ہمیں طعنہ نہ دیں، نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی، چیف جسٹس

جاسم محمد

محفلین
ہمیں طعنہ نہ دیں، نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی، چیف جسٹس
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1888435-cjasifsaeed-1574247578-944-640x480.jpg

نوازشریف کے مقدمے میں ہائی کورٹ نے صرف جزویات طے کیں، چیف جسٹس - فوٹو: فائل


اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خود نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی، ہائی کورٹ نے صرف جزویات طے کیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کا عدلیہ سے متعلق بیان پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے جس کیس کا طعنہ دیا اس پر بات نہیں کرنا چاہتا، ججز پر تنقید اور طاقتور کا طعنہ ہمیں نہ دیں، ججز پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں، وزیراعظم نے خود نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی، ہائی کورٹ نے صرف جزویات طے کیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج کی عدلیہ کا تقابلی جائزہ 2009 سے پہلے والی عدلیہ سے نہ کریں، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے، ایک وزیراعظم کو ہم نے سزا دی، دوسرے کو نااہل کیا اور سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے، کوئٹہ کے کیس کا 3 ماہ میں سپریم کورٹ سے فیصلہ ہوا، 2 دن پہلے ایک قتل کیس کا ویڈیو لنک کے ذریعے فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں 3100 ججز نے گذشتہ سال 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے، سپریم کورٹ میں 25 سال سے زیرالتواء فوجداری اپیلیں نمٹائی گئیں، جن لاکھوں افراد کو عدلیہ نے ریلیف دیا انہیں بھی دیکھیں، 36 لاکھ مقدمات میں سے صرف تین چار ہی طاقتور لوگوں کے ہوں گے۔

وزیراعظم نے جس کیس کی بات کی وہ ابھی زیرالتواء ہے اس لیے اس پر بات نہیں کروں گا، وزیراعظم نے طاقتور اور کمزور کی بھی بات کی، اب ہمیں وسائل کی کمی محسوس ہو رہی تھی، وزیراعظم جب وسائل دیں گے تو مزید اچھے نتائج بھی سامنے آئیں گے، محترم وزیراعظم نے دو دن پہلے خوش آئند اعلان کیا کہ عدلیہ کو وسائل دیں گے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ماڈل کورٹس نے تمام نتائج صرف 187 دنوں میں دیے، فیملی مقدمات طاقتور لوگوں کے نہیں ہوتے، 20 اضلاع میں کوئی سول اور فیملی اپیل زیرالتواء نہیں، منشیات کے 23 اضلاع میں کوئی زیرالتواء مقدمات نہیں، ماڈل کورٹس کی وجہ سے 116 اضلاع میں سے 17 میں کوئی قتل کا مقدمہ زیر التواء نہیں، تمام اپیلوں کے قانون کے مطابق فیصلے کیے گئے، تمام اپیلیں ناتواں لوگوں کی ہیں طاقتور اور کمزور میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم نے حکومتی ترجمانوں کو چیف جسٹس کے بیان پر تبصرے سے روک دیا
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1888565-imrankhane-1574263606-457-640x480.jpg

شریف فیملی پاکستانی عوام کے سامنے مکمل بے نقاب ہو گئی ہے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے حکومتی ترجمانوں کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف کھوسہ کے بیان پر کسی بھی قسم کے تبصرے سے روک دیا ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت پارٹی اور حکومتی ترجمانوں کا اجلاس ہوا، اجلاس میں ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور نواز شریف کے باہر جانے کے حوالے سے پارٹی بیانیہ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم نے ترجمانوں کو معیشت اور سیاست سے متعلق پارٹی بیانیے پر ہدایات جاری کیں جب کہ معاشی ٹیم نے نئے معاشی اعشاریوں پر بریفنگ دی۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ترجمانوں کو چیف جسٹس کے بیان پر تبصرے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی صحت پر اب بھی کوئی سیاست نہیں کریں گے، حکومت نے نواز شریف کو ڈاکٹرز کی رپورٹس اور انسانی ہمدردی کے تحت باہر بھیجنے کی اجازت دی تھی، شریف فیملی پاکستانی عوام کے سامنے مکمل بے نقاب ہو گئی ہے، نواز شریف نے لندن جس فلیٹ پر قیام کیا اس کی ملکیت نہ ثابت کر سکے، تاہم عدالت نے جو فیصلہ دیا اسے تسلیم کیا۔

اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی معاشی ٹیم کا بھی اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر، وزیر بحری امور سید علی حیدر زیدی، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیرِ توانائی عمرا یوب خان، مشیر تجارت عبدالرزاق داوٴد، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر ڈاکٹر عشرت حسین، معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر، معاون خصوصی ندیم بابر، چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ سید زبیر گیلانی، گورنر اسٹیٹ بنک رضا باقر، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریزبھی شریک تھے۔

