ہمارے اسلاف کی دانشمندانہ تحریریں

ذوالقرنین

لائبریرین
اخلاقیات کا ابدی درس دیتی ہمارے اسلاف کی دانشمندانہ تحریریں جن سے زندگی کے راستے آج بھی روشن ہیں۔
زندگی سنوار دینے والی یہ ساری تحریریں مخزن اخلاق نامی کتاب سے لی گئی ہیں۔ نوٹ فرما لیں۔
تبصرے اور تجاویز کے لیے اس دھاگے پر تشریف لائیں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اپنے بیٹے کو چند نصیحتیں:

شاہ ولی اللہ دہلوی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مکتوب ان کے فرزند عبداللہ رضی اللہ عنہ کے نام نقل کیا ہے جو بہت جامع ہیں۔ فرماتے ہیں۔
"میں تمہیں پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں۔ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اسے بدلہ دیتا ہے۔ جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اللہ اسے زیادہ نعمت عطا کرتا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ پرہیز گاری کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی روشنی بناؤ۔ جان لو کہ جب تک نیت نہ ہو، عمل کا کوئی ثمرہ نہیں۔ جس کی نیکی نہیں، اس کے پاس اجر نہیں۔ جو شخص نرمی نہیں کرتا، وہ مفلس ہے اور جس کے پاس اخلاق نہیں، وہ بے نصیب ہے۔"
 

ذوالقرنین

لائبریرین
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امام حسن رضی اللہ عنہ کو ایک طویل مکتوب میں وصیتیں

اسلام کے بنیادی عقائد پر مبنی اخلاق و عادات کا جو خاکہ اس مکتوب میں پیش کیا گیا ہے، اس میں اصلاح اعمال و تعمیر کردار کا کوئی گوشہ باقی نہیں چھوڑا گیا۔ فرماتے ہیں۔
"دل شکستہ، بے بس، بیزار دنیا، مسافر عدم آباد، کہن سال پدر کی وصیت۔۔۔۔۔
کم سن آرزو، راہروراہ مرگ، ہدف امراض، اسیر دنیا، تاجر غرور، مقروض اجل، قیدی موت، حلیف تردد، نشانہ آفات، مغلوب نفس، جانشین اموات، نوخیز فرزند کے نام!
فرزند! زمانہ کی گردش، دنیا کی بے وفائی، آخرت کی نزدیکی نے مجھے ہر طرف سے غافل کرکے صرف آنے والی زندگی کے اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب مجھے صرف اپنی فکر ہے۔ تمام نشیب و فراز پیش نظر ہیں، بے نقاب حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے۔ سچا معاملہ روبرو ہے۔ اسی لیے میں نے یہ وصیت تیرے لیے لکھی ہے۔ خواہ تیرے لیے زندہ رہوں یا فنا ہو جاؤں، کیونکہ مجھ میں اور تجھ میں کوئی فرق نہیں۔ تو میری جان ہے، میری روح ہے، تجھ پر آفت آئے گی تو مجھ پر پہلے آئے گی۔ تیری موت میری موت ہوگی۔
فرزند! (میں تجھے وصیت کرتا ہوں) خدا سے خوف کر، اس کے حکم پر کاربند ہو، اس کے ذکر سے قلب کو آباد کر، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام، کیونکہ اس رشتے سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ نہیں جو تجھ میں اور تیرے خدا میں موجود ہے، بشرطیکہ تو خیال کرے۔
فرزند! دل کو موعظت سے زندہ کر، زہد سے مار، یقین سے قوت دے، حکمت سے روشن کر، موت کی یاد سے اس پر قابو پا، فانی ہونے کا اس سے اقرار لے، مصائب یاد دلا کے اسے ہوشیار بنا، زمانے کی نیرنگیوں سے اسے ڈرا، بچھڑ جانے والی حکایتیں اسے سنا، گزرے ہوؤں کی تباہی سے اسے عبرت دلا۔ ان کی اجڑی ہوئی بستیوں میں گشت کر۔ ان کی عمارتوں کے کھنڈر دیکھ اور دل سے سوال کر کہ ان لوگوں نے کیا کیا؟ کہاں چلے گئے؟ کدھر رخصت ہو گئے؟ کہاں جا کے آباد ہوئے؟
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

