ہمارے اسلاف کی دانشمندانہ تحریریں

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

سو کتابیں ماہرین علوم و فنون سے پڑھنے کے بعد تجھے جو علم حاصل ہوگا، اس سے وہ سبق بہتر ہے جو کسی بزرگ کے فیضان صحبت سے لیا جائے، بزرگوں کی نظر سے جو شراب ٹپکتی ہے اس سے ہر شخص اپنے مخصوص انداز میں مست و سرشار ہوتا ہے۔ صبح کی ہوا جب چلتی ہے تو چراغ گل ہو جاتا ہے مگر اسی ہوا سے لالہ اپنے پیالے میں شراب انڈیل دیتا ہے۔ (سرخ ہو کر دمکنے لگتا ہے)،(اگر اہل نظر کی ہدایت چاہتا ہے تو) کم کھا، کم سو اور بولنا بھی کم کردے، پرکار کی طرح خود اپنی شخصیت کے گرد چکر کاٹتا رہ (تمام تر توجہ اپنی خودی پر مبذول کردے) ملا کے نزدیک خدا کا منکر کافر ہے اور میرے نزدیک جو اپنی خودی کا منکر ہو زیادہ بڑا کافر ہے۔ خدا کے وجود سے انکار کرنے والا تو صرف حد درجہ جلد بازی کا مجرم ٹھہرے گا مگر جس نے خودی سے انکار کر دیا وہ تو حد درجہ جلد باز بھی ہے اور بڑا ظالم اور بڑا جاہل بھی۔ اخلاص کا طریقہ بڑی مضبوطی سے اختیار کر، بادشاہوں اور امیروں کا خوف دل سے نکال دے، قہر ہو یا رضا، دونوں صورتوں میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ مفلسی اور امیری، دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہ۔ اگر کسی حکم کی تعمیل مشکل ہے تو اس کے لیے تاویلیں تلاش نہ کر، اپنے ضمیر کی روشنی کے سوا کسی اور قندیل کی روشنی کا جویا نہ ہو، جانوں کا تحفظ مسلسل و بے حساب ذکر و فکر سے کام لیا جائے، زمین و آسمان پر حکومت کرنے کی بس یہی صورت ہے کہ جان اور جسم کی حفاظت مذکورہ بالا اصول پر کی جائے۔ سفر کا مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ گھومنے پھرنے کی لذت حاصل ہو، اگر تیری نظر اڑتے وقت بھی اپنے آشیانہ پر لگی ہوئی ہے تو پرواز ہی کیوں کرتا ہے؟ (سکون چاہتا ہے تو ترقی کا نام نہ لے) چاند اس لیے گردش میں ہے کہ اپنا مقام حاصل کر لے (ہلال سے بدر ہو جائے) مگر آدمی کے سفر کی منزل مقصود تو یہی ہے کہ وہ برابر چلتا رہے (ایک مقام سے دوسرے مقام کا سلسلہ لامتناہی جاری رہے) پرواز میں جو لذت ہے اسی کا نام زندگی ہے، کسی آشیانے میں قیام کرکے بیٹھ جانا انسان کی فطرت کے لیے سازگار نہیں، کووں اور گدھوں کا رزق قبروں کے اندر ہوتا ہے مگر بازوں کا رزق چاند اور سورج کی فضاؤں میں ہے۔
××××××​
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

دین کا راز اسی میں ہے کہ آدمی سچ بولے، حلال روزی کھائے اور خلوت میں ہو یا جلوت میں ہر وقت جمال حقیقی کا نظارہ کرتا رہے۔ (اے بیٹے) دین کے راستہ میں ہیرے کی طرح سخت ہو کر زندگی بسر کر، دل کا رشتہ خدا کے ساتھ باندھ لے، پھر بے خوف و خطر جیے جا، دین کے رازوں میں سے ایک راز تجھے بتاتا ہوں (گجرات کے بادشاہ سلطان) مظفر کی داستان سن۔ وہ پرہیز گاری میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا، ایسا بادشاہ تھا کہ بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے مرتبہ پر پہنچا ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اسے بیٹوں کی طرح عزیز تھا اور لڑائی میں مالک کی طرح سختی اور محنت برداشت کرنے کا عادی تھا۔ یہ گھوڑا عربی نسل سے تھا۔ اصیل اور سبزہ رنگ، وفادار اور بے عیب، اس کے حسب نسب میں کہیں کھوٹ نہیں تھی۔ اے نکتہ رس! مومن کے لیے قرآن، تلوار اور گھوڑے کے سوا دوسری کیا چیز عزیز ہو سکتی ہے؟ وہ گھوڑا جو اچھے اور اصیل گھوڑوں میں بہترین تھا، اس کی تعریف میں کیا بیان کروں، وہ پہاڑوں اور دریاؤں پر اڑا چلا جاتا تھا۔ لڑائی کے وقت وہ گھوڑا تیز و تند ہوا کی طرح، نظر سے بھی زیادہ مستعدی کے ساتھ، پہاڑوں کی بلندی اور اطراف و جوانب میں چکر کاٹتا تھا، اس کے قدموں میں قیامت کے فتنے پوشیدہ تھے اور اس کے سموں کی چوٹ سے پتھر پاش پاش ہو جاتے تھے۔ وہ چوپایہ جو انسانوں کی طرح ذی عزت تھا، اس کے پیٹ میں ایک دن درد اٹھا جس کی وجہ سے وہ کمزور و غمگین ہو گیا، ایک سلوتری نے اس کا علاج شراب سے کیا اور بادشاہ کے گھوڑے کو تکلیف سے نجات دلا دی۔ اس کے بعد بادشاہ نے اس اصیل گھوڑے کو کبھی اپنی سواری کے لیے طلب نہ کیا، متقی و پرہیزگار لوگوں کی شریعت ہم جیسے عام لوگوں کی شریعت سے مختلف ہوتی ہے (بیٹے!) خدا تجھے قلب و جگر کی باطنی کیفیتیں عطا کرے! دیکھ ایک مرد مسلمان نے خدا کی اطاعت کا حق کس طرح ادا کیا۔
××××××​
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

دین یہی ہے کہ حق کی طلب و جستجو کے لیے اپنے وجود کو جدوجہد کی آگ میں جھونک دیا جائے، دین کا آغاز ادب سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا عشق ہے، پھول کی عزت و آبرو اس کے رنگ اور اس کی خوشبو کے باعث ہے۔ جس کسی میں ادب نہیں وہ بے رنگ و بو ہے، اس لیے اس کی کوئی آبرو نہیں، جب کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو میری یہ حالت ہو جاتی ہے جیسے میرا دن، رات کی طرح تاریک ہوگیا ہو، میرے سینہ میں تپش بڑھ جاتی ہے اور میرے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ میں اپنے زمانے میں پشیمان ہو کر گزرے ہوئے زمانوں میں روپوش ہو جاتا ہوں (اسلام کا معیار ادب یہ تھا کہ) عورت کا ستر اس کا شوہر ہے یا قبر کی مٹی اسے چھپا سکتی ہے اور مرد کا ستر یہ ہے کہ وہ برے دوست کی صحبت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ کافر اور مومن دونوں خدا کی مخلوق ہیں، کسی کے لیے بری بات زبان سے نکالنا گناہ ہے۔ آدمیت یہی ہے کہ ہر آدمی کا احترام بحیثیت آدمی ہونے کے کیا جائے، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ آدمی کا مقام کس قدر بلند ہے (تمام مخلوقات سے اشرف ہے) آدمیت کا دارومدار اسی پر ہے کہ ہر فرد کا ربط و ضبط قائم رہے۔ اس لیے تجھے چاہیے کہ دوستی کا طریقہ اختیار کرے، جو شخص عشق کا بندہ ہو جاتا ہے وہ اپنا راستہ خدا کے احکام سے حاصل کرتا ہے اور خدا کے پیدا کیے ہوئے مومنوں اور کافروں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے۔ تو کفر اور دین دونوں کو اپنے دل کی پنہائی میں سمیٹ لے، دل اگر دل ہی سے گریز کرنے لگے تو اس کی حالت قابل افسوس ہے، اگرچہ دل مٹی اور پانی کے قید خانہ میں بند ہے، (جسم کے اندر محدود ہے) مگر ساری کائنات دل ہی کی کائنات ہے۔
××××××​
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

