ہم ادیب کیوں نہ بن سکے؟

(سرور فرحان سرورؔ)
صاحب، ہمیں تو لکھنا لکھانا، دُنیا کا مُشکل ترین کام لگتا ہے اور ہمارے ایسے محسُوسات بچپن سے ہی ہیں یہ الگ بات کہ بچپن میں ہمیں لکھنے سے کہیں زیادہ مُشکل کام پڑھنا لگتا تھا، خصوصاً اپنا لکھا پڑھنا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں ہم کوئلے سے دیوار پر لکھا کرتے تھے اور ہمارے بُزرگوں نے اُس وقت تک ہمارے اِس فن پہ کوئی پابندی نہیں لگائی جب تک انہوں نے وہ مکان خرید نہ لیا، جس میں ہم پہلے کرایہ پہ رہتے تھے۔ خیر صاحب، آج کل ایسے علم دوست بُزرگ مِلنا اُتنا ہی مُشکل ہے جتنا کہ خالص دُودھ ملنا۔

ہمارے علمی ذوق و شوق کو دیکھ کر ہمارے ابّا نے ہمیں قلم، دوات اور ایک عدد تختی لادی، سو اِس طرح ہم بچپن سے ہی اہلِ قلم ہو گئے۔ کیونکہ وہ قلم سرکنڈے کی لکڑی کا سر قلم کر کے بنایا جاتا تھا، اس لئے ہماری تحریر میں ابتداء سے ہی قُربانی کا عنصر غالب تھا، بعد میں جیسے جیسے ہم نے ماسٹر صاحب کو اپنا ہوم ورک دِکھانا شروع کیا ہماری تحریر اور صاحبِ تحریر دونوں میں درد اور تکلیف کا عنصر بھی غالب آنے لگا۔ ماسٹر جی ہمیں تختی پہ ہوم ورک دیتے اور ہوم ورک صاف نہ ہونے پہ اُسی تختی کو آلہء حرب کے طور پر استعمال کرتے۔ اگر کسی دِن خوش قسمتی سے ماسٹر جی کے کسی قریبی عزیز کی بیماری یا فوتیدگی کی صورت میں ہماری تختی ہم پر استعمال ہونے سے بچ جاتی تو ہم اُسے بطور بلاّ استعمال کرکے کرکٹ کھیلتے اور رہی سہی کسر پوری کردیتے۔ اِن مُتفرق استعمالات سے ہماری تختی نے اِک نئے اندازِ تحریر کو جنم دیا جسے اہلِ ادب خطِ شکستہ کہتے ہیں۔

تختی پہ لکھنا یا لکھنے کی تیاری کرنا ہرگِز آسان نہ تھا، پہلے اُسے دھویا جاتا، پھر مُلتانی مٹی سے اُس پر لیپ کیا جاتا اور پھر دھوپ میں خُشک کیا جاتا تب کہیں جا کے ہم ہوم ورک کرنے کے قابل ہوتے۔ ایک بار ہوا میں نمی کی وجہ سے یا پھر ہماری سُستی کی وجہ سے ہمارا ہوم ورک کُچھ گیلا رہ گیا۔ نتیجتہً ماسٹر صاحب کا سفید کُرتا پرنٹڈ ہوگیا اُس دِن تین جگہ دُھلائی کی اِطلاع ملی، پہلے ہماری ماسٹر صاحب کے ہاتھوں، پھر ماسٹر صاحب کے کُرتے کی اُن کی بیگم کے ہاتھوں، تیسری دُھلائی کے بارے میں تاریخ ہُنوز خاموش ہے مگر ماسٹر صاحب اپنے قریبی حلقوں میں خواہ مخواہ عجیب عجیب یقین دہانی کرتے نظر آئے مثلاً اللہ کی قسم میری بیگم نے گندہ کُرتا دیکھ کر کُچھ بھی نہیں کہا، وہ تو مُجھ پر بالکل ناراض نہیں ہوئی، کپڑے دھونے کا ڈنڈا بھی اُس نے صرف کُرتے پر ہی اِستعمال کیا تھا اور مزید یہ کہ میں اُس وقت کُرتے سے باہر تھا وغیرہ وغیرہ۔ اُس دِن کے بعد سے ماسٹر صاحب، ہوم ورک چیک کرنے سے پہلے تحریر خُشک ہونے کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے، یا یوں کہنا مُناسب ہوگا کہ صرف خُشک تحاریر کو ہی لائقِ توجہ سمجھتے تھے، یہ جو آپ کو ہمارے طرزِ تحریر اور مزاج میں خُشکی نظر آ رہی ہے یہ ماسٹر صاحب کی ہی دین ہے۔

