردِعمل کہنا بالکل نامناسب بات ہے
بنگالی ہوں یا غیر بنگالی سب مسلمان تو تھے تو پھر کیوں اتنی خونریزی و سفاکی کا مظاہرہ فریقین کی جانب سے کیا گیا؟؟؟
ہندؤوں کے بہکاوے میں آکر اپنے ہی گھر کو دو لخت کردیا؟؟؟ اپنے ہی بھائیوں کو تباہ و برباد کردیا؟؟؟؟
اپنی ہی بہنوں اور بیٹیوں کو رسوا کرکے انہیں کہیں بھی منہ دکھانے کے لائق نہ چھوڑا؟؟؟؟
افففففففففففف میرے اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو صرف اُس وقت کی اذیتناک منظر کشی سے ہی لرز رہی ہوں تو جن لوگوں نے یہ سارے عذاب جھیلے ہیں ( چاہے وہ بنگالی ہوں یا غیر بنگالی ) انہوں نے نجانے کس طرح یہ آگ کے دریا عبور کئے ہونگے ؟؟؟؟
میں اُن حقائق کے بارے میں تو نہیں جانتی کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ اور کون اس ساری سازش کا ماسٹر مائنڈ تھا؟؟؟
ہاں بس دکھ ہے تو یہ کہ جو بھی ہوا اس میں لاکھوں لوگ زندہ درگور ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
میں جتنا اس سانحے کے بارے میں سنتی اور پڑھتی ہوں تو اتنا ہی دل کے درد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
شعور و آگہی کبھی کبھی بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔!
نہ جاننے کا تو ایک ہی دکھ
پر آگہی کے ہزار دکھ ہیں

اللہ ہمیں نورِ بصیرت عطا فرمائے آمین
 

مہ جبین

محفلین
"چپک رہا بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے"
 
Top