ہمارے ڈرامے: ایک تجزیہ

جاسم محمد

محفلین

ہمارے ڈرامے: ایک تجزیہ —– محمد مدثر احمد
'ں کا معیار گر گیا ہے۔ موضوعات کی کمی ہے۔ سکرپٹ پر محنت نہیں کی جا رہی۔ معیاری ڈائیلاگ بھی سننے کو نہیں ملتے، سارا زور گلیمر پر ہے۔ نا ظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے نت نئے تجربے کیے جاتے ہیں۔ خواتین کو بطور ٹارگٹ آڈیئنس سامنے رکھا جاتا ہے۔ کردار، روایتی اور یک رخے پیش کئے جاتے ہیں۔ بدتمیز اور بے حس ساس تمام چودہ اقساط میں مستقل مزاجی سے ایک ہی انداز میں پیش ہوتی ہے۔ کبھی اس کی کسی خوبی یا نیکی کا ذکر نہیں ملتا۔ ہیرو یا اُس کا نیک دل باپ شرافت اور وضع دار ی بغیر کسی جھول یاوقفے کے لگاتار نبھاتے رہتے ہیں۔ ہیروئن کی سہیلیاں ہمیشہ اس سے کم خوبصورت ہوتی ہیں۔ ہیرو اپنے دوستوں کے لیے کائنات کا مرکز ومحور ہوتا ہے اور وہی سسپنس، کہانی میں اُتار چڑھائو، وڈیرہ، شاہ جی، چوہدری اور چودہرائن۔
مڈل کلاس فیملیز کے روزگار اور رشتوں کے مسائل، کلاس فیلو،خالہ کی بیٹی، مولوی صاحب کی بیٹی، بے حس باپ، ظالم شوہر، مکّار عورتیں، دفتر کا خوش رنگ مخلوط ماحول وغیرہ وغیرہ۔ بات گھوم پھر کر وہیں آ رکتی ہے۔ کوئی قابلِ ستائش تخلیقی کام نظر نہیں آتا۔ مقدار معیار پر حاوی ہے۔ گلیمر محنت پر بازی لئے ہوئے ہے۔ ڈرامے کاروباری لحاظ سے کامیاب مگر فنی لحاظ سے ناکام اور نا مکمل ہیں۔نئے موضوعات میں جدت پسندی اور بنیاد پرستی باہم دست وگریبان نظر آتے ہیں۔
ایسے ڈراموں میں عام طور پر ایک تعلیم یافتہ عورت اپنے باپ یا خاندان کے قدیم روایتی نظریات کو چیلنج کرتی ہوئی نظر آتی ہے، مصنف واضح طور پر جانبدرانہ روّیہ اختیار رکھتا ہے۔ مظلوم جدید تعلیم یافتہ عورت ایک مثبت اور قابلِ تقلید کردار کے طور پر بڑے نصابی انداز میں پیش کی جاتی ہے۔ دیگر بنیاد پرست نظریات رکھنے والے کردار لازمی طور پر جارح، جذباتی اور کم فہم دکھانے پڑتے ہیں۔ ایسے کردار لباس بھی بڑی ثابت قدمی سے تمام اقساط میں صرف شلوار قمیض ہی پہنتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کی با پردہ بیٹی ایک گھٹن زدہ ماحول میں رہتے ہوئے بھی اعلیٰ تعلیم تک رسائی اختیار کرکے فرسودہ خیالات کو مسترد کر دیتی ہے لیکن اس گھرانے کے مرد حضرات تعلیم حاصل کرنے اور کوٹ پتلون پہننے سے محروم ہی رہتے ہیں۔ ان حضرات کے استعمال کی اشیاء بھی مخصوص قسم کی ہوتی ہیں۔ جیسے یہ ہمیشہ جیپ یا ڈبل کیبن گاڑی ہی استعمال کریں گے اور کبھی عام قسم کی گاڑی استعمال نہیں کرتے وغیرہ۔
ہمارے ڈرامہ نگاروں کو بھارتی فلم سازوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مجھے فلم سنسر بورڈ میں بطورِ وائس چیئرمین خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا۔ اس دوران مختلف ممالک کی فلموں کا پاکستانی ڈراموں اور فلموں سے موازنہ کیا۔ بھارتی فلموں کی ایک نمایاں خوبی موضوعات کا تنوع اور نت نئے تجربات تھے۔
بھارتی فلم ساز زیادہ بولڈ اور زرخیز دکھائی دیتا ہے۔ کرداروں پر بھر پور محنت کی گئی ہے۔ موضوعات کی وسیع دنیا ہے۔ تجربات کی کمی نہیں۔ موٹی ویشنل فلموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان فلموں نے اپنے سماج، مذہب اور حکومت کو کھلے عام چیلنج کیا۔ سنسر بورڈ کی سختیاں جھیلیں، عوامی ردِّعمل کا سامنا کیا لیکن تخلیقی بے ساختگی اور کمالِ فن پر سمجھوتہ کیے بغیر اپنے کام کو آگے بڑھاتے رہے اور اس میدان میں ان کی کامیابی حاصل کی۔ بھارتی فلموں کی حالیہ بیداری کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ آج سے پچیس سال پہلے یہ فلم انڈسٹری فارمولا فلموں اور روایتی سکرپٹ کی بیٹریوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ سمگلر، ٹھاکر اور مل مالک سے مزدور، کسان اور ٹیکسی والے خا ئف رہتے تھے۔ میرے خیال میں پاکستانی ڈراموں کا حالیہ فکری اور تخلیقی جمود ہمیں انڈین فلموں کے پرانے غیر متاثر کن دور کی یاد دلاتا ہے۔ شاید تخلیق کار writer’s block کی زد میں آجاتے ہیں۔ یا اس کی وجہ بین الاقوامی سیاسی رجحانات ہوتے ہیں۔ سوشلزم نے عشروں تک تخلیقی کاموں کو ایک اضافی جہت دی۔ عہد حاضر میں مغرب کی طرف سے روشن خیالی کی ایک لہر اٹھی ہوئی ہے۔ یہ سیاسی عوامل بھی خالص تخلیقی عمل کے لیے سدِّراہ بن جاتے ہیں۔
پاکستانی ڈراموں کی زبوں حالی کی ایک براہِ است وجہ اردو کے عظیم ڈرامہ نگاروں کی عدم دستیابی ہے۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، احمد ندیم قاسمی، فاطمہ ثریاّ بجیا جیسی قد آور شخصیات اب اس دنیا میں نہیں۔ مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، منو بھائی اور اصغر ندیم سیّد جیسے لوگ ڈراموں کے لیے وقت نہیں نکال پا رہے اس خلا کو پر کرنے کے لیے عمیرہ احمد، فرحت اشتیاق، ہاشم ندیم اور کچھ دوسرے قلم کار میدان میں تو ضرور اترے لیکن ان کے قلموں نے ابھی نئی جولانیوں کو چھونا ہے۔ نئی وسعتوں کو پانا اور گہرائیوں کو ماپنا ہے۔ ابھی سفر بڑا لمبا ہے۔
مصنف کی کتاب ’سوچ سرائے‘ سے انتخاب
 
Top