ایسا کرنے سے تجھے معلوم ہو جائے گا کہ وہ اپنے دوست احباب سے جدا ہو گئے، ویرانوں میں جا بسے اور تو بھی بس دیکھتے دیکھتے انہیں جیسا ہو جائے گا، لہذا اپنی جگہ درست کر لے۔ آخرت کو دنیا کے بدلے نہ بیچ، بے علمی کی حالت میں بولنا چھوڑ دے، بے ضرورت گفتگو سے پرہیز کر، جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس سے باز رہ، کیونکہ قدم کا روک لینا، ہولناکیوں میں پھنسنے سے بہتر ہے۔
تو نیکی کی تبلیغ کرے گا تو نیکوں میں سے ہو جائے گا۔ برائی کو اپنے ہاتھ سے اور اپنی زبان سے برا ثابت کر۔ بروں سے الگ رہ، خدا کی راہ میں جہاد کر، جیسا حق ہے جہاد کرنے کا، خدا کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈر، حق کے لیے مصائب کے طوفان میں پھاند پڑ، دین میں تفقہ حاصل کر، مکروہات کی برداشت کا عادی بن، کیونکہ برداشت کی قوت بہترین قوت ہے۔ سب کاموں میں اپنے لیے خدا کی پناہ تلاش کر، اس طرح تو مضبوط جائے پناہ اور غیر مسخر قلعہ میں پہنچ جائے گا۔
خدا سے دعا کرنے میں کسی کو شریک نہ کر، کیونکہ بخشش و عطا سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ استخارہ زیادہ کر، میری یہ وصیت خوب سمجھ لے۔ اس سے روگردانی نہ کرنا۔ وہی بات ٹھیک ہوتی ہے جو مفید ہوتی ہے۔ بے فائدہ علم بے کار اور اس کی طلب ناروا ہے۔
فرزند! جب میں نے دیکھا کہ آخر عمر کو پہنچ گیا ہوں اور ضعف بڑھتا جاتا ہے تو یہ وصیت لکھنے میں مجھے جلدی کرنی پڑی۔ میں ڈرا کہ کہیں وصیت سے پہلے ہی مجھے موت نہ آجائے یا جسم کی طرح عقل بھی کمزور پڑ جائے یا تجھ پر نفس کا غلبہ ہو جائے یا دنیاوی فکریں تجھے گھیر لیں اور تو سرکش گھوڑے کی طرح قابو سے باہر ہو جائے۔ نوعمروں کا دل زمین کی طرح ہوتا ہے جو ہر بیج کو قبول کر لیتی ہے۔
اسی خیال سے میں نے وصیت لکھنے میں جلدی کی تاکہ دل کے سخت ہونے اور ذہن کے دوسری طرف لگ جانے سے پہلے ہی تو اس معاملے کو سمجھ لے جس کے تجربے اور تحقیق سے اگلوں نے تجھے بے نیاز کر دیا ہے اور اس کی راہ کی تگ و دو اور تجربے کی تلخیوں سے تجھے بچا لیا ہے۔ وہ چیز تیرے پاس بلا کلفت پہنچ رہی ہے جس کی جستجو میں ہمیں خود نکلنا پڑا تھا، اب وہ سب تیرے سامنے آ رہا ہے جو شاید ہماری نگاہوں سے بھی اوجھل رہ گیا ہو۔
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

فرزند! میری عمر تو اتنی دراز نہیں جتنی اگلوں کی ہوا کرتی تھی تاہم میں نے ان کی زندگی پر غور، ان کے حالات پر تفکر کیا ہے۔ ان کے پیچھے بحث و جستجو میں نکلا ہوں، حتیٰ کہ اب میں انہیں میں سے ایک فرد ہو چکا ہوں بلکہ ان کے حالات سے حد درجہ واقف ہونے کی وجہ سے گویا ان کا اور ان کے بزرگوں کا ہم سن بن گیا ہوں۔ اسی طرح یہاں کا شیریں و تلخ، سفید و سیاہ، سود و زیاں، سب مجھ پر کھل گیا ہے۔ ان سب میں سے میں نے تیرے لیے ہر اچھی بات چن لی ہے۔ ہر خوشنما چیز منتخب کر لی ہے، ہر بری اور غیر ضروری بات تجھ سے دور رکھی ہے اور چونکہ مجھے تیرا ویسا ہی خیال ہے جیسا کے شفیق باپ کو بیٹے کا ہوتا ہے اس لیے میں نے چاہا ہے یہ وصیت ایسی حالت میں ہو کہ تو ابھی کم عمر ہے، دنیا میں نووارد ہے، تیرا دل سلیم ہے، نفس پاک ہے۔
پہلے میں نے ارادہ کیا تھا کہ تجھے صرف کتاب اللہ اور اس کی تفسیر کی شریعت اور اس کے احکام حلال و حرام کی تعلیم دوں گا۔ پھر خوف ہوا مبادا تجھے بھی اسی طرح شکوک و شبہات گھیر لیں، جس طرح لوگوں کو نفس پروری کی وجہ سے گھیر چکے ہیں۔ لہذا میں نے یہ وصیت ضروری سمجھی۔ یہ تجھ پر شاق ہو سکتی ہے لیکن میں نے اسے پسند کر لیا اور گوارہ نہ کیا کہ ایسی راہ میں تجھے تنہا چھوڑ دوں جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ امید ہے خدا میری وصیت کے ذریعے تجھے ہدایت دے گا اور سیدھی راہ کی طرف تیری رہنمائی فرمائے گا۔
فرزند! تیری جس بات سے میں خوش ہوں گا، وہ یہ ہے کہ تو خدا سے خوف کرے، اس کی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کرے، اپنے اسلاف اور خاندان کے پاک بزرگوں کی راہ پر گامزن ہو، کیونکہ جس طرح آج تو اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اسی طرح کل وہ بھی اپنے آپ کو دیکھتے تھے اور جس طرح تو غور کرتا ہے، وہ بھی غور کرتے تھے۔ آخر تجربوں نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ سیدھی راہ پر آجائیں اور فضول باتوں سے پرہیز کریں لیکن اگر تیری طبیعت یہ قبول نہ کرے اور انہی کی طرح بذاتِ خود تجربہ کرنے پر مصر ہو تو بسم اللہ۔ تجربہ شروع کر، مگر عقل و دانائی کے ساتھ، شبہوں اور بحث میں بے عقلی سے الجھ کر نہیں اور اس سے پہلے کہ یہ کام تو شروع کرے، اپنے خدا سے مدد کا خواستگار ہو، اس کی توفیق کا طالب ہو اور ہر قسم کے شبہات سے پرہیز کر، کیونکہ شبہات تجھے حیرت و گمراہی میں ڈال دیں گے اور جب تجھے یقین ہو جائے کہ قلب صاف ہو کر قبضے میں آ گیا ہے، عقل پختہ ہو کر جم گئی ہے اور ذہن میں یکسوئی پیدا ہو چکی ہے تو اس وقت اس وادی میں قدم رکھ، ورنہ تیرے لیے یہ راہ تاریک ہوگی اور تو اس میں بھٹکتا پھرے گا، حالانکہ طالب دین کو نہ بھٹکنا چاہیے نہ حیرت میں پڑنا چاہیے، ایسی حالت میں طالب دین کے لیے اس راہ سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

