ہم روحانیت کو سپر سائنس بنائیں گے، وزیراعظم

جاسم محمد

محفلین
روحانیات سائنس سے آگے ہے، ہم اسلامی رہے نہ فلاحی، وزیراعظم
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 05 مئ 2019
5ccee46d07ec3.jpg


وزیراعظم عمران خان نے روحانیات اور سائنس سے متعلق یونیورسٹی 'القادر' کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا ہے کہ روحانیت سپر سائنس ہے اور یہ سائنس سے بھی آگے ہے، اور پاکستان کے نظریے کو چھوڑ کر ہم نہ اسلامی رہے اور نہ ہی فلاحی رہے۔

ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس یونیورسٹی کی بنیاد روحانیت کے سپہ سالار شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام پر رکھی گئی ہے جہاں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ روحانیات کو پڑھایا جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں روحانیات کے حوالے سے کوئی یونیورسٹی موجود نہیں لیکن ہم روحانیات کو سپر سائنس بنائیں گے اور اب اس یونیورسٹی میں روحانیات کو باقاعدہ طور پر پڑھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ روحانیات کو ہم سپرسائنس سے سمجھتے ہیں اور یہ سائنس سے بھی آگے ہے۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں آج بہت خوش ہوں اس لیے کہ جب میں نے 23سال پہلے جب سیاست شروع کی تھی تو میرا ایک مقصد تھا، میں یہ سمجھتا تھا کہ جس مقصد کے لیے پاکستان کو بنایا گیا، اس کے پیچھے ایک بڑی تاریخ ہے، یہ کوئی عام ملک نہیں ہے اس کے پیچھے دو بڑے ذہن علامہ اقبال اور قائد اعظم تھے، علامہ اقبال نے فلاحی ریاست کے تصور کو تقویت دی۔

ان کا کہنا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے مدینے کی ریاست قائم کرکے حکم الہیٰ کا نفاذ کیا اور ‘ہمیں حکم ہے ان کے راستے پر چلنے کا اور ان کا حکم تھا مدینے کی ریاست، اور وہ تھی اسلامی فلاحی ریاست جس کو پاکستان نے بننا تھا لیکن نہ ہم اسلامی رہے اور نہ ہی فلاحی بس ایک ریاست بن گئے’۔

پاکستان کی نظریے کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب پاکستان ٹوٹا اور ایسٹ پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا تو وہ اس لیے تھا کہ جب پاکستان کا نظریہ پیچھے چلا گیا اور ایسٹ پاکستان کے لوگوں نے کہا کہ ہم کیوں اس ریاست کا حصہ بنیں’۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘میں آج پیش گوئی کررہا ہوں کہ اگر ہم نے اپنے ملک کو واپس اس نظریے پر نہ لے کر گئے جس کے لیے ملک بنا تھا، یہ یاد رکھیے فوج ملک کو اکٹھا نہیں رکھتی ہیں، ملک کو عوام اکٹھا رکھتے ہیں کیونکہ عوام اس ریاست کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ریاست عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرتی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ریاست لوگوں کوانصاف دیتی ہے تو ایسٹ پاکستان کے لوگوں نے کہا ہمیں انصاف نہیں مل رہا ہے، ان میں احساس محرومی آگئی اور انہوں نے کہا کہ ویسٹ پاکستان میں جس طرح کی طاقت ہے وہ ہمیں نہیں مل رہی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہندوستان نے تو کوشش کی لیکن ملک ٹوٹنے کی غلطی ہماری تھی کیونکہ ہم نے اپنے لوگوں کو انصاف نہیں دیااور آج بھی ہم لوگوں کو انصاف نہیں دیں گے، فاٹا کے لوگوں کے برے حالات ہیں ہمیں ان کی مدد کرنی ہے، بلوچستان میں کئی علاقے ہیں جہاں لوگ بہت پیچھے رہ گئے ہیں، اندرون سندھ میں 70 فیصد 75 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے ہیں غریب نیچے ہے اور امیر، امیر ہے’۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'یہ وہ ریاست نہیں جس کا بانیان پاکستان نے کہا تھا، میں نے سوچا کہ جب بھی اللہ نے مجھے موقع دیا تو اپنے نوجوانوں میں یہ سوچ لے کر آؤں گا کہ جس مقصد کے لیے یہ ملک بنا تھا کم از کم ان کو یہ بتاوں گا اور پاکستان میں کیسے لیڈرشپ آسکتی ہے جب نوجوانوں کو پاکستان کے نظریے کا نہیں پتہ ہو، نظریہ لیڈر کو بناتا ہے اس لیے آپ 70 برسوں میں دیکھ لیں کتنے لیڈر آئے، ذوالفقار بھٹو کے بعد سارے عوام کے خیر خوا بن جاتے ہیں اور جب جاتے ہیں تو لندن اور ساری دنیا میں ان کی جائیدادیں ہوتی ہیں اور عوام غریب بن جاتے ہیں'۔