اجلاس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں اضافے اور ان کو مراعات دینے سے متعلق امور پرغور کیا گیا، پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی، پاکستان بناوٴ سرٹیفیکیٹس کی تشہیر، بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے جاری ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا جب کہ نقصان اٹھانے والے بیمار سرکاری اداروں (سک یونٹس) کی بحالی کے لئے اقدامات جیسے اہم امور پر غور کیا گیا۔

وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ ترسیلات زر میں گزشتہ تین سالوں میں شرح نمو صفر رہی ہے اور تین سال کے بعد ترسیلات زر میں 09 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ مالی سال 2019 میں 21.8 ارب ڈالر ہیں، برطانیہ، ملائیشیا، کینیڈا اور آسٹریلیا سے ترسیلات زر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، برطانیہ سے ترسیلات زر میں 09 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترسیلات زر میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

اجلاس میں وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بنک کی جانب سے ترسیلات زر کے حوالے سے مراعات دینے پر مختلف تجاویز وزیرِ اعظم کو پیش کی گئیں، جس پر وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ترسیلات زر کے حوالے سے حکومت کی جانب سے سہولت کاری اور مراعات سے متعلق تجاویزکو ایک ہفتے میں حتمی شکل دی جائے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں اور خصوصاً بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے جاری منصوبوں پر پیش رفت تیز کی جائے، ترقیاتی منصوبوں پر بروقت عمل درآمدسے جہاں معاشی عمل تیز ہوگا وہاں نوجوانوں کے لئے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے، ان ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت کے حوالے سے وزیرِ اعظم آفس کو باقاعدگی سے آگاہ رکھا جائے اور کسی بھی مشکل کو دور کرنے کے سلسلے میں وزیرِ اعظم آفس سے رجوع کیا جائے۔

سابق وزیرخزانہ شوکت ترین نے بتایا کہ غیر سرکاری فلاحی تنظیم اخوت کی جانب سے لوگوں کے گھروں سے کھانے کی اشیاء اکٹھی کرکے مستحق اور ضرورتمند افراد کو پہنچانے کے منصوبے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے اور یہ عمل ایک ہفتے میں مکمل کر لیا جائے گا۔ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ اقدام حکومتی فلاحی سرگرمیوں سے مطابقت رکھتا ہے لہذا حکومت اس ضمن میں ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
تبصرہ نگاروں کی رائے میں عزت مآب وزیراعظم بلا سوچے سمجھے بولتے ہیں، لیکن بعد میں یوٹرن کی سہولت تو ہے ہی!
واقعی اس قوم کی قسمت پر ماتم کرنے کو جی کرتا ہے۔ ایک وہ وزیر اعظم تھا جو ہر بیان پرچی سے پڑھ کر دیتا تھا۔ اور قوم اسے لیڈر سمجھتی تھی۔
attachment.php

B2oZ8NHCIAEZpt6.jpg

C2ro5AMXUAUxthB.jpg
 
انصافینز کی خوبی یہ ہے کہ اپنے لیڈر کو ڈیفینڈ کرنے کے لیے ہر حد تک جاسکتے ہیں۔ اس پر ہر اعتراض کا بہترین جواب یہی تو بنتا ہے کہ یہ تو پچھلے بھی کرتے آئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
انصافینز کی خوبی یہ ہے کہ اپنے لیڈر کو ڈیفینڈ کرنے کے لیے ہر حد تک جاسکتے ہیں۔ اس پر ہر اعتراض کا بہترین جواب یہی تو بنتا ہے کہ یہ تو پچھلے بھی کرتے آئے ہیں۔
میں نے یہ کب کہا؟ عمران خان ایک لیڈر ہیں۔ جو کہتے ہیں اپنے نظریہ کے تحت کہتے ہیں۔ نواز شریف کی طرح پرچی پر لکھا نہیں پڑھتے۔
 