فرزند! میری وصیت خوب سمجھ اور جان لے کہ جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے۔ جو پیدا کرنے والا ہے، وہی مارنے والا بھی ہے، جو فنا کرتا ہے وہی حیات نو بھی بخشتا ہے اور جو مصیبت میں ڈال کر امتحان لیتا ہے وہی نجات بھی دیتا ہے۔ یقین کر، دنیا کا قیام اللہ کے اس ٹھہرائے ہوئے قانون پر ہے کہ انسان کو نعمتیں بھی ملتی ہیں اور ابتلا و آزمائش بھی پیش آتی ہے، پھر آخرت میں آخری جزا دی جاتی ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ اگر کوئی بات تیری سمجھ میں نہ آئے تو انکار نہ کر بلکہ اسے اپنے کم سمجھی پر محمول کرکے غور کر، کیونکہ اول اول تو نہ جاننے والا ہی پیدا ہوا تھا۔ پھر بتدریج علم حاصل ہوا اور ابھی نہیں معلوم کتنی باتیں ہیں جن سے تو لاعلم ہے، ان میں تیری عقل حیران رہ جاتی ہے اور بصیرت کام نہیں دیتی، لیکن بعد چندے ان کا علم تجھے ہو جاتا ہے، پس تیری وابستگی اسی ذات سے ہو جس نے تجھے پیدا کیا، رزق دیا ہے اور تیری خلقت پوری کی ہے۔ اسی کے لیے تیری عبادت ہو، اسی کے روبرو تیرا سر جھکے، اسی سے تیری خشیت ہو۔
فرزند! خدا کی بابت کسی نے ایسی تعلیم نہیں دی جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا رہنما بنا اور نجات کے لیے انہیں کو رہبر تصور کر۔ میں نے تجھے نصیحت کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور یقین کر کہ اپنی بھلائی کے لیے تو کتنا ہی غور کرے، میرے برابر غور نہ کر سکے گا۔
فرزند! اگر تیرے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے، اس کی سلطنت و حکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے، اس کے افعال و اعمال بھی ظاہر ہوتے، مگر نہیں وہ اللہ تو ایک ہی ہے جیسا کہ خود اس نے اپنے بارے میں فرما دیا ہے۔ اس کی حکومت میں کوئی شریک نہیں، ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا، سب سے اول ہے مگر خود اس کی ابتداء نہیں، سب سے آخر ہے مگر خود اس کی انتہا نہیں، اس کی شان اس سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ قلب کے تصور اور اجر کے ادراک پر اس کی ربوبیت موقوف ہو۔
پس تیرا عمل ویسا ہو جیسا اس شخص کا ہوتا ہے جس کی حیثیت چھوٹی ہے، مقدرت کم ہے اور اپنے پروردگار کی طرف اس کی اطاعت کی جستجو میں ، اس کی عقوبت کی دہشت میں اور اس کے غضب کے خوف میں، جس کی محتاجی بہت بڑی ہے۔ یاد رکھ، تیرے پروردگار نے تجھے اچھی باتوں کا حکم دیا ہے اور صرف برائیوں سے منع کیا ہے۔
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