یونیورسٹی کے مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'نظریہ کوئی نہیں اور لیڈر کوئی نہیں بن رہا ہے اس لیے ہم نے یہ یونیورسٹی مقصد سے بنائی ہے، یہاں ہم نے اپنے نوجوانوں کو لیڈر بنانا ہے اور وہ اس طرح لیڈر بنیں گے جب انہیں پتہ چلے گا کہ پاکستان کا مقصد کیا ہے اور یہ ملک کیوں بنا تھا'۔

انہوں نے کہا کہ 'معاشرہ تعلیم کے بغیر آگے نہیں بڑھتا ہے تو ہم نے اس یونیورسٹی کے اندر دو کام کرنے ہیں، پہلے تو ہم نے جو بھی جدید آج کل ٹیکنالوجی بڑی تیزی سے جدت پارہی ہے، ایک نیا دور آنے لگا ہے، آرٹی فیشل انٹیلی جنس، ایک ایسی ٹیکنالوجیز آنے لگی ہے جو ہر چیز میں یونی کھیت سے بیٹھے بیٹھے تین گنا پیداوار لاسکتے ہیں اور ہم یہاں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائیں گے اور چین سے مدد حاصل کریں گے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'یونیورسٹی کی دوسری اہم وجہ ہے کہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ اس جگہ کو ترقی کا پہاڑ کہا جاتا ہے اور یہاں ایک بابا نورالدین تھے، 70 سال پہلے بابا نورالدین نے چلہ کاٹا، وہ بڑے روحانی تھے اور یہ القادر یونیورسٹی روحانیت کے سپہ سالار عبدالقادر جیلانی کے نام پر رکھی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'شیخ عبدالقادر کا نام محی الدین تھا ان کو محی الدین کیوں کہتے تھے کیونکہ انہوں نے اسلام کو زندہ کیا تھا، انہوں نے اسلام کے اندر نبی پاک کی تعلیمات پھیلائی تھی اور انہوں نے ایک اور کام کیا تھا کہ سائنس اور روحانیت کا تعلق جوڑا تھا اور روحانیت پر تحقیقات شروع کروائی تھیں'۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے ایک اور کام کیا تھا، انہوں نے انسانوں کو یہ بتایا تھا کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے اور جب انسان کے اندر یہ ایمان آجاتا ہے تو یہ انسان کو آزاد کردیتا ہے، انسان کو خوف سے آزاد کردیتا ہے اور انسان کو ادھر پہنچا دیتا ہے جہاں وہ سمجھتا ہے کہ کوئی چیز ناممکن نہیں ہے، وہ چھوٹے سے انسان کو بڑا بنا دیتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے اندر ہم سائنس کیسے اسلام کے ساتھ چلتی اس کا تعلق جوڑیں گے، ہم روحانیات کو ایک سپر سائنس بنائیں گے کیونکہ ایک بڑا مسلمان صوفی ابن عربی تھا، روحانیات اور سائنس انہوں نے شروع کیا تھا'۔

پاکستان میں روحانیات اور صوفی تعلیم کی عدم موجودگی کی نشان دہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'بڑے بڑے صوفی حضرات ہندوستان میں اسلام کا پیغام لے کر آئے اور انہوں نے تلوار سے نہیں بلکہ لوگوں کے دل جیتے لیکن ان پر کوئی ریسرچ نہیں ہے اور القادر یونیورسٹی صوفی اور روحانیات پر بھی تعلیم دے گی'۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'روحانیت کو ہم سپر سائنس سمجھتے ہیں، یہ سائنس سے آگے ہے، اس پر تعلیم کی ضرورت ہے، اس پر باہر امریکا اور انگلینڈ کے اندر یونیورسٹی میں صوفی ازم کے شعبے بنائے ہیں اور ریسرچ ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جہاں عام لوگ ان بڑے بزرگوں پر عقیدہ رکھتے ہیں لیکن یہاں کوئی ریسرچ نہیں ہے تاہم اس یونیورسٹی میں شروع کریں گے اور صوفی ازم پر بڑے بڑے اسکالر پیدا ہوں گے'۔

