ہم نے بھی کمال کر رکھا تھا (مفعول مفاعلن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
جو دل کو سنبھال کر رکھا تھا
ہم نے بھی کمال کر رکھا تھا

اللہ عجیب دل تھا جس نے
جینا بھی وبال کر رکھا تھا

کیوں مجھ کو پھنسا لیا ہے اس میں
کیوں زلف کو جال کر رکھا تھا

اِس ہجر سے موت ہی بھلی ہے
اِس نے تو نڈھال کر رکھا تھا

ہر لمحہ تمھی کو سوچتے تھے
اور لمحہ بھی سال کر رکھا تھا

یہ سانس کا رشتہ ہم نے خود سے
رسماً ہی بحال کر رکھا تھا

کہتے ہیں بتائیں گے تجھے بھی
اب تک تو خیال کر رکھا تھا
 
Top