فرزند! میں نے تجھے دنیا کا نقشہ دکھا دیا ہے۔ اس کی حالت بتا دی ہے، اس کے ناپائیدار اور ہرجائی ہونے کی خبر سنا دی ہے۔ آخرت کی حالت بھی تیرے پیش نظر کر دی ہے اور اس کی لذت و نعم کی خبر بھی دے دی ہے۔ میں نے مثالیں دے کر سمجھایا ہے تاکہ تو عبرت حاصل کرے اور ان پر عمل پیرا ہو۔ جن لوگوں نے دنیا کو پرکھ لیا ہے، اس کی جدائی سے گھبراتے نہیں، ان کی مثال ایسے مسافروں کی ہے جو ناموافق اور قحط زدہ علاقے کو چھوڑ کر سرسبز اور زرخیز علاقے کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ یہ مسافر راہ کی تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، احباب کی جدائی گوارہ کرتے ہین، سفر کی مشقتیں اٹھاتے ہیں، خوراک کی خرابی سہتے ہیں تاکہ کشادہ اور آرام دہ مقام تک جائیں، کسی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے، کسی خرچ سے جی نہیں چراتے، ان کے لیے ہر وہ قدم جو منزل مقصود کی طرف بڑھتا ہے، سب سے زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے لیکن جو لوگ دنیا سے چمٹے ہوئے ہیں، اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے، ان کی مثال اس مسافر جیسی ہے جو سرسبز و شاداب زمین چھوڑ کر قحط زدہ زمین کی طرف چلا ہے۔ اس کے لیے یہ سفر بدترین اور خوفناک سفر ہوگا، اصلی مقام کی جدائی اور نئے مقام پر آمد کو بھیانک مصیبت سمجھے گا۔
فرزند! اپنے اور دوسرے کے درمیان خود اپنی ذات کو میزان بنا۔ جو بات تجھے اپنے لیے پسند ہے، وہی ان کے لیے بھی پسند کر اور جو بات خود اپنے لیے نا پسند کرتا ہے، وہ ان کے حق میں بھی نا پسند کر، کسی پر ظلم نہ کر، کیونکہ دوسرے کا ظلم تو اپنے آپ پر نہیں چاہتا۔ سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آ، جس طرح تیری خواہش ہے کہ وہ تجھ سے پیش آئیں۔ لوگوں کی جو باتیں ناپسند ہوں وہ اپنے لیے بھی نا پسند کر، اگر لوگ تجھ سے وہی برتاؤ کریں جو تو ان سے کرتا ہے، تو اسے ٹھیک سمجھ، بغیر علم کے کچھ نہ کہہ، اگرچہ تیرا علم کتنا ہی کم ہو اور ایسی بات کسی کے حق میں ہرگز نہ کہہ جو خود تو اپنے لیے سننا نہیں چاہتا، خود پسندی حماقت ہے اور نفس کے لیے ہلاکت لہذا سلامت روی سے اپنی راہ طے کر۔ دوسروں کے لیے خزانچی (بخیل) نہ بن اور جب تجھے خدا سے روشنی مل جائے تو تیرا تمام تر خوف صرف اپنے پروردگار سے ہو۔
فرزند! تیرے سامنے ایک دور دراز، دشوار گزار سفر درپیش ہے، اس سفر میں حسن طلب کی بڑی ضرورت ہے، اس سفر میں تیرا زاد راہ ضرورت سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ اگر تو طاقت سے زیادہ بوجھ اپنی پیٹھ پر اٹھا کے چلے گا تو تیرے لیے وبال جان بن جائے گا، لہذا اگر بھوکے مزدور تیرا زاد راہ قیامت تک کے لیے اٹھانے کو مل رہے ہوں تو انہیں غنیمت جان اور اپنا بوجھ ان پر رکھ دے تاکہ کل ضرورت پر یہ توشہ تجھے کام دے۔ مقدرت کی حالت میں تیرا توشہ بار ہو جانا چاہیے کہ مبادا ضرورت آ گھیرے اور تو کچھ نہ پائے۔ دولت مندی کے زمانہ میں اگر کوئی قرض مانگے تو فوراً دے دے تاکہ ناداری کے زمانے میں وہ تجھے واپس مل جائے۔
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

فرزند! میرے سامنے ایک کھٹن گھاٹی ہے، اس گھاٹی میں ایک ہلکا پھلکا آدمی بوجھل آدمی سے بہتر ہے اور سست رفتار تیز رفتار سے بدتر ہے۔ تیرا اس گھاٹی سے گزرنا لازمی ہے، اس کے بعد جنت ہے یا دوزخ، لہذا آخری منزل پر پہنچنے سے پہلے اپنا پیش خیمہ بھیج دے اور قیام سے پہلے ہی جگہ ٹھیک کر لے، کیونکہ مر جانے کے بعد نہ معذرت ممکن ہوگی نہ دنیا کی طرف واپسی۔
یقین کر، جس کے تصرف میں زمین و آسمان کے خزانے ہیں اس نے مانگنے کی اجازت دے دی ہے اور قبول کرنے کا وعدہ فرما لیا ہے۔ اس نے کہا "مانگ" مل جائے گا، رحم کی التجا کر، رحم کیا جائے گا، اس نے اپنے اور تیرے درمیان حاجب کھڑے نہیں کئے جو تجھے اس کے حضور پہنچنے سے روکیں، نہ سفارش ہی کا تجھے محتاج بنایا ہے جو اس کے سامنے تیری سفارش کریں، تیری توبہ ٹوٹ جاتی ہے تو بھی تجھے محروم نہ کرتا ہے، نہ تجھ سے انتقام لیتا ہے اور جب تو دوبارہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ نہ تجھ پر طعنہ زن ہوتا ہے، نہ تیری پردہ داری کرتا ہے حالانکہ تو اس کا مستحق ہوتا ہے، وہ توبہ کے قبول کرنے میں حجت نہیں کرتا۔ اپنی رحمت سے مایوس ہونے نہیں دیتا بلکہ اس نے توبہ کو نیکی قرار دیا ہے۔ ایک بدی کو وہ بزرگ و برتر ایک ہی گنتا ہے مگر ایک نیکی کو دس شمار کرتا ہے۔ اس نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ وہ تیری پکار سنتا ہے، تیری مناجات پر کان دھرتا ہے، تو اس سے مرادیں مانگتا ہے، دل کی حالت بیان کرتا ہے، اپنی بپتا سناتا ہے، اپنی مصیبتوں کی فریاد کرتا ہے، اپنی مشکلوں میں مدد مانگتا ہے تو اس کی عمر کی درازی، جسم کی تندرستی، رزق کی کشادگی چاہتا ہے اور اس کی رحمت کے ایسے ایسے خزانے طلب کرتا ہے جو اس کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ غور کر اس نے طلب کی اجازت دے کر اپنی رحمت کے خزانوں کی کنجیاں تیرے حوالے کردی ہیں۔ تو جب چاہے دعا کرکے اس کی نعمتوں کے دروازے کھلوا لے، رحمتوں کا مینہ، برسوا لے لیکن اگر اجابت دعا میں اس لیے دیر ہوتی ہے کہ سائل کو زیادہ ثواب ملے، امیدوار کو زیادہ بخشش دی جائے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی مانگتا ہے اور محروم رہتا ہے مگر جلد یا بدیر طلب سے زیادہ اسے دے دیا جاتا ہے یا پھر محرومی ہی اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے۔ نہیں معلوم کتنی مرادیں ایسی ہیں کہ اگر پوری ہو جائیں تو انسان کی عاقبت ہی برباد ہو جائے پس تیری دعا انہی باتوں کے لیے ہو جو تیرے لیے سود مند ہیں اور جو نقصان دہ ہیں، وہ دور رہیں، سن لے، مال و دولت بڑی چیز ہیں، مال تیرے لیے ہے، تو مال کے لیے نہیں ہے۔
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