میں نے یہ کب کہا؟ عمران خان ایک لیڈر ہیں۔ جو کہتے ہیں اپنے نظریہ کے تحت کہتے ہیں۔ نواز شریف کی طرح پرچی پر لکھا نہیں پڑھتے۔
یہ کون سا نظریہ ہے؟ نظریۂ یو ٹرن۔ جو وہ پہلے کہتے ہیں، آپ اس کو ڈیفنڈ کرتے ہیں ،اگلے ہی لمحے جب وہ یو ٹرن لیتے ہیں، آپ اسے ڈیفنڈ کرنے لگتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ کون سا نظریہ ہے؟ نظریۂ یو ٹرن۔ جو وہ پہلے کہتے ہیں، آپ اس کو ڈیفنڈ کرتے ہیں ،اگلے ہی لمحے جب وہ یو ٹرن لیتے ہیں، آپ اسے ڈیفنڈ کرنے لگتے ہیں۔
عمران خان نے گیس سیکٹر کمپنیوں کے 300 ارب روپے بذریعہ آرڈیننس معاف کئے تھے۔ اس پر شور ہم انصافیوں نے مچایاتھا حالانکہ خان صاحب اس کو ڈیفنڈ کرتے تھے۔ بالآخر یہ فیصلہ واپس لینا پڑے۔
اسی طرح نواز شریف کو اتنی آسانی سے چھوڑنے پر انصافی شدید مشتعل ہیں۔ جبکہ خان صاحب ابھی بھی اس فیصلہ کا دفاع کر رہے ہیں۔
آپ نے کیا انصافیوں کو پٹواری اور جیالا سمجھا ہوا تھا جو اپنے لیڈر کے قول و فعل پر اندھوں کی طرح چلتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کون لوک او تسی……
ایثار رانا

پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست، اصل فلم انٹرول کے بعد اور پہلے سے زیادہ زبردست ہو گی اس لئے بوتل شوتل پی لیں چپس وپس کھا لیں، انٹرول کے بعد فلم بے الکل نوی نکور ہو جائے گی۔ ہیرو ولن اور ولن ہیرو ہوں گے۔ ہدایتکار کہانی نویس ایسا ٹرن دیں گے کہ چاہے آپ کو کہانی پسند نہ آئے سٹوری ضرور اچھی لگے گی۔ چیئرمین نیب نے فلم کا ٹریلر چلا دیا ہے وہ کہتے ہیں ہوا کا رخ بدل رہا ہے، ہم تو بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی کے دیوانوں، شیر کے پروانوں ہوا کسی کی نہیں ہوتی، ہوا تو بس ہوا ہے۔ جہاں ”ویکیوم“ دیکھتی ہے جگہ گھیر لیتی ہے۔ مجھے تو بڑے بڑے ہیرو زیرو ہوتے نظر آ رہے ہیں۔گھمسان کا یدھ ہونے جارہا ہے۔ ویسے تو مولے نوں مولا نہ مارے تو مولا نئی مردا۔ لیکن اس بار لگتا ہے کہ مولا اپنی موت آپ نہ مر جائے، یہ ملک انصاف کی بارودی سرنگوں پر بچھا ملک ہے جہاں غلط پاؤں رکھا ٹھاہ ہو جائے گا۔ عمران خان جس عزم سے آئے تھے ڈر لگتا ہے کہ ان کی واپسی ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح درد ناک نہخ ہو۔ لیکن ایک بات ان سے ضرور کہوں گا، اگر ان کے سکرپٹ میں ہارنا لکھ دیا گیا ہے تو وہ لڑ کر ہاریں، ایک نظام جہاں قدم قدم پر بارودی سرنگیں بچھیں ہوں بندہ ننانوے پر پہنچ کر بھی سانپ سے ڈسا جا سکتا ہے۔ کسی نے کمہار سے پوچھا نمک بیچ آئے وہ بولا نمک تو نہیں بکا کھوتے نے شہر ضرور ویکھ لیا۔ کیا ہوا اگر خان صاحب کی تبدیلی کا سالٹ ہالٹ ہو گیا۔ اس چکر میں نجانے کتنوں کی موجیں لگ گئیں۔ اسلام آباد دیکھ لیا، اب اگر ہوا کا رخ بدلا تو کھوتوں کے کان ضرور کھڑے ہونے چائیں۔ رہے خان صاحب تو انہیں بات سمجھ آ گئی ہو گی کہ کرکٹ ٹیم چلانا اور میاندار جیسے عظیم کھلاڑی کی بھرپور مدد لے کر وسیم اکرم سے ٹیم آؤٹ کرانا کچھ اور ہوتا ہے لیکن سیاست کا میچ دوسرا ہوتا ہے۔ اس میں بسا اوقات ”ڈکی برڈ“ آپ کو کبھی بھی آؤٹ قرار دے سکتا ہے۔ میری دعا ہے ابھی اس وقت خان صاحب کی جیب کٹ جائے اس بہانے ان کی جیب میں بھرے سارے کھوٹے سکوں سے تو جان چھٹ جائے گی۔

مرنا ہی تو لڑ کر مرا جائے۔ کپتان ایک فائٹر ہے۔لیکن انہیں ہاتھ باندھ کر رنگ میں اتارا گیا ہے پھر ایک کونے سے مولانا فضل الرحمن، دوسرے سے زرداری، تیسرے سے نواز شہباز پنچ نہیں ماریں گے تو کیا ان کی پپیاں لیں گے۔

