جون ایلیا ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں

صائمہ شاہ

محفلین
ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں

شہر کوچوں میں کرو حشر بپا آج کہ ہم
اس کے وعدوں کو بھلانے کے لیے نکلے ہیں

ہم سے جو روٹھ گیا ہے وہ بہت ہے معصوم
ہم تو اوروں کو منانے کے لیے نکلے ہیں

شہر میں شورہے، وہ یُوں کہ گماں کے سفری
اپنے ہی آپ میں آنے کے لیے نکلے ہیں

وہ جو تھے شہر تحیّر ترے پُر فن معمار
وہی پُر فن تجھے ڈھانے کے لیے نکلے ہیں

رہگزر میں تری قالین بچھانے والے
خون کا فرش بچھانے کے لیے نکلے ہیں

ہمیں کرنا ہے خداوند کی امداد سو ہم
دیر و کعبہ کو لڑانے کے لیے نکلے ہیں

سرِ شب اک نئی تمثیل بپا ہونی ہے
اور ہم پردہ اٹھانے کے لیے نکلے ہیں

ہمیں سیراب نئی نسل کو کرنا ہے سو ہم
خون میں اپنے نہانے کے لیے نکلے ہیں

ہم کہیں کے بھی نہیں پر یہ ہے رُوداد اپنی
ہم کہیں سے بھی نہ جانے کے لیے نکلے ہیں
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ واہ کیا خوبصورت غزل ہے۔۔۔ یہ اشعار تو کلیجہ چھلنی کر گئے
ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں

رہگزر میں تری قالین بچھانے والے
خون کا فرش بچھانے کے لیے نکلے ہیں

ہمیں کرنا ہے خداوند کی امداد سو ہم
دیر و کعبہ کو لڑانے کے لیے نکلے ہیں

ہم کہیں کے بھی نہیں پر یہ ہے رُوداد اپنی
ہم کہیں سے بھی نہ جانے کے لیے نکلے ہیں
 

سید زبیر

محفلین
واہ ۔ ۔ ۔ ۔عمدہ کلام ۔ ۔ کیا بات ہے
ہمیں سیراب نئی نسل کو کرنا ہے سو ہم
خون میں اپنے نہانے کے لیے نکلے ہیں
 
Top