فرزند! تو آخرت کے لیے پیدا ہوا ہے نہ کہ دنیا کے لیے، فنا کے لیے بنا ہے نہ کہ بقا کے لیے، تو ایک ایسے مقام میں ہے جو ڈانواں ڈول ہے اور تیاری کرنے کی جگہ یہ محض آخرت کا راستہ ہے۔ موت تیرے تعاقب میں لگی ہوئی ہے، تو لاکھ بھاگے بچ نہیں سکتا۔ ایک نہ ایک دن تجھے شکار ہو جانا ہی ہے لہذا ہوشیار رہ کہ موت ایسی حالت میں نہ آجائے کہ تو ابھی توبہ و انابت کی فکر ہی میں ہو اور وہ درمیان میں حائل ہو جائے، ایسا ہوا تو بس تونے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔
فرزند! موت پر، اپنے عمل پر، اور موت کے بعد کی حالت پر ہمیشہ تیرا دھیان رہے تاکہ جب اس کا پیام پہنچے تو تیرا سب کچھ پہلے سے ٹھیک ٹھاک ہو اور تجھے اچانک اس پیام کو نہ سننا پڑے۔
فرزند! دنیا میں دنیا داروں کی محویت اور اس کی طلب میں ان کی مسابقت تجھے فریب نہ دے کیونکہ خدا نے دنیا کی حقیقت کھول دی ہے، خدا ہی نے نہیں خود دنیا ہی نے بھی اپنی فانی ہونے کا اعلان کر دیا ہے، اپنی برائیوں سے نقاب اٹھا دیا ہے۔ دنیا دار تو بھونکنے والے کتے اور پھاڑ کھانے والے درندے ہیں جو ایک دوسرے پر غراتے ہیں، طاقت ور کمزوروں کو کھاتے ہیں، بڑے چھوٹوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں، ان میں کچھ تو بندھے ہوئے اونٹ ہیں جو نقصان کرنے سے مجبور ہیں اور کچھ چھٹے ہوئے اونٹ میں جو ہر طرح کا نقصان کرتے پھرتے ہیں۔ ان کی عقل گم ہے، انجان راستوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ مصائب کی نا ہموار وادیوں میں بلائیں اور آفتیں چرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہیں، نہ کوئی ان کا گلہ بان ہے نہ رکھوالا، دنیا انہیں تاریک گزرگاہوں میں لے گئی ہے۔ روشنی کے مینار ان کی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔ دنیا کی بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں، ان کی لذتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، انہوں نے اسی کو اپنا رب بنا لیا ہے، وہ ان کے ساتھ کھیل رہی ہے اور وہ اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ افسوس انہوں نے آنے والی زندگی بالکل فراموش کردی ہے۔ عنقریب تاریکی چھٹ جائے گی اور قافلہ منزل پر پہنچ جائے گا۔ لیل و نہار کے مرکب پر جو سوار ہے وہ تو برابر رواں دواں ہی ہے، چاہے کسی جگہ کھڑا ہی کیوں نہ ہو، مسافر ہے، گو بآرام کہیں مقیم ہی کیوں نہ ہو۔
فرزند! تو اپنی سب امیدوں میں کامیاب ہو نہیں سکتا۔ زندگی سے زیادہ جی نہیں سکتا۔ تو بھی اسی راستے پر چلا جا رہا ہے جس پر تجھ سے پہلے لوگ جا چکے ہیں، لہذا اپنی طلب میں اعتدال مدنظر رکھ، کمائی میں سلامت روی سے تجاوز نہ کر، یاد رکھ کوئی طلب ایسی ہوتی ہے جو حرماں نصیبی کی طرف لے جاتی ہے، نہ ہر مانگنے والے کو ملتا ہے، نہ ہر خوددار محروم رہتا ہے۔ ہر قسم کی ذلت سے بچنا چاہیے وہ کیسی ہی مرغوبات کی طرف لے جانے والی ہو، کیونکہ عزت کا معاوضہ تجھے کبھی مل ہی نہیں سکتا۔ دوسروں کا غلام نہ بن کیونکہ خدا نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے وہ بھلائی، بھلائی نہیں جو برائی سے آئے، وہ دولت، دولت نہیں جو ذلت کی راہ سے حاصل ہو۔
خبردار، خبردار! تجھے حرص و ہوس ہلاکت کے گھاٹ پر لے جائے، جہاں تک ممکن ہو اپنے اور خدا کے درمیان کسی کا احسان نہ آنے دے کیونکہ تجھے تیرا حصہ بہرحال مل کر رہے گا۔ خدا کا دیا ہوا تھوڑا، مخلوق کے دئیے ہوئے بہت سے کہیں زیادہ ہے اور شریفانہ بھی، اگرچہ مخلوق کے پاس بھی جو کچھ ہے خدا ہی کا دیا ہوا ہے۔ خاموشی کی وجہ سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے اس کا تدارک آسان ہے، مگر گفتگو سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے، اس کا تدارک مشکل ہے، کیا تونے نہیں دیکھا کہ مشک کا منہ باندھ کر ہی پانی روکا جاتا ہے؟ اپنا مال خرچ نہ کرنا، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کہیں اچھا ہے۔ مایوسی کی تلخی، سوال کرنے سے بہتر ہے اور آبرو کے ساتھ محنت مزدوری، بدکاری کی دولت سے بہتر ہے، آدمی اپنا راز خود ہی خوب چھپا سکتا ہے۔ کبھی آدمی اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لیتا ہے، جو زیادہ بولتا ہے، زیادہ غلطی کرتا ہے۔
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