چودھری برادران وہ عظیم کھلاڑی ہیں جو بظاہر ’ریلو کٹے‘ نظر آتے ہیں لیکن کوئی پتہ نہیں ہوتا کب وہ پیڈ باندھ کر اوپننگ شروع کر دیں وکٹ چاہے کتنی گیلی ہو بال چاہے کتنی سونگ ہو رہی ہو انہیں بال لفٹ کرنا آتا ہے چیئر مین نیب نے خوب کہا ہے کہ ہوا بدل رہی ہے ہمیں تو چودھری شجاعت کے وزیر اعظم پر سیدھے سیدھے بیانات کے باؤنسر سے اندازہ ہو گیا تھا۔ کہ اچانک چودھری صاحب ایک سو پچاس کلو میٹر کی رفتار سے کیسے باؤلنگ کر رہے ہیں۔ وہ ایویں شعیب اختر نہیں بنے کچھ تو ہے۔ بلکہ اگر یہ کہوں کہ میں نئی بولدی میرے وچ میرا یار بولدا تو غلط نہ ہوگا۔ خان صاب کو چودھری صاحب کے راگ مالکو نس کے پیچھے راگ دیپک کو سمجھنا چاہئے،ورنہ انکا راگ شبت کیرتن ہوجائے گا، حکومت کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا۔ اب بات اجی سینئے سے بہرے ہو گئے ہو کیا تک آ پہنچی ہے۔ میرے پیارے مولانا فضل الرحمن کی بات ڈسٹ بن میں نہیں سٹنی چاہئے کم از کم یہ بات جو وہ کہتے ہیں میں نے حکومت کی جڑیں کاٹ دی ہیں وہ نہ ایویں اسلام آباد گئے نہ ایویں اسلام آباد سے واپس آئے۔ اب وہ یہ تو نہیں بتائیں گے کہ یہ ”ایویں“ کون سی کھجلی ہے جو ہر حکمران کے خلاف اچانک اپوزیشن میں کسی نہ کسی کو ہو جاتی ہے۔ سنتا سنگھ چوری کے الزام میں پکڑے گئے، ان کا منہ کالا کر کے گدھے پر پھرایا جا رہا تھا۔ اچانک ان کی بیگم کی نظر پڑ گئی وہ رونے لگی سنتا سنگھ بولا نہ رو جھلیئے دو گلیاں رہ گئیاں تو گھر جا کے چا بنا میں آؤندا۔ اسے کہتے ہیں کانفیڈنس اور ہمارے مولانا کے لہجے سے جو اعتماد جھلک رہا ہے سچی بات ہے خانصاحب ڈریں نہ ڈریں ہمیں تو خوف آ رہاہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں بس ایویں ہے۔

ایک طرف میاں صاحب آئین قانون انصاف کو اپنی جیب میں ڈال کر، توڑ کر پنجرہ اک نہ اک دن پنچھی کو اڑ جانا ہے گاتے یہ جا وہ جا ہوئے، وہ بیمار کیا ہوئے مجھے لگا اس نظام کی پلیٹ لٹس گر گئیں، انصاف کا ہو مو گلوبن تو زیرو ہو گیا۔ شکر ہے میرے نیلسن منڈیلا بحفاظت لندن چلے گئے۔ سنا ہے ایئرپورٹ پر وہ شہباز شریف سے گلا کر رہے تھے کہ ظالموں نے مجھے ملک میں انقلاب نہیں لانے دیا۔ ویسے شہباز شریف تو اپنے آخری خطاب میں یہ آفر کر گئے ہیں کہ وہ صرف چھ ماہ میں ملک کی کایا پلٹ دیں گے۔ ایک جن سنتا سنگھ کے روپ میں شراب خانے گیا۔ وہاں وہ درجنوں بوتلیں پی گیا،اس نے ساتھ بیٹھے سنتا سنگھ سے کہا یارنشہ نہیں ہو رہا۔ سنتا سنگھ بولا کیوں نہیں ہو رہا۔ وہ بولا کیونکہ میں ایک جن ہوں۔ سنتا سنگھ ہنس کر بولا سالیا ہن چڑھ گئی اے تینوں. ہمارے سیاستدان ماشاء اللہ جنوں کے جن ہیں، اقتدار کی وسائل کی دولت کی لوٹ مار ٹیٹیز قبضوں، کمیشنوں کی جتنی مرضی بوتلیں چڑھا لیں انہیں شرافت کا نشہ نہیں ہوتا۔ ملک کا بیڑہ غرق ہو چکا، غریب فاقوں سے اکتا کر مرنے پر آ گیا۔ نوجوان ڈگریاں جلا کر نشہ میں گم ہو گئے۔ لیکن افسوس قوم کے خدمت گزاروں کو چین نہیں وہ جب تک اس ملک کا بیڑہ غرق کر کے غرق ہونے کی تسلی نہیں کر یں گے انہیں سکون نہیں ملے گا۔ بیوٹی پارلر میں بیگم تیار ہو رہی تھیں حاجی صاحب میگزین پڑھ رہے تھے اچانک ایک خوبصورت خاتون نے انکا نرمی سے کندھا دبایا اور بولی چلو چلیں، حاجی صاحب گھبرا گئے، پسینہ و پسنیہ ہو گئے اور لڑکھڑاتے ہوئے بولے میں شادی شدہ ہوں۔ اندر میری بیگم ہے وہ بولی حاجی صاحب غور نال دیکھو میں اوہی آں، واہ رہے ہمارے بیس کروڑ حاجیو ہمارے سیاستدان ہر بار میڈیا کے پارلر سے تیار ہو کر سوہنے موہنے ہیرے مکھن بن کے آتے ہیں اور آپ میڈیا کی لیپا پوتی سے بنے ان خوبصورت چہروں کے پیچھے چھپے ماسی مصیبتوں کو پہچان ہی نہیں پاتے کون لوک او تسی۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف سے عمران خان نے کتنا بڑا لفافہ پکڑا؟
20/11/2019 انیق ناجی