'معاشی بحران آتے جاتے رہتے ہیں'
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'قوم ایک نظریے پر بنتی ہے، یہ جو مسئلے ہیں کہ معاشی بحران ہے یہ تو آتا جاتا رہتا ہے، قوموں پر اچھا برا وقت آتا ہے لیکن اگر قوم کا نظریہ چلاجاتا ہے تو اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'القادر یونیورسٹی ملک میں مسلسل کام کرے گی، مدینہ کی ریاست سمجھائے گی اور ہمارے بچوں کو تاریخ بتائے گی، یہاں 35 فیصد بچوں کو اسکالر شپ دی جائے گی اور ملک بھر سے بچوں کو کھانا اور رہائش مفت دی جائے گی تاہم 65 فیصد بچے پیسے دے کر آئیں گے اور اس یونیورسٹی کو نمل کی طرز پر چلائیں گے اور پاکستان کے مستقبل کی قیادت پیدا کرے گی اور وہ بڑی سوچ لے کر آئیں گے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'یہ پرائیویٹ یونیورسٹی ہے جو سرکاری فنڈ پر نہیں بن رہی ہے بلکہ اس کے لیے میں نے لوگوں سے اسی طرح پیسے اکٹھے کیے ہیں جس طرح نمل اور شوکت خانم بنایا ہے اسی طرح القادر یونیورسٹی ہے اس کے لیے میں نے فنڈ ریزنگ کی ہے اور میرٹ پر چلے گی جس کے بعد اس کے پورے ملک میں اس کے کیمپسز بنائیں گے'۔
 

سید ذیشان

محفلین
شائد مابعد الطبیعات یا meta-physics کہنا چاہ رہے تھے اور زبان پھسل گئی اور سپر سائنس کہہ دیا۔ اس کے علاوہ تو کوئی لاجکل وضاحت میرے ذہن میں نہیں آ رہی۔

ویسے لفظ روحانیات کو بھی کئی بار غلط پڑھا۔ کبھی رعونت کبھی رعونیات۔ اردو سے نابلد معلوم ہوتے ہیں بلاول کی طرح۔
 

جاسم محمد

محفلین
روحانیت کی سپر سائنس سے براہ راست منتخب بلدیاتی اداروں تک
06/05/2019 سید مجاہد علی



ایک روز پہلے روحانیت پر تحقیق کرنے والی القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے روحانیت کو سپر سائنس قرار دینے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے آج پنجاب میں براہ راست انتخاب کی بنیاد پر بلدیاتی نظام متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے شہروں کے مئیر براہ راست انتخاب کے ذریعے چننے کا اعلان کرنے کے علاوہ بتایا ہے کہ 22 ہزار دیہی کونسلوں کے انتخابات بھی ڈائیریکٹ ووٹنگ کی بنیاد پر منعقد ہوں گے۔ وزیر اعظم نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو 40 ارب روپے فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ یہ ادارے مقامی سطح پر ترقیاتی کام کروانے کے لئے صوبائی یا وفاقی حکومتوں کے محتاج نہ ہوں۔

وزیر اعظم نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بلدیاتی انتخاب کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ بھی روحانیت کو سائنس بنانے کی باتوں جیسا ہی غیر واضح ہے۔ القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے عمران خان نے روحانیت کو سپر سائنس قرار دیا تھا۔ جہلم میں سوہاوہ کے مقام پر قائم ہونے والی اس یونیورسٹی کو شیخ عبد القادر جیلانی کے نام سے منسوب کرنے کی یہ وجہ بیان کی تھی کہ انہوں نے روحانیت کو سائنس کے ساتھ منطبق کیا تھا۔ روحانیت کو سپر سائنس قرار دیتے ہوئے عمران خان نے واضح کیا کہ پاکستان سابقہ حکومتوں کی وجہ سے ناکام ہؤا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ ہمارے سیاسی لیڈر پاکستان کے نظریہ، تصور اور مقاصد کو بھلا بیٹھے تھے۔ ہم نے اپنا متعین راستہ بھلا دیا تھا۔ اب القادر یونیورسٹی جیسے اداروں کے ذریعے ملک کو واپس درست راستے پر ڈالا جائے گا۔ یہاں ریاست مدینہ کے تصور کی بنیاد پر نوجوان لیڈر پیدا ہوں گے۔ یہاں تحقیق کی جائے گی کہ مسلمان مدینہ سے اٹھ کر کس طرح دنیا پر چھا گئے۔ ہم چین کے تعاون سے نئی ٹیکنالوجی پر تحقیق کریں گے‘۔