نیکوں کی صحبت اختیار کرو، نیک ہو جاؤ گے، بدوں کی صحبت سے پرہیز کرو، بدی سے دور ہو جاؤ گے، حرام کھانا بدترین کھانا ہے۔ کمزور پر ظلم کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ جب نرمی سختی بن جائے تو سختی نرمی بن جاتی ہے، کبھی دوا بیماری ہو جاتی ہے اور بیماری دوا۔ کبھی بدخواہ خیر خواہی کر جاتا ہے اور خیر خواہ بدخواہی، موہوم امیدوں پر تکیہ نہ کرو، کیونکہ یہ مردوں کا سرمایہ ہیں، تجربے یاد رکھنے کا نام عقل ہے۔ بہترین تجربہ وہ ہے جو نصیحت آموز ہو، موقع سے فائدہ اٹھاؤ اس سے پہلے کہ وہ تمہارے خلاف ہو جائے، ہر کوشش کرنے والا کامیاب نہیں ہوتا۔ ہر جانے والا واپس نہیں آیا، مال کا ضائع کرنا اور عاقبت کا بگاڑنا فساد عظیم ہے، انسان کی قسمت مقدر ہوچکی ہے جو کچھ تیرے نوشہت تقدیر میں ہے، جلد یا بدیر سامنے آ جائے گا۔ تاجر ایک لحاظ سے قمار باز ہوتا ہے، کبھی قلت میں کثرت سے زیادہ برکت ہوتی ہے۔
توہین کرنے والے مددگار اور سوء ظن رکھنے والے دوست میں ذرا بھلائی نہیں۔ جب تک زمانہ ساتھ دے زمانے کا ساتھ دو، حرص تجھے اندھا نہ کردے اور عداوت تجھے بے عقل نہ بنانے پائے۔ دوست دوستی توڑے تو تم اسے جوڑ دو، وہ دوری اختیار کرے تو تم نزدیک ہو جاؤ، وہ سختی کرے تو تم نرمی کرو، وہ غلطی کرے تو تم اس کے لیے عذر تلاش کرو، دوست کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو، گویا تم غلام ہو اور وہ آقا لیکن خبردار یہ برتاؤ اپنے محل نہ ہو، نا اہل کے ساتھ نہ رہو، دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ ورنہ دوست بھی دشمن ہو جائے گا، دوست کو بے لاگ نصیحت کرو، اچھی لگے یا بری لگے، غصہ پی جایا کرو، میں نے غصے کے جام سے زیادہ میٹھا جام نہیں دیکھا۔ جو تم سے سختی کرے تم اس سے نرمی کرو، خود بخود نرم پڑ جائے گا۔ دوستی کاٹنا ضروری ہی ہو تو بھی کچھ نہ کچھ لگاؤ باقی رکھو، تاکہ جب چاہو دوستی کو جوڑ سکو۔ جو تم سے حسن ظن رکھے اس کے حسن ظن کو جھوٹا نہ ہونے دو۔ دوست کے حقوق اس گھمنڈ میں تلف نہ کرو کہ دوست ہے کیونکہ جس کے حقوق تلف کردئیے جاتے ہیں وہ دوست نہیں رہتا۔ ایسے نہ ہو جاؤ کہ تمہارا خاندان ہی تمہارے ہاتھوں سب سے زیادہ بدبخت بن جائے۔ جو کوئی بے پروائی ظاہر کرے، اس کی طرف نہ جھکو، دوست دوستی توڑنے میں اور تم دوستی جوڑنے میں برابر ہو، تمہارا پلا ہمیشہ بھاری رہے۔ نیکی سے زیادہ بدی میں تیز نہ ہو۔
فرزند! ظالم کے ظلم سے تنگ دل نہ ہو، کیونکہ وہ خود اپنا نقصان اور تمہارا نفع کر رہا ہے۔ جو تمہیں خوش کرے اس کا صلہ یہ نہیں کہ تم اسے رنج پہنچاؤ۔
فرزند! رزق دو قسم کا ہوتا ہے، ایک وہ جس کی تو جستجو کرتا ہے، دوسرا وہ جو تیری جستجو کرتا ہے، پس اگر تو جستجو چھوڑ دے تو رزق خود ہی تیرے پاس آ جائے گا۔ دنیا میں تیرا حصہ بس اتنا ہے، جتنے سے تو عاقبت درست کر سکے۔ اگر تو اس چیز پر رنج کرتا ہے جو تیرے ہاتھ سے نکل گئی ہے تو ہر اس چیز پر رنج کر جو تیرے ہاتھ میں نہیں آئی۔ آئندہ کو گزشتہ سے غیر سمجھ۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا جن پر نصیحت نہیں، ملامت اثر کرتی ہے، دانا آدمی معمولی تادیب سے مان جاتا ہے مگر چوپایہ مار سے باز آتا ہے۔
خواہشوں اور دل کے وسوسوں کو صبر و یقین کی عزیمتوں سے زائل کرو، جو کوئی راہِ اعتدال سے تجاویز کرتا ہے، بدراہ ہو جاتا ہے، دوست رشتہ دار کی طرح ہے، سچا دوست وہی ہے جو پیٹھ پیچھے حق دوستی ادا کرے۔ نفس کی خواہشوں اور بدبختیوں میں ساجھا ہے۔ کتنے اپنے ہیں جو غیروں سے زیادہ غیر ہیں اور کتنے غیر ہیں جو اپنوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