آ گیا جی اونٹ پہاڑ کے نیچے؟ یہ حال ہوتا ہے، جب جذبات اور شوخی عقل کو الوداع کہہ دیں۔ جب بڑے بول اس آدمی ہی کے گلے پڑتے ہیں جو انہیں بول کر تکبر کرتا ہے۔ یاد ہے امیر قطر پاکستان کے دورے پر آیا تھا اور عمران خان صاحب سے ملاقات میں اس نے کچھ کہا تھا، اس کا جواب خان صاحب نے عوام میں دیا تھا کہ یہ ( نواز شریف) چاہے جس بادشاہ کے گھٹنے پکڑ لیں، میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ کل اسی امیر قطر کا جہاز آیا تھا اور خان صاحب چھٹی پر تھے۔

کمال کی سیاست ہے کہ کوئی درست قدم بھی اٹھائیں تو اس بے ہودگی سے اٹھاتے ہیں کہ نیکی گلے پڑ جاتی ہے۔ ایک طرف نواز شریف کو جانے کی ” اجازت ” دینا پڑی، دوسری طرف شور مچا رہے ہیں کہ نواز شریف نے ڈیل کر لی اور بھاگ گیا۔ ان کو یہ بھی عقل نہیں کہ ایسا کہہ کر یہ اپنے ہی لیڈر کی بے عزتی اور اسے جھوٹا بنا رہے ہیں۔ اپنی ہی پنجاب حکومت کی وزیر صحت کو جھوٹا بنا رہے ہیں جو بار بار پریس کانفرنس میں بتا رہی تھی کہ نواز شریف بہت بیمار ہیں۔ یہ عقل کے اندھے جاہل میزائیل آج خود اپنی پارٹی پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ گالیوں اور الزام تراشی کی سیاست وقتی طور پر تو بڑا مزا دیتی ہے کہ اس میں سب دوسرے برے، کرپٹ اور ڈاکو بنتے ہیں یا پھر جھوٹے لفافے۔ مصیبت یہ ہوتی ہے کہ جب ذمہ داری سر پہ پڑتی ہے اور نالائقی، گالیوں کے سوا اثاثہ ہوتا ہی کچھ نہیں پھر چوں چاں اور آئیں بائیں شائیں۔

اب اگر ان جہالت کے میزائلوں کی بات مانیں کہ نواز شریف بیماری کا ڈرامہ کر رہا ہے تو پھر خان نے اسے باہر جانے کی اجازت دینے کے کتنے پیسے پکڑے ہیں؟ اگر اس نے اجازت نہیں دی اور دباؤ میں جھک گیا ہے تو کیوں کہا تھا کہ “بکتا یا جھکتا نہیں ہوں”۔ پھر یہ بھی بتانا ہو گا کہ جھکایا کس نے؟ اگر جھکے ہو یا بلیک میل ہو گئے ہو تو بتاؤ کس نے کیا؟ چھوڑو اس حکومت کو اور عوام کے ساتھ کھڑے ہو جاو۔ یہ ہی نعرے تھے نہ کہ میں کرپٹ اور بے غیرت نہیں کہ جھک جاؤں۔ آج پھر کیا ہوا؟ اب کرپٹ مانیں یا بے غیرت مان لیں۔ یہ خان صاحب فرماتے تھے نا کہ میں ایسی حکومت پر لعنت بھیجوں گا جس کو میں خود نہ چلا سکوں۔ ایسا ہی کچھ پرویز مشرف بھی کہتا تھا ” میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں” آج کل کہاں ہوتے ہیں؟

