ہم بھی دنیا میں عجب لے کے مقدر آئے

رباب واسطی

محفلین
ہم بھی دنیا میں عجب لے کے مقدر آئے
جتنے غم اترے فلک سے، وہ ہمیں پر آئے
مسٗلے دوڑ کے بچوں کی طرح آلپٹے
مدتوں بعد جو ہم لوٹ کے گھر پر آئے
وہم کے خواب سے جب جاکے کہیں آنکھ کھلی
خود نمائی کی، جو ہم دنیا سے باہر آئے
اجنبی شہر میں سمجھوں گا شناسا ہے کوئی
منتظر ہوں میری جانب کوئی پتھر آئے
عمر بھر ہم اسی حسرت میں رہے ہیں پیاسے
ہم سے خود ملنے کبھی کوئی سمندر آئے
پھر تیری یاد خط ہم کو ملا برسوں میں
بامِ دِل پر جو تیرے غم کے کبوتر آئے
آج بھی وہ دور نمائش کا ہے افضل صاحب
چاہے خالی ہی سہی ہاتھ میں ساغر آئے

افضل منگلوری
 
Top