ملک کے عام لوگوں کی طرح خواص اور دانشور بھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وزیر اعظم روحانیت کو سائنس بنانے سے کیا مراد لیتے ہیں ۔ کیا سائنسی ایجادات کے اصول سلوک کی منازل طے کرنے والے طالب علموں پر منکشف ہوں گے یا عمران خان یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی سے ایسے روحانی عامل پیدا ہوں گے جیسے بعض قصوں کے مطابق 1965 کی جنگ کے دوران دکھائی دیے تھے کہ ملک کے اہم پلوں اور عمارتوں پر کھڑے انجان بزرگوں نے دشمن کے پھینکے ہوئے بموں کو اپنی چادروں میں سمیٹ لیا تھا ۔ اس طرح اہم شہری سہولتیں اور فوجی تنصیبات کو تباہ ہونے سے بچا لیا گیا تھا۔ ایک طرف القادر یونیورسٹی میں روحانیت کو سائنس ثابت کرنے کے لئے کام ہو گا لیکن اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہاں ہونے والی سائنسی تحقیقات چین کی مدد سے ہوں گی۔ یہ بات ابھی غیر واضح ہے کہ اگر روحانیت سائنس ہے تو ایک ایسے ملک کے ماہرین سے مدد لینے کی نوبت کیوں آئے گی جو خدا کی بجائے مادہ اور محنت کو ہی مقصد اور راستہ مانتا ہے۔

عمران خان کے ڈریم پراجیکٹ القادر یونیورسٹی کے روحانی سائنس کے ماہرین نے اگر روحانیت کو سپر سائنس ثابت کر دیا اور یہ واضح ہو گیا کہ مدینہ کے عرب صرف اس لئے دنیا بھر پر چھا گئے تھے کیوں کہ وہ روحانی طور پر طاقت ور تھے اور اس قوت کی بنیاد پر انہوں نے ہر مشکل اور دشمن کو زیر کرلیا تھا، پھر تو چین کو اس یونیورسٹی کے ماہرین کی ضرورت پیش آئے گی تاکہ وہ ایمان اور روحانیت کا راستہ اختیار کر کے کسی محنت اور تحقیق و جستجو کے بغیر اور دنیاوی ایجادات اور ہتھیاروں کا سہارا لئے بغیر دنیا بھر کو زیر کرنے کے سفر پر گامزن ہو سکے۔ اسی طرح اس یونیورسٹی کے ہونہار اپنی تحقیق میں کامیابی سے ملک کو فوج کے مصارف سے نجات دلا دیں گے کیوں کہ روحانی طاقت سے لبریز نوجوان قائدین کی ایک پوری نسل اپنی ’سپر سائنس‘ کے ذریعے دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے ایسے طریقے سامنے لے آئے گی کہ دشمن کو پاکستان کی سرحدوں پر بری نگاہ ڈالنے کی جرات ہی نہیں ہوگی۔

ملک کے چیف ایگزیکٹو کی بصیرت کے مطابق اگر القادر یونیورسٹی کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا، پھر انہیں ملک کے اسٹیٹ بنک کا انتظام سنبھالنے کے لئے آئی ایم ایف کے کسی ماہر کو لانا پڑے گا اور نہ ہی ٹیکس کے کسی ماہر کو بورڈ آف ریوینو کا چئیر مین بنا کر لوگوں سے ٹیکس اکٹھا کرنے کے جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ سارے کام روحانیت کی سپر سائنس کے ذریعے کسی مشقت اور غور و فکر کے بغیر ہی انجام پاسکیں گے۔ تاہم وزیر اعظم نے یہ باتیں چونکہ’ منازل سلوک کے شناور ‘کے طور پر اشاروں کنایوں میں کی تھیں، اس لئے عام لوگوں کے لئے انہیں سمجھنا اور اس حقیقت تک پہنچنا ممکن نہیں ہوسکتا جس مقام پر عمران خان بوجوہ خود کو فائز سمجھتے ہیں۔

ابھی اس پیچیدہ مگر روحانی بصیرت سے لبریز تقریر کو سمجھنے کی کوششوں کا آغاز بھی نہیں ہؤا تھا کہ آج وزیر اعظم نے پھر سے چند چہیتے ’سینئر صحافیوں‘ کو مدعو کیا اور پنجاب کے بلدیاتی نظام کا روڈ میپ سامنے رکھا۔ اس میں براہ راست انتخاب، سابقہ جمہوری حکومتوں کی غیر جمہوری حرکتوں اور غیر جمہوری حکومتوں کے اس جمہوری ماڈل کا ذکر تفصیل سے سامنے آیا جس کے تحت پنجاب کے عوام کو براہ راست گلی محلے میں وسائل سے مالا مال نمائیندے دستیاب ہوں گے۔ عوام انہیں براہ راست منتخب کریں گے اور وہ ماضی کے غیر جمہوری اور عوام دشمن نظام کی بجائے ایک ایسے انتظام کے تحت منتخب ہوں گے جس کا اہتمام پنجاب اسمبلی کے بلدیاتی ایکٹ 2019 کے تحت کیا جائے گا۔