ایک طرف خان صاحب نے فرمایا ” کابینہ تو خلاف تھی، میں نے رحم کیا ” دوسری طرف تقریر ہے کہ ججوں کو چاہیے انصاف پر عوام کا اعتماد بحال کریں” آج اس کا جواب چیف جسٹس کھوسہ نے دے دیا کہ اجازت آپ نے دی ہے، ہم پر الزام کیوں لگاتے ہو؟ ذرا دھیان کرو”۔ ایک قاری نے خان صاحب کے رحم والی بات پر کمال کا تبصرہ کیا کہ ” کیا لوٹی ہوئی دولت تمہارے باپ کی تھی کہ تم نے رحم کیا اور معاف کر دیا ” کچھ ایسا ہی خان صاحب فرماتے تھے نا؟ اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔

جہالت کے میزائلوں کی اس عجیب و غریب فصل پر مجھے پہلے ترس آتا تھا، اب وہ بھی نہیں آتا۔ یہ وہ ظالم مسخرے ہیں جو پہلے کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق اڑاتے تھے، جنازے نے بھی ان کو شرمندہ نہیں کیا۔ تمام اداروں کی بے مثال سپورٹ کے باوجود کوئی کام انہوں نے کر کے نہیں دکھایا، دوسرے کا شاہد خاقان اور شہباز شریف بھی ڈاکو بتاتے تھے اور اپنا عثمان بزدار اور زلفی بخاری بھی زندہ باد کرتے ہیں۔ اب ان سے سوال ہے کہ بتاؤ اگر تو نواز شریف کرپٹ ہے تو ثبوت کہاں ہیں؟ مان لو کہ تم نالائق ہو، اگر نہیں ماننا اور نواز شریف واقعی بیمار ہے اور عمران خان نے کہا کہ اسے رحم آ گیا تو یہ سہولت سب قیدیوں کے لئے کیوں نہیں جبکہ تمہارا نعرہ تھا دو نہیں ایک پاکستان، اس کا جواب یہ گالی سے دیں گے۔ کیونکہ کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔

کل گزارش کی تھی کہ اب خان کے قدم اکھڑ چکے ہیں، ایک ایک کر کے اس کے ساتھی اسے چھوڑتے جائیں گے۔ آج یوسف بیگ مرزا نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ فواد چوہدری بار بار حیلے بہانوں سے بتا رہا ہے کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت کی شرط سے وہ اتفاق نہیں کرتا۔ مطلب وہ آئندہ کے سیٹ اپ میں ابھی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے، کیا کسی کو اس پر حیرت ہونی چائیے؟ نیب کے چیئرمین کو بھی کچھ پرانے حساب یاد آ چکے ہیں آج انہوں نے بھی فرما دیا کہ ہوا بدل چکی۔

جب آپ کے پٹارے میں کچھ تھا ہی نہیں تو یہ ہی ہونا تھا۔ کوئی ہوم ورک نہیں کوئی سنجیدگی نہیں، کوئی وقار، کوئی متانت نہیں کچھ بھی تو نہیں، پھر تسبیح کا ڈرامہ، چلے، جادو گریاں، روحانی یونیورسٹیاں، مذہبی رنگ بازیاں۔ کمال ہے ہماری منافقت، یہاں پہلے ہر کوئی ننگے ناچ ناچتا ہے، پھر راتوں رات تبلیغی بن کر ہمیں اسلام سکھانے لگتا ہے۔ یہ ہماری مستقل منافقت ہے اس کا ضیاء الحق سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ جہالت اور منافقت کے ان میزائلوں کی نئی فصل عمران خان کے کھاتے میں جائے گی کہ یہ اس کا بویا ہوا کلچر ہے۔ ایک طرف مغربی اور دیسی حسیناؤں کے ساتھ دوستی کی فخریہ داستانیں، دوسری طرف ہاتھوں میں تسبیح اور جادو ٹونا۔ اپنے بچے لندن میں، دوسرے کے بچے کی اردو کا مذاق اڑانا بلکہ نقل اتارنا۔ دوسرا کرے تو منافقت خود کے لئے یو ٹرن کی اصطلاح۔ سادگی کی باتیں اور روز ہیلی کاپٹر پر سفر۔ عمران خان نے منافقت اور جہالت کے جن میزائلوں کو بنایا تھا آج وہ خود اس پر حملہ آور ہو چکے ہیں، اب یہ ایک دوسرے کو نوچیں گے۔ ہم تماشا دیکھیں گے کہ ہم ویسے بھی تماش بین قوم ہیں۔