جس نے راہ حق چھوڑ دی اس کا راستہ تنگ ہے۔ جو اپنی حیثیت پر رہتا ہے اس کی عزت باقی رہتی ہے۔ سب سے زیادہ مضبوط تعلق وہ ہے جو آدمی اور خدا کے مابین ہے جو کوئی تیری پرواہ نہیں کرتا وہ تیرا دشمن ہے، جب امید میں موت ہو تو نا امیدی زندگی بن جاتی ہے۔ نہ ہر عیب ظاہر ہوتا ہے، نہ ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کبھی آنکھوں والا ٹھوکر کھا جاتا ہے اور اندھا سیدھی راہ چلا جاتا ہے، بدی کو خود سے دور رکھو کیونکہ جب چاہو گے لوٹ آئے گی، احمق سے دوستی گانٹھنا عقلمند سے دوستی جوڑنے کے برابر نہیں ہے۔
جو دنیا پر بھروسا کرتا ہے، دنیا اس سے بے وفائی کر جاتی ہے اور جو دنیا کو بڑھاتا ہے، دنیا اسے گرا دیتی ہے۔ ہر تیر نشانے پر نہیں بیٹھتا۔ جب حاکم بدلتا ہے تو زمانہ بھی بدل جاتا ہے۔ سفر سے پہلے سفر کے ساتھیوں کو دیکھ لو۔ ٹھہرنے سے پہلے پڑوسیوں کی جانچ کر لو۔
خبردار! تمہاری گفتگو میں ہنسانے والی کوئی بات نہ ہو، اگرچہ کسی دوسرے کا مقولہ ہی کیوں نہ ہو۔ خبردار! عورتوں سے مشورہ نہ کرنا کیونکہ ان کی عقل کمزور ہوتی ہے اور ارادہ ضعیف، پردے میں بٹھا کر ان کی نگاہوں کی حفاظت کرو۔ بداطوار لوگوں کی ان میں آمدورفت ان کے بے پردہ رہنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ حتی الوسیع اپنے سوا کسی سے انہیں مطلب نہ رکھنے دو۔ عورت کو اس کی ذات کے سوا کسی بات میں خودمختار نہ ہونے دو کیونکہ عورت پھول ہے، جلاد نہیں۔ عورت کو لوگوں کی سفارش کرنے کا عادی نہ بناؤ۔ بے جا رقابت ظاہر نہ کر کیونکہ اس سے پاکباز اور بے لاگ عورت کی بھی رہنمائی برائی کی طرف ہوتی ہے۔
اپنے نوکروں میں سے ہر ایک کے ذمہ کوئی نہ کوئی کام رکھو تاکہ وہ تمہاری خدمت کو ایک دوسرے پر نہ ٹالیں۔ اپنے کنبے کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارا بازو ہے، جس سے اڑتے ہو، بنیاد ہے جس پر ٹھہرتے ہو، ہاتھ ہے جسے لڑتے ہو۔
فرزند! میں تیری دنیا و عقبیٰ خدا کے سپرد کرتا ہوں اور دونوں جہاں میں اس ذات برتر سے تیرے لیے فلاح و بہبود کی دعا کرتا ہوں۔
والسلام​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
علامہ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ کا بیٹے کی رہنمائی کے لیے اپنی مثال پیش کرنا