اس خوابناک بلدیاتی نظام کے بارے میں گفتگو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے لیکن اس سے پہلے عمران خان کو یہ بتانا چاہئے کہ وہ جمہوری لیڈر ہونے کے باوجود اپنے سارے ’آئیڈیل‘ ملک کے سابقہ آمروں میں ہی کیوں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایوب خان کا عہد ملک کی ترقی کا سنہرا دور تھا جبکہ بیشتر مؤرخین کے خیال میں اسی آمرانہ دور میں ان تمام سیاسی اور سماجی برائیوں کی بنیاد رکھی گئی جن کی وجہ سے نہ ملک میں جمہوریت پنپ سکی اور نہ ہی مثبت اور صحت مند سماجی مزاج استوار ہو سکا۔ پاکستانی معاشرہ اس وقت اقربا پروری اور بدعنوانی کے جس عفریت سے سے نمٹنے کی خواہش رکھتا ہے اسے ایوب خان کے دور میں ہی دریافت کیا گیا تھا اور پھر یہ علتیں ضیا آمریت کی نرسری میں پروان چڑھیں ۔ اپنی آمرانہ حکومتوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے آمروں نے ضرور بلدیاتی نظام متعارف کروائے لیکن ان کے ذریعے کبھی جمہوریت پھل پھول نہیں سکی بلکہ خوشامدی اور مفاد پرست سیاست دانوں کی پوری نسل تیار ہوکر سامنے آئی ۔

بلدیاتی نظام کو مؤثر، طاقتور اور نمائندہ بنانے کے اصول سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن کیا عمران خان واقعی اسی مقصد کے لئے یہ جتن کررہے ہیں یا وہ پنجاب میں مقامی سطح سے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قوت کو ختم کرنے کی خواہش و کوشش میں بلدیاتی نظام میں کثیر وسائل صرف کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام کو عوام کا نمائندہ بنانے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے کا اہل کرنے کے وعدے کرتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم یہ بھول رہے ہیں کہ اس وقت پنجاب میں ان کی چہیتی حکومت نے جو بلدیاتی بل منظور کیا ہے اس کے تحت تمام بلدیاتی ادارے تحلیل ہو چکے ہیں اور ان کا انتظام حکومتی شکنجے میں دیا جاچکا ہے۔ عوام کو براہ راست انتخاب اور کثیر وسائل کا لالی پاپ دکھاتے ہوئے عمران خان نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ انتخابات کب تک مکمل کروا لئے جائیں گے؟

وزیر اعظم نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے شہروں اور بلدیاتی اداروں کو چالیس ارب روپے دینے کا وعدہ کرنے کے علاوہ براہ راست ٹیکس لگانے اور جمع کرنے کا اختیار دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا کہ وفاقی و صوبائی حکومت کون سے شعبوں میں ٹیکسوں کی سہولت دے گی تاکہ عام لوگ بلدیاتی اداروں کے محاصل ادا کرکے اپنے علاقوں کی ترقی کا خواب پورا کر سکیں۔ یاغربت اور مہنگائی کے مارے ہوئے عام خاندانوں کو اب مزید محاصل کی اطلاع دی جا رہی ہے جو بلدیاتی ادروں کو مضبوط کرنے کے نام پر جمع کئے جائیں گے۔ عوام کی قوت خرید میں اضافے اور ملک میں معاشی احیا کے لئے ٹھوس اقدامات سے پہلے اس قسم کی گفتگو دیوانے کی بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

حکومت نے پاکستان کے مالی معاملات عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین کو آؤٹ سورس کردیے ہیں۔ اب آئی ایم ایف کے پروردہ ماہرین اسی ادارے سے پاکستان کے لئے قرض کی شرائط طے کریں گے۔ پاکستان کا بھلا سوچنے والے کسی ماہر کو اس سے کسی بہتری کی امید نہیں ہے۔ اس صورت حال میں وزیر اعظم نہ جانے کون سی روحانی سائنس کے دم پر عام آدمی کے گھر میں روشنی لانے کی باتیں کررہے ہیں۔
 
Top