اب ہم سب مل کےموجودہ مسیحا کو تمام برائیوں کی جڑ بتائیں گے اور پھر سے ایک نیا مسیحا تراش لیں گے، پھر اس کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ جو جتنی قوت سے خان کی وکالت کرتا تھا وہ اتنی ہی بے غیرتی سے اسے گالی دے گا، اور نئے مسیحا کی تعریف کرے گا، ہم پھر سے ایک نئے دائرے میں گم ہو جائیں گے یہاں تک کہ تاریخ کے دائرے میں بھی ایک دن گم شدہ قرار پائیں گے۔

لازم ہے کہ اب جہالت کے میزائلوں کو آگ لگا کر پوچھا جائے کہ بتاؤ،

کہاں گیا وہ چینی فلسفہ کہ لیڈر ٹھیک ہو تو نیچے سب خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے؟

کہاں گیا وہ دعویٰ کہ سب چور ڈاکو مل بھی جائیں تو بھی نہیں چھوڑوں گا؟

کہاں گیا وہ تکبر کہ مجھے کوئی جھکا نہیں سکتا؟ این آر او نہیں دوں گا؟

نواز شریف سب سے بڑا چور ہے، جسے مشرف نے بھگا دیا؟

زرداری، نواز ملے ہوئے ہیں؟

اب اگر بلاول کہے کہ خان اور نواز لاہوری ہونے کی وجہ سے ملے ہوئے ہیں تو کیا جواب دیں گے؟

اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ اگر نواز شریف جس نے خود گرفتاری دی کو خان ایک سال سے زائد جیل میں رکھ کر پھوٹی کوڑی کی کرپشن ثابت نہ کر سکا جو اس کی زندگی کا واحد مقصد معلوم پڑتا تھا تو اس شخص سے آئندہ کس کامیابی کی امید ہو سکتی ہے؟ یا تو مانیں نواز کرپٹ نہیں تھا اس لئے آپ نے ” رحم کیا “، اگر کرپٹ تھا تو پھر ثابت کیوں نہ کر سکے۔ ورنہ آپ کی شعوری سطح پر بہت نیچے گر کر سوچیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ عمران خان نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا لفافہ پکڑ لیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ اگر نواز شریف جس نے خود گرفتاری دی کو خان ایک سال سے زائد جیل میں رکھ کر پھوٹی کوڑی کی کرپشن ثابت نہ کر سکا جو اس کی زندگی کا واحد مقصد معلوم پڑتا تھا تو اس شخص سے آئندہ کس کامیابی کی امید ہو سکتی ہے؟ یا تو مانیں نواز کرپٹ نہیں تھا اس لئے آپ نے ” رحم کیا “، اگر کرپٹ تھا تو پھر ثابت کیوں نہ کر سکے۔ ورنہ آپ کی شعوری سطح پر بہت نیچے گر کر سوچیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ عمران خان نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا لفافہ پکڑ لیا ہے۔
جہالت کے قطب منار لفافوں کو یہ معلوم نہیں کہ میاں صاحب پر کیسے آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے کرپشن کا نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
میڈیا: نوازشریف مررہاہے
اپوزیشن: نوازشریف مررہاہے
عدالت: حکومت نوازشریف کی زندگی کی ضمانت دے
حکومت: 7 ارب روپےکی ضمانت دیں کہ واپس آئینگے،پھرجانےدینگے
عدالت:50روپےکےاسٹامپ پیپرپہ لکھ کردوواپس آوگےاورچلےجاو
میڈیا/اپوزیشن/عدالت: عمران خان نےجانےدیاہے
اوئےہوئے بوٹا کی کرے ہن دسو؟
 
میڈیا: نوازشریف مررہاہے
اپوزیشن: نوازشریف مررہاہے
عدالت: حکومت نوازشریف کی زندگی کی ضمانت دے
حکومت: 7 ارب روپےکی ضمانت دیں کہ واپس آئینگے،پھرجانےدینگے
عدالت:50روپےکےاسٹامپ پیپرپہ لکھ کردوواپس آوگےاورچلےجاو
میڈیا/اپوزیشن/عدالت: عمران خان نےجانےدیاہے
اوئےہوئے بوٹا کی کرے ہن دسو؟