اگرچہ تو گاؤں کے مالکوں میں سے ہو جائے لیکن فقر (قناعت و رضا جوئی) کی زندگی اختیار کر اور اسے کبھی ہاتھ سے نہ دے۔ خدا کا عشق، تیری جان کے اندر خوابیدہ ہے، یہ پرانی شراب تجھے آباء و اجداد سے ورثہ میں ملی ہے۔ دنیا میں درد دل (عشق حقیقی) کے سوا اور کوئی ساز و سامان طلب نہ کر، جو نعمت تجھے چاہیے وہ خدا سے مانگ، حکمرانوں سے نہ مانگ، بہت سے حق شناس اور بصیرت رکھنے والے لوگ نعمتوں کی کثرت یعنی دولت و ثروت کی بہتات کے باعث اندھے ہو جاتے ہیں۔ دولست کی کثرت دل کا سوز و گداز اڑا لیتی ہے، غرور پیدا کرتی ہے اور نیاز مندی کا جذبہ مٹا دیتی ہے۔ میں نے سالہا سال دنیا کی سیر کی ہے مگر مجھے امیروں کی آنکھوں میں آنسو بہت کم نظر آئے ہیں (دولت مند اکثر رقت قلب سے محروم ہوتے ہیں) میں اس کے قربان جس نے اپنی زندگی درویش صفت گزاری، جو شخص خدا سے بیگانہ ہو کر جیا اس کے جینے پر ہزار افسوس ہے۔
××××××​
اب مسلمانوں میں بھی وہ پہلے کا سا ذوق و شوق، وہ یقین اور ادب و عشق تلاش نہ کر۔ اب جو لوگ عالمان دین کہلاتے ہیں وہ قرآن کی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں اور جنہیں صوفی سمجھا جاتا ہے وہ پھاڑ کھانے والے بھیڑئیے ہیں جن کے بال بڑھے ہوئے ہیں، اگرچہ خانقاہوں کے اندر ہائے و ہو کا شور بہت مچا ہوا ہے مگر وہ کون سا جواں مرد ہے جس کے تونبے میں شراب معرفت نظر آتی ہو۔ وہ مغرب زدہ مسلمان بھی، جو ہر مسئلہ میں یورپ کی طرف رجوع کرتے ہیں، سراب میں چشمہ کوثر تلاش کرتے ہیں۔ یہ سب کے سب دین کے رازوں سے بے خبر ہیں اور کینہ پروری کے سوا انہیں کوئی اور کام نہیں۔ مسلمانوں کے طبقہ خواص (مقتدر و تعلیم یافتہ حضرات) پر خیر و خوبی حرام ہو چکی ہے، صدق و صفا اگر کہیں باقی ہے تو وہ صرف عوام میں ہے۔ تو دین داروں اور کینہ پروروں کی امتیازی خصوصیات کو دیکھ اور جو کوئی حق پر چلنے والا ہو اسے تلاش کر، اسی کی صحبت اختیار کر، گِدھوں کے اڑنے جھپٹنے کے طور طریقے کچھ اور ہوتے ہیں اور شاہین کی سطوت پرواز کا عالم کچھ اور ہوتا ہے (گِدھ اہل کین سے مشابہ ہے اور شاہین اہل دین سے)۔
××××××​
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)
مرد حق آسمان سے بجلی کی طرح گرتا ہے اور مشرق و مغرب کے شہروں اور جنگلوں میں باطل کا جو طومار ہوتا ہے وہ سب اس کی آگ کا ایندھن بن جاتا ہے۔ ہم ابھی تک کائنات کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور "مرد حق" کائنات کے انتظام و اہتمام میں شریک کار بنا ہوا ہے۔ مرد حق کلیم (حضرت موسیٰ علیہ السلام)، مسیح (حضرت عیسیٰ علیہ السلام)، خلیل (حضرت ابراہیم علیہ السلام)، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، قرآن اور جبرائیل کا وظیفہ ادا کرتا ہے۔ مرد حق، اہل دل کی کائنات کا آفتاب ہوتا ہے، اسی کی تنویر سے ان کی زندگی قائم رہتی ہے۔ ( اس کا طریق کار یہ ہے کہ) وہ پہلے تجھے اپنی آگ میں تپاتا ہے (تیرے کردار کو فطرت کے سانچے میں ڈھالتا ہے) پھر تجھے حکمرانی کے طریقے سکھاتا ہے۔ ہم سب اسی کے دئیے ہوئے سوز عشق سے اہل دل بن گئے ہیں ورنہ (ہماری کیا حقیقت ہے) ہم سب مٹی اور پانی سے بنے ہوئے نقوش باطل ہیں (بیٹے) میں اس زمانے سے ڈرتا ہوں جس میں تو پیدا ہوا ہے، (اس زمانے کے لوگ) جسم (کے عادی احساسات) میں غرق ہیں اور جان (کیفیات عشق) سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں، جب جانوں کا قحط پڑ جاتا ہے (روحانیت کم ہو جاتی ہے) اور بدن ارزاں ہو جاتے ہیں (مادیت بڑھ جاتی ہے) تو "مرد حق" خود اپنے اندر چھپ جاتا ہے۔ پھر جستجو سے بھی وہ "مرد حق" نہیں ملتا۔ نظر کے سامنے ہوتا ہے مگر دکھائی نہیں دیتا۔ (قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر معانی سے ذہن نا آشنا رہتا ہے) مگر تو ذوق طلب ہاتھ سے نہ دے خواہ تیرے کام میں سینکڑوں دشواریاں کیوں نہ پیش آئیں۔ اگر تجھے کسی مرد باخبر کی صحبت نصیب نہ ہو تو میرے پاس آباء اجداد کے ورثہ میں سے جو کچھ ہے اسی کو حاصل کر لے۔ اس راہ میں مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کو اپنا رفیق سفر بنا لے تاکہ ان کے وسیلے سے خدا تجھے سوز و گداز کی نعمت عطا کر دے، (مثنوی مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ سے استفادہ کر) کیونکہ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ مغز اور چھلکے میں امتیاز کر سکتے ہیں، راہ حق میں ان کا جو قدم پڑتا ہے بڑا محکم پڑتا ہے (وہ اس کوچہ سے خوب واقف ہیں) مثنوی کی شرح کرنے والے تو بہت سے ہیں مگر اس کے حقیقی معنی ہماری گرفت سے نکل گئے۔ مولانا کی مثنوی سے (ان کے مریدوں نے) جسمانی رقص سیکھ لیا، رقص جاں (سرور عشق) کی طرف سے انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ بدن کا رقص تو صرف مٹی کو گردش میں لاتا ہے مگر جان کا رقص افلاک کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ علم و حکمت کے خزانے اور دنیا پر حکمرانی کے طریقے رقص جاں ہی سے حاصل ہوتے ہیں، اسی سے زمین و آسمان ہاتھ آتے ہیں، رقص جاں کے ذریعہ، فرد، جذب کلیم اللہ حاصل کرلیتا ہے اور قوم، ایک عظیم ملک کی وارث بن جاتی ہے۔ مگر رقص جاں کو سیکھنا بڑا کٹھن کام ہے، حق کے سوا جو کچھ ہے، اسے جاکر پھونک دینا (خواہشات باطل کو ترک کر دینا)، کوئی آسان بات نہیں۔ اے بیٹے! جب تک تیرا جگر حرص دنیا اور غم ماسوا کی آگ میں جلتا رہے گا اس وقت تک جان رقص میں نہیں آئے گی، دنیا کی فکر میں ہر وقت لگے رہنا اور اسی کا غم کرنا، ایمان کی کمزوری اور دل کی بیماری کا باعث ہوتا ہے، اے نوجوان! غم آدھا بڑھاپا ہے، کیا تو یہ جانتا ہے کہ حرص ایک ایسا افلاس ہے جو ہر وقت موجود رہتا ہے؟ (حریص کبھی مطمئن نہیں ہوتا) میں تو اس کا غلام ہوں جو اپنی خواہشات پر قابو رکھتا ہے۔ (بیٹا) تیرا وجود میری جان بے قرار کے لیے موجب تسکین ہے، کاش تجھے بھی رقص جاں سے کوئی حصہ مل جائے تو میں تجھے دین مصطفٰی ﷺ کا راز بتا دوں گا اور قبر کے اندر بھی تیرے لیے دعا کروں گا۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
شاہجہاں کا اورنگ زیب کو ملاقات کے لیے قلعے میں طلب کرنا

فرزند برخوردار و خوش نصیب!
وہ مالک الملک، جس کی شان بہت بلند ہے اور جس کی مملکت تغیر و زوال سے محفوظ ہے تمہارے کوکبئہ اقبال کو اسی طرح درخشاں رکھے، جیسے کہ شبستان دولت کو فروغ بخشنے والا اور سارے جہان کی تابانی کو چار چاند لگانے والا ستارہ روشن ہے۔
