ہم ترے قرب میں جینا چاہیں

ثامر شعور

محفلین
خوف یوں دل میں اترتے جائیں
خواب جینے کے بھی مرتے جائیں

ہم ترے قرب میں جینا چاہیں
اور لمحے کہ گزرتے جائیں

گر ترے ہاتھ سمیٹیں ، ہم بھی
بات بے بات بکھرتے جائیں

خاک اڑنے لگی ہے آنکھوں سے
ہو کوئی خواب کہ دھرتے جائیں

ہو ترا ہاتھ اگر ہاتھوں میں
تو یہ لمحے بھی ٹھہرتے جائیں

کچھ تو آساں ہوں سفر کے رستے
ہم کوئی بات ہی کرتے جائیں

ہو ترا ساتھ میسر ہم کو
تو شب و روز سنورتے جائیں

کتنی چپ پھیل گئی ہے ثامر
اپنی آواز سے ڈرتے جائیں​
 
Top