سو لفظوں کی کہانی
عمران : نہیں چھوڑوں گا!
نواز شریف کے ڈاکٹر: نوازشریف کی طبیعت خراب ہے
حکومت: بکواس
حکومتی ڈاکٹر: نواز شریف کی طبیعت واقعی خراب ہے۔
عدالت: حکومت نوازشریف کی زندگی کی ضمانت دے
عمران : (سرگوشی: کہیں مرا مرا گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے) انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جانے دیتے ہیں۔
یوتھیے: آپ تو کہتے تھے نہیں چھوڑوں گا؟
حکومت: 7 ارب روپےکی ضمانت دیں کہ واپس آئینگے،پھرجانےدینگے
عدالت: یہ غیر قانونی ہے۔
عمران نیازی: عدالت نے جانے دیا
عدالت: بکواس! حکومت نےخود جانےدیاہے
مورال: بار بار یو ٹرن اچھا نہیں!
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
میڈیا: نوازشریف مررہاہے
اپوزیشن: نوازشریف مررہاہے
عدالت: حکومت نوازشریف کی زندگی کی ضمانت دے
حکومت: 7 ارب روپےکی ضمانت دیں کہ واپس آئینگے،پھرجانےدینگے
عدالت:50روپےکےاسٹامپ پیپرپہ لکھ کردوواپس آوگےاورچلےجاو
میڈیا/اپوزیشن/عدالت: عمران خان نےجانےدیاہے
اوئےہوئے بوٹا کی کرے ہن دسو؟
ہواؤں کا رخ بدلتا رہتا ہے اور اس میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں! وہ دن دور نہیں کہ جب سب متوالوں، جیالوں، رکھوالوں، بیماروں، وغیرہ وغیرہ کی آنکھوں کا تارا یہی عدالتیں بننے والی ہیں جن کو وہ پچھلے دو تین سال سے گالیاں بک رہے تھے!

اور مجھے یہ بھی پوری امید ہے کہ آپ کا رول بھی "ریورس" ہو جائے گا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ور مجھے یہ بھی پوری امید ہے کہ آپ کا رول بھی "ریورس" ہو جائے گا۔ :)
کیسا ریورسل؟ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کی عدالتوں نے ہمیشہ شریف خاندان کو خاص ریلیف فراہم کیا ہے۔ اس خاندان کو طیارہ سازش کیس سے لے کر پاناما کیس تک ملنے والی تمام قانونی سزائیں معطل ہوئی یا اسٹیبلشمنٹ سے پس پردہ ڈیلیں کر کے پورے پورے کیس ہی عدالت سے خارج کر وا دئے گئے۔
اس کے برعکس بھٹو پھانسی چڑھا، شیخ رشید، زرداری اور دیگر سیاست دان کئی کئی سال متواتر جیلوں میں رہے۔ جبکہ یہ بادشاہ سلامت نواز شریف دو ماہ جیل میں تو دو ماہ بیماریوں کا ڈرامہ کرکے جیل سے باہر۔
ملک میں ایسی کوئی پرو نواز ہوا نہیں چل رہی۔ شریف خاندان ماضی میں بھی ایسے ہی عدالتی کیسز سے بھاگتا چلا آیا ہے اور اب بھی کچھ نیا نہیں ہو رہا۔
 

جاسم محمد

محفلین
سو لفظوں کی کہانی
عمران : نہیں چھوڑوں گا!
نواز شریف کے ڈاکٹر: نوازشریف کی طبیعت خراب ہے
حکومت: بکواس
حکومتی ڈاکٹر: نواز شریف کی طبیعت واقعی خراب ہے۔
عدالت: حکومت نوازشریف کی زندگی کی ضمانت دے
عمران : (سرگوشی: کہیں مرا مرا گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے) انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جانے دیتے ہیں۔
یوتھیے: آپ تو کہتے تھے نہیں چھوڑوں گا؟
حکومت: 7 ارب روپےکی ضمانت دیں کہ واپس آئینگے،پھرجانےدینگے
عدالت: یہ غیر قانونی ہے۔
عمران نیازی: عدالت نے جانے دیا
عدالت: بکواس! حکومت نےخود جانےدیاہے
مورال: بار بار یو ٹرن اچھا نہیں!
جب بیماری اصلی ہو تو علاج بھی اصل ہی ہے ہوتا ہے۔ اس شریف خاندان کی دولت، سیاست کے ساتھ ساتھ بیماریاں بھی جعلی ہیں۔ کل حسین نواز فرما رہے تھے کہ نواز شریف کے علاج کو “خفیہ” رکھا جائے گا۔ اس سلسلہ میں میڈیا ان کی مدد کرے :)
یعنی جس جان لیوا اور سنگین بیماری کا پورے میڈیا میں ڈھونگ رچا کر گاڈ فادر کو ملک سے فرار کر وایا گیا۔ اب اس کا علاج خفیہ ہوگا۔ تمام جہالت اس قوم پر ختم ہوتی ہے۔
 
Top