آسمان عجوبہ کار کی کج روی اور زمانہ شعبدہ باز کی ناسازگاری نے ہمیں خود اپنی آنکھوں سے ایک ایسی بات دکھائی ہے جو نہ تصور میں آتی ہے اور نہ عقل اسے کسی طرح قبول کرتی ہے۔ اے فرزند اقبال مند و بلند بخت! تم نے فرزندی کے رشتہ الفت کو دفعتاً کاٹ دیا ہے اور سینہ اقدس میں جو آتش شوق بھڑک کر شعلہ بن رہی ہے، اسے نظر انداز کر دیا ہے، پدرانہ حقوق اور عمر بھر کی تربیت سے آنکھیں بند کر لی ہیں اور ہمیں اپنا دشمن قرار دے کر اذیت و تکلیف پہنچانا سہل اور آسان سمجھ لیا ہے۔ قیامت کے دن کی باز پرس سے غافل و بے خبر ہو گئے ہو، لیکن اس دن، جب تمام اعمال کا حساب ہوگا، تو تم اس کا کیا جواب دو گے، کہ تمہیں ارتکاب حق شکنی کی جرات کیسے ہوئی؟
فرزند! تم جو دولت و بادشاہی کی آنکھ کا تارا ہو، تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ اپنی بہادری و فتح مندی پر مغرور نہ ہو اور سازگاری زمانہ و رفاقت روزگار پر بھروسا نہ کرو۔ یہ رنگا رنگ آسمان اور یہ دو رخی دنیا قطعاً لائق اعتماد نہیں اور اس بد عہد و پیمان زمانے سے کبھی وفا کی امید نہ رکھنی چاہیے۔
اس صورت میں عقل کا تقاضا یہ ہے کہ جو کام اس عالی شان خاندان کے اضمحلال و پراگندگی کا باعث ہو، اس کے ارتکاب سے پرہیز واجب سمجھا جائے اور ہماری اتنے سال کی سلطنت جس کی عظمت و شوکت اور تونگری و اقتدار کا ڈنکا چار دانگ عالم بج رہا تھا اور جس سے روئے زمین کے سارے فرمانروا دوستی کے خواہاں ہوتے تھے، اس کے ناموس کی حفاظت کے لیے کوشش کی جائے، تمہیں چاہیے کہ ان امیدوں کے مطابق عمل کرو جو لائق بیٹوں سے وابستہ کی جاتی ہیں تاکہ گلشن جاہ و جلال کے ایک ثمر نورستہ (نوجوان شاہزادے) کی نیک نامی اور قابلیت کا چرچا تمام دنیا میں قائم و دائم رہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
مرزا غالب کا اپنے متبنیٰ اور اس کے بیٹوں سے اظہار شفقت و محبت

ذیل کا قطعہ کلیات غالب فارسی سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
"وہ اچھی خصلت والا جس کا نام عارف ہے، اس کا چہرہ میرے گھرانے کی شمع ہے۔ قلم، اس کا نام لکھنے کی مسرت سے میری انگلیوں کی پوروں میں رقص کرنے لگتا ہے۔
جو قرب کی مجلس اور انس کی خلوت میں میرا غم گسار اور مزاج داں ہے۔ میری کامرانی کے بازو میں زور اسی کے دم سے ہے اور وہی میری ناتواں روح کے لیے موجب راحت ہے۔
الفت و محبت میں علی پر جان و دل سے قربان ہے ایسا کیوں نہ ہو؟ کہ وہ تو میری جان ہے۔ میں تیرے رخ زیبا کا بہت زیادہ مشتاق ہوں کیونکہ یہ میرے باغ کا پھول ہے۔
میں تیرے قلم سے بھی خوش ہوں، بہت خوش کیونکہ یہ میرا پھل دینے والا پودا ہے۔ تو میرے کمال فن کے سرمایہ (کی اصل) کا نفع ہے تیرا کلام میرا بیش بہا خزانہ ہے۔
بجا ہے کہ تو اپنی ذات پر ناز کرے، کیونکہ تیرا ظہور میرے عہد میں ہوا۔ بجا ہے کہ میں اپنے اوپر ناز کروں، کیونکہ فلاں (عارف) شعر و ادب میں میرے نقش و قدم پر چلنے والوں میں ہے۔
یقین رکھ اگر تیرا کوئی مثل میرے گمان میں ہے تو وہ خود میرے سوا کوئی نہیں۔ تو ہمیشہ نامور رہ کہ دنیا میں تیرا کلام میری عمر جاوداں ہے۔
اردو جو میری زبان ہے اس تو ہی میرا وارث بنے گا۔ خالق موجودات کے عطا کردو علم و حکمت میں سے جو کچھ میری ملک ہے وہ خدا کرے تیری ملک ہو جائے۔"