جیسے جیسے عُمر گھٹتی اور قد بڑھتا گیا، قلم نے کئی رُوپ بدلے اور کسی رُوپ میں ہماری جان نہ چھوڑی۔ لکھنے لکھانے کے شوق سے تو ہمیں بہت پہلے ہی تائب ہوجانا چاہیئے تھا کہ ہماری عُمدہ لکھائی دیکھ کر لوگ ہمیں ڈاکٹر سمجھتے اور بعد میں ہماری باتیں سُن کر پروفیسر۔ ہم تو بقول شخصے جیب میں بھی ہمہ وقت قلم اِس لئے لگائے رکھتے ہیں کہ کیا معلوم کب پاجامے میں ازاربند ڈالنے کی نوبت آجائے مگر جب یار لوگ ہماری جیب میں قلم دیکھ کر ہمیں اہلِ قلم سمجھنے لگے تو ہم نے بھی دل آزاری کو گُناہ تصوّر کیا اور خُود کو اہلِ قلم بقلم خُود لکھنے لگے۔ تو صاحب ہم اہلِ قلم تو بن گئے ہیں مگر ادیب شاید کبھی نہ بن سکیں کہ ادب میں ہمارا سابقہ تجربہ صرف اور صرف بُزرگوں اور بیگم کے ادب تک ہی محدُود رہا ہے۔

شُنید ہے کہ جو اپنا لکھا خود پڑھ بھی سکے اُسے عام آدمی کہتے ہیں، جس کے لِکھے کو صرف دوسرے ہی پڑھیں، اُسے ادیب کہتے ہیں اور جس کا لکھا نہ وہ خُود پڑھ سکے نہ لوگ پڑھ کر سمجھ سکیں اُسے کلاسک ادیب کہتے ہیں۔ ویسے ایسا بھی نہیں ہے کہ آج کل اچھے لکھنے والوں کی قدر نہیں ہے، اکثر احباب تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ ہماری لکھائی چیک پہ بہت ہی خوبصورت اور عُمدہ نظر آتی ہے، اور یہ بھی کہ ہم چاہیں تو وقت بچانے کے لئے چیک پہ صرف دستخط بھی کر سکتے ہیں باقی کی تحاریر اِحباء خُود ہی مُکمل کر لیں گے، مگر جانے کیوں ہمیں اِس معاملے میں تساہل پسند نہیں ہے، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آپ اتنے مُخلص لوگوں کے لئے چند سطور بھی نہ لکھ سکیں۔

ہمیں یہ بات بھی قطعاً عجیب لگتی ہے کہ لوگ ادیب اور شاعر حضرات کو بالکل ہی نکما سمجھتے ہیں، مثلاً جب ہم نے اپنی بیگم سے کہا کہ ہم ادیب بننا چاہتے ہیں تو بولیں “پھر آپ مجھے جاب کرنے کی اجازت دے دیجیئے“ ہم نے حیران ہوکر وجہ پُوچھی تو بولیں “گھر کا خرچ چلانے کے لئے ہم میں سے کسی کو تو کام کرنا ہی پڑے گا۔“ ہم نے اُن کو سمجھایا کہ ضروری نہیں کہ ہر ادیب و شاعر فاقوں مرے، آخر اتنے سارے لوگ جو شاعر یا ادیب ہیں، اُن کا گھر بھی تو چل ہی رہا ہے۔ اپنی بات کی تائید کے لئے ہم نے بیگم کے ماموں (جو کہ اُس وقت بطور مہمان آئے ہوئے تھے) کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔ موصُوف نے تو پہلے ہم سے یہ پُوچھا کہ ہمارے دُوسرے بھائی کیا کرتے ہیں، جب ہم نے یہ بتایا کہ ہم سے چھوٹے بھائی فلاں فلاں تعلیم مُکمل کر کے فُلاں فُلاں محکمے میں کام کر رہے ہیں تو ماموں موصوف اپنا سر کھُجاتے ہوئے معصومیت سے گویا ہوئے “پُتر، فیر توں کُجھ پڑھیا کیوں نہیں؟“

تو صاحب یہ تھی ہماری ادیب نہ بننے کی رُوداد۔ زندگی رہی تو آپ کو اُن باقی ماندہ شعبہ ہائے زندگی کی بابت بھی مُطلع کریں گے جو ہم ابھی تک نہ بن سکے ہیں اور نہ انشاء اللہ آئندہ بن پائیں گے۔


ماخوز:http://m.hamariweb.com/articles/detail.aspx?id=31110
 
بہت خوب۔ بہت اچھا لکھا آپ نے
یہ ملتانی مٹی ہمارے ہاں گاچی کہلائی جاتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ گاچی اس ملتانی مٹی سے مشابہ کوئی اور شے ہو۔ مجھے یاد ہے، گاچی جہاں تختی پر ملنے کے کام آتی تھی وہاں کبھی کبھی میں اسے چک بھی مار لیتا تھا۔ بڑی مزے کی ہوتی تھی :LOL:
 

الف عین

لائبریرین
یہاں تو ملتانی مٹی اب تک بھی دوکانوں پر مل سکتی ہے۔ بساطی یا دوا سازوں کی دوکانوں پر۔
 
Top