غالب کو عارف سے غایت درجہ محبت تھی مگر افسوس کہ اس کی عمر نے وفا نہ کی اور 1852؁ء میں عالم جوانی میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اس کا نوحہ غالب کے اردو دیوان میں موجود ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
مولانا حالی کی بیوی کی وفات پر بیٹے کو تلقین صبر

"برخوردار، سعادت آثار، طال عمرہ،
بعد دعا کے واضح ہو کہ یہاں پندرہ بیس روز سے ہیضہ کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور روز بروز زیادہ ہوتی جا رہی ہے چنانچہ پرسوں تمہاری والدہ کو دس بجے رات کے اس کا اثر ہوا اور کل نو بجے رات کے انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اگرچہ اس حادثہ نا گہانی سے جو صدمہ سب عزیزوں، متعلقین، ہمسایوں اور راہ چلتوں کو ہوا ہے، اس کا بیان کرنا مشکل ہے اور میں سمجھتا ہوں ان کی اولاد کو سب سے زیادہ صدمہ ہوا ہے اور ہوگا مگر میری جان! والدین کا اولاد کے سامنے گزر جانا، والدین کی خوش نصیبی اور اولاد کا قدیم ورثہ ہے، خدا کا شکر ہے کہ تمہاری والدہ کی جیسی عمدہ زندگی اور عمدہ موت ہوئی ہے، اس کی ہر شخص کو تمنا ہونی چاہیے، انہوں نے سعادت مند اولاد چھوڑی ہے اور ان کو بفظلہ تعالیٰ اچھی حالت میں چھوڑا ہے۔ ایک زمانہ کو اپنا مدح و ثنا خواں اور شکر گزار چھوڑا ہے۔ وہ اپنی اصلی اور حقیقی نیکیوں کی ایک عمدہ مثال تھیں۔ انہوں نے ہر ادنیٰ و اعلیٰ کی خدمت گزاری سے مخدومیت کا درجہ حاصل کیا اور آخر وقت میں جب تک ان کو ہوش رہا برابر خدا کی یاد ان کے ورد زبان رہی، جس شخص کی ایسی عمدہ زندگی اور ایسی عمدہ موت ہے اس سے زیادہ اور کون خوش نصیب ہو سکتا ہے اور اس کی اولاد کے لیے اس سے زیادہ اور کیا فخر کی بات ہو سکتی ہے؟ پس ان تمام باتوں پر نظر کرکے، امید ہے کہ تم صبر اختیار کرو گے۔ زیادہ سوائے دعا اور صبر و شکر کی تاکید کے اور کیا لکھوں۔
راقم الطاف حسین از پانی پت​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
دہلی کے ایک فلسفی ادیب کی بیٹے پر اپنی آخری تمنا کا اظہار

بیٹا!
میری ایک آرزو یہ ہے کہ کتب خانہ والا مکان تکلف سے آراستہ ہو جائے اور میں دن رات وہیں پڑا رہوں، تم اگر ساتھ چائے پینے آ جاؤ تو کیا کہنا مگر کوئی معمولی ذکر کسی کا نہ ہو۔ کھانا، جب بھوک لگے، پکا پکایا مل جائے اور کوئی لڑکی آ کر کھلا جائے، کوئی نایاب کتاب یا چیز نظر آئے تو مجھے اتنا مقدور ہو کہ فوراً خرید لوں، رات کو بے فکر سوؤں اور صبح کو خوش اٹھوں، کوئی مسئلہ فلاسفی کا جو سمجھ میں نہ آتا ہو اسے سمجھ لوں اور دوسروں کو سمجھا سکوں۔ دنیا کی جتنی کتابیں دل و دماغ کو خوش کر سکیں، سب میرے پاس ہوں، جاڑے میں انگیٹھی ہو اور گرمیوں میں برف، برسات میں کمرے کے اندر بیٹھا ہوں اور وہ ٹپکتا نہ ہو، رات کو جلانے کے واسطے خوب صورت موم بتی کی روشنی ہو اور جو کتاب مجھے پسند ہو وہ میرے سامنے ہو، تم اتنا سامان میرے لیے کر دو تو میں خوش مروں گا۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
طاہر بن حسین کا اپنے بیٹے عبداللہ کو ایک تاریخی مکتوب

میرے عزیز بیٹے!
میں سب سے اول تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہمیشہ خدا سے ڈرو، تم کو رات دن اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی مرضی پر چلو اور اس کے غصے سے ڈرتے اور کانپتے رہو، تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی رعیت کی نگہبانی اور حفاظت میں شب و روز سرگرم رہو، جو صحت اور تندرستی خدا نے تم کو عنایت کی ہے اس کو غنیمت سمجھو اور آخرت کو پیش نظر رکھو، یاد رکھو کہ ایک دن خدا کے حضور میں جاؤ گے اور تم سے تمہارے افعال کی نسبت سوال کیا جائے گا۔ اس لیے جو کام تم شروع کرو اسے اس طرح انجام دو کہ قیامت کے دن تم کو عذاب الہٰی میں مبتلا نہ ہونا پڑے۔
یاد رکھو کہ خدا نے تم پر احسان کیا ہے اور رعیت کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا تم پر واجب کیا ہے۔ تم خدا کے بندوں پر حکومت کرتے ہو، تم پر لازم ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کرو اور اس کا پورا پورا حق ادا کرو اور اس کی حدود سے سر مو تجاوز نہ کرو، ان کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرو، ملک میں امن و امان قائم رکھو اور اہل ملک میں عام راحت و آسودگی پھیلاؤ۔ خدا نے جو فرائض تمہارے ذمہ واجب کیے ہیں ان کے انجام دینے یا نہ دینے کی نسبت تم سے ایک ضرور باز پرس کی جائے گی اور تمہاری نیکیوں اور بدیوں کا موازنہ کیا جائے گا اور ان کا بدلہ دیا جائے گا، پس تم پر لازم ہے کہ اس بات کے سوچنے اور سمجھنے کے لیے اپنے دماغ پر زور دو اور عقل و فہم سے اچھی طرح کام لو، یہ وہ اصول ہے جس پر تمہاری زندگی کا دار و مدار ہونا چاہیے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تم کو اس اصول پر عمل کرنے کی توفیق دے اور تم اس پر عمل کرنا لازم جانو اور اپنے تمام کاموں کی بنیاد اس اصول پر رکھو۔
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)
پانچ نمازیں جو خدا نے تم پر فرض کی ہیں، ان کو ٹھیک وقت پر اور جماعت کے ساتھ ادا کرو، وضو اور طہارت کے جو شرائط ہیں ان سب کو لحاظ رکھو، نماز میں جو سورتیں پڑھو، ان کو آہستگی اور ترتیل کے ساتھ ادا کرو، رکوع اور سجدہ کرنے میں کوئی گھبراہٹ نہیں ہونا چاہیے، غرض کہ نماز کے جتنے ارکان ہیں ان سب کو نہایت اطمینان سے انجام دو، جو لوگ تمہارے مصاحبوں اور ندیموں میں داخل ہوں، ان کو بھی اس بات کی ترغیب دو کہ وہ نماز باجماعت پڑھا کریں، نماز سے، جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے، نیکیوں کی تحریک ہوتی ہے اور انسان بدیوں اور گناہوں سے محفوظ رہتا ہے، تم پر بھی لازم ہے کہ رسول خدا ﷺ کی سنت کی پیروی کرو اور خلفائے راشدین و سلف صالحین کے طریقہ زندگی کو اختیار کرو۔ جب کوئی مشکل پیش آئے تو خدا سے دعا کرو وہ تمہیں اس کے حل کرنے کی توفیق دے اور وہ پہلو سمجھائے جو سراسر نیک ہو۔ پھر اس بات کو کوشش کرو کہ وہ کام ایسے طریقہ سے انجام دیا جائے جو خدا کے احکام اور رسول اللہ کی ہدایتوں اور نصیحتوں کے خلاف نہ ہو، اس کے بعد اس کام پر ہاتھ ڈالو اور انصاف کو کبھی اور کسی معاملہ میں ہاتھ سے نہ دو۔ ہر معاملہ کا جو تمہارے عزیزوں اور دوستوں سے تعلق رکھتا ہو، یا اجنبی لوگوں کے متعلق ہو، انصاف کے موافق فیصلہ کرو، اس کا بالکل خیال نہ کرو کہ تم اس فیصلے کو پسند کرتے ہو یا ناپسند کرتے ہو۔​
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)
شریعت کے عالموں اور قرآن مجید پر عمل کرنے والوں کو سب لوگوں پر ترجیح دو اور ان کو اپنی صحبت میں شریک کرو، کیونکہ ایک انسان کے لیے جو چیز سب سے بڑھ کر مایہ ناز ہو سکتی ہے وہ دین داری اور خدا شناسی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نیکیوں اور بھلائیوں کی ہدایت کرتی ہے اور مہلک برائیوں اور بدیوں سے باز رکھتی ہے۔ جب خدا کسی انسان کو نیکی کی توفیق دیتا ہے تو وہ خدا کی عظمت اور جلال کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے اور آخر میں بلند ترین درجات پر پہنچنے کی تمنا کرتا ہے، اگر تم بھی اس ہدایت پر عمل کرو تو آخرت میں روحانی ترقی تم کو نصیب ہوگی۔ دنیا میں ہر شخص تمہارے ساتھ عزت و توقیر سے پیش آئے گا، تمہارا رعب اہل دنیا پر طاری ہوگا، وہ تمہارے ساتھ محبت و الفت سے پیش آئیں گے اور تمہارے انصاف پر بھروسہ کریں گے۔​
ہر ایک کام میں جس کو تم نے شروع کر دیا انجام دو، اعتدال کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دو اور ہمیشہ خیر الامور اوسطہا پر عمل کرو۔ افراط و تفریط سے بچنا اور ہر کام میں توسط اختیار کرنا ایسا عمدہ طریقہ ہے کہ اس سے زیادہ مفید اور عمدہ اور اطمینان بخش کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اعتدال ہدایت کی طرف رہبری کرتا ہے اور ہدایت اس بات کی دلیل ہے کہ خدا نے خوش قسمتی اور کامیابی کا منظر اس شخص کی آنکھوں کے سامنے پیش کیا ہے جو ہدایت کے طریقے پر چلتا ہے۔ اعتدال پر ہی مذہب کا دار و مدار ہے اور شریعت بار بار اسی کی تاکید کرتی ہے، تم بھی دنیا میں اعتدال و توسط اختیار کرو۔​
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)
عزیز بیٹے! تم ہمیشہ آخرت کی طلب میں رہو اور نیک کام کرنے میں ہمیشہ آمادگی ظاہر کرو اور یاد رکھو کہ نیکی میں کوشش کرنے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ نیکی کرنے سے کوئی مقصد اس کے سوا نہیں ہے کہ تم خدا کی خوشنودی حاصل کرو اور آخرت میں خدا کے دوستوں اور ا س کے نیک اور مقبول بندوں کا قرب تم کو حاصل ہو۔ اگر تم اعتدال اور توسط اختیار کرو گے تو دنیا میں تمہاری عزت ہوگی اور تم گناہوں اور بدیوں سے بچو گے، اس سے بہتر کوئی اور طریقہ ایسا نہیں ہے جس سے انسان کے تمام کام درست ہوں، پس تم کو بھی اسی طریقہ پر چلنا چاہیے تاکہ تمہارے سب کام درست ہوں اور تمہاری عزت و وقعت لوگوں کی نگاہوں میں زیادہ ہو۔​
خدا کی نسبت تم ہمیشہ نیک گمان رکھو، تمہاری رعیت بھی ہمیشہ تمہاری نسبت نیک گمان رکھے گی۔ ہر کام میں خدا سے عجز و نیاز کے ساتھ التجا کرنے کو اپنی کامیابی کا ذریعہ تصور کرو تاکہ ہمیشہ اس کی نعمتیں اور برکتیں تم پر نازل ہوں، ہر شخص کی نسبت جس کو تم کوئی کام سپرد کرو، نیک گمان کرو اور بغیر کسی معقول وجہ کے اس کے کام کی نسبت بدگمانی نہ کرو، تمہارا فرض یہ ہے کہ الزام لگانے سے پہلے ہر کام کا امتحان کرو اور اس کی حقیقت معلوم کرو، یہ میں نے اس لیے کہا کہ لوگوں کے متعلق بدگمانی کرنا اور اس پر بے جا طور سے الزام لگانا شریعت میں سخت گناہ ہے، پس تم اپنے دوستوں اور ملازموں کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن سے پیش آؤ۔ بغیر تحقیق کے کبھی ان کے کاموں کی نسبت بدگمانی نہ کرو اور ان پرالزام نہ لگاؤ۔ دیکھنا شیطان تمہارے طریق زندگی میں کوئی رخنہ پائے، ورنہ وہ تمہاری ادنیٰ کمزوری کو بھی کافی سمجھے گا اور تم کو بدگمانی میں ڈال کر غم میں مبتلا کر دے گا اور تمہارے عیش کو مکدر اور تمہاری زندگی کو تیرہ تار کر ڈالے گا۔ خوب سمجھ لو کہ حسن ظن سے ایک عجیب طاقت و راحت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر تم لوگوں کی نسبت نیک گمان رکھو گے تو تمہاری تمام خواہشیں پوری ہوں گی اور سب کام درست رہیں گے اور لوگ تم سے محبت کریں گے مگر یہ بھی خیال رہے کہ اگر محض حسن ظن پر بھروسا کرو گے اور اپنے ملازموں کے ساتھ حد سے زیادہ مروت اور مہربانی سے پیش آؤ گے اور ان سے باز پرس نہیں کرو گے اور اپنے کاموں پر نظر نہیں رکھو گے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ تمہارے ہر انتظام میں خلل آ جائے گا اور تمہارا ہر کام درست نہیں ہوگا، تمہارا فرض ہے کہ اپنے ماتحتوں اور ملازموں کے کاموں پر نظر رکھنے اور رعیت کے باب میں احتیاط کرنے اور ان کی اصلاح و بہبود پر متوجہ ہونے اور ان کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پیش نظر رکھنے کو سب کاموں سے زیادہ مقدم سمجھو، یہ وہ طریق ہے جس سے دین قائم رہتا ہے اور سنت نبوی ﷺ زندہ ہوتی ہے، جب تم اس طریقہ پر عمل کرو تو اپنی نیت کو ہر حال میں خالص رکھنا۔​
(جاری ہے)
 
Top