"لخت جگر! زندگی کی سانسیں بہت تھوڑی اور قبر کی مدت طویل ہے۔ نیکی کی برکتیں اسی کے حصے میں آتی ہیں، جس نے اپنی خواہشوں پر قابو پا لیا۔ محروم وہی ہے جس نے دنیا کے لیے آخرت سے روگردانی کی۔ اصل کمال علم و عمل کو جمع کرنے میں ہے۔ جس کو یہ نعمتیں حاصل ہو گئیں، اس کا مرتبہ دین و دنیا میں بلند ہوا۔ قرآن مجید، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ، اصحاب کرام رضی اللہ عنہما اور علمائے حق کی مبارک سیرتیں پیش نظر رکھو تاکہ درجات عالی نصیب ہوں۔
عزیزم! طالب علم کو تحصیل علم کے دوران ہمت و حوصلہ سے کام لینا چاہیے۔ اس سلسلہ میں تحدیث بالنعمتہ کے طور پر اپنے کچھ حالات تمہیں سناتا ہوں۔ میں جب مدرسہ میں داخل کیا گیا اس وقت چھ سال کا تھا۔ میرے ہم سبق مجھ سے زیادہ عمر کے تھے میں بچوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ نہ لیتا، نہ لہو و لعب میں اپنا وقت ضائع کرتا، کبھی اپنے فرائض اور متعلقہ کاموں سے غافل نہیں ہوا، جو کچھ استاد سے سنتا اسے یاد کر لیتا۔ میں ہر فن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ مشائخ کے حلقوں میں جلد سے جلد پہنچنے کی امکانی سعی کرتا، تیز روی سے میری سانس پھولنے لگتی، میرے صبح و شام اسی طرح گزرتے کہ کھانے کا انتظام نہ ہوتا مگر پیدا کرنے والے کا احسان ہے کہ اس نے مجھے مخلوق کے احسان سے بچایا۔
برخوردار! فخر کے طور پر نہیں شکر کی راہ سے کہتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے میرے کلام میں تاثیر بخشی کہ تقریباً دو سو ذمی میرے ہاتھ پر (بہ رضا و رغبت) مسلمان ہوئے اور ایک لاکھ سے زیادہ آدمیوں نے میری مجلس میں توجہ کی۔
میرے بیٹے! غفلت کی نیند سے جاگو، موت سر پر کھڑی ہے ان گھڑیوں پر جو رائیگاں گئیں نادم اور پشیمان ہو اور ہمہ تن تلافی مافات کے لیے سرگرم عمل ہو جاؤ۔
برے ساتھیوں سے بچو، کتابیں تمہاری حقیقی ساتھی ہیں جب تک ایک فن میں مہارت نہ ہو جائے، آگے نہ بڑھو، جو لوگ علم و عمل میں درجہ کمال کو پہنچے، ان کے حالات پر نظر رکھو اور کسی چیز میں ان سے کم رہنے پر قناعت نہ کرو، خوب سمجھ لو کہ علم ہی وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے وہ لوگ بھی بہت کچھ ہو جاتے ہیں، جو کچھ نہیں ہوتے۔
اے لخت جگر! دنیا حاصل کرنے کے لیے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا، جو شخص قناعت اختیار کر لیتا ہے وہ عزت پاتا ہے۔ ایک شخص بصرہ آیا اور پوچھا شہر کا سردار کون ہے؟ کسی نے کہا حسن بصری۔ اس نے کہا انہیں سرداری کیوں کر مل گئی؟ جواب ملا۔ حسن بصری لوگوں کو دنیا سے بے نیاز ہیں مگر لوگ ان کے علم کے محتاج ہیں۔
میرے والد اچھے کھاتے پیتے تھے، ہزاروں روپے چھوڑ کر انتقال فرمایا۔ میں جوان ہوا تو لوگوں نے مجھے گھر اور بیس دینار دئیے اور کہا یہ تمہارے مال کا ترکہ ہے۔ دیناروں کی میں نے کتابیں خرید لیں۔ گھر بیچ کر علم حاصل کیا، اب میرے پاس کچھ نہیں، خدا کا شکر ہے کہ سب کام ٹھیک ٹھیک انجام پاتے ہیں۔
خوب یاد رکھو، جب تقویٰ حاصل ہوتا ہے تو نیکیاں ابھر آتی ہیں۔ متقی کوئی کام نمود و نمائش کے لیے نہیں کرتا اور نہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے دین کو نقصان پہنچے۔ جو شخص اللہ کے حدود کا لحاظ رکھتا ہے، اللہ اس کا لحاظ رکھتا ہے۔ سب سے بہتر خزانہ یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کو حرام چیزوں سے بچاؤ، زبان کو بدگوئی سے روکو، نفس کو قابو میں رکھو۔
تمہیں چاہیے کہ بہت بلند رہو، کچھ لوگ صرف زاہد بن کر رہ گئے اور کچھ عالم بن کر۔ ایسے لوگ تھوڑے ہیں جنہوں نے علم و عمل دونوں میں درجہ کمال حاصل کیا۔ میں نے تابعین اور بعد کے لوگوں کے حالات خوب غور سے پڑھے۔ چار آدمی واقعی صاحب کمال نظر آئے۔ سعید بن مسیب، حسن بصری، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل، میں نے ان چاروں کے حالات پر الگ الگ مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ آدمی وہ بھی تھے اور ہم بھی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان کی ہمتیں بلند تھیں، ہماری ہمتیں پست ہیں۔ سلف میں عالی ہمت لوگوں کی ایک بڑی جماعت گزری ہے۔ ان کے حالات پڑھنا چاہو تو صفوۃ الصفوۃ پڑھو۔
ہمیشہ خیال رکھو کہ علم کے ساتھ عمل ضروری ہے۔ جو لوگ اہل دنیا کے پاس آتے رہتے ہیں، وہ عمل میں کوتاہی کرتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ علم کی برکت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ہمیشہ نفس کا محاسبہ کرتے رہو تم اپنے علم سے جتنا نفع خود اٹھاؤ گے، اسی اعتبار سے سننے والے نفع اٹھائیں گے، اگر واعظ خود عمل نہیں کرتا تو دلوں پر اس کے وعظ کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔
تمہارے ذمے لوگوں کے حقوق ہیں مثلاً بیوی، اولاد، اعزہ۔ ان سب کے حقوق پورے کرو، اپنے کو بیکار نہ رکھو، نفس کو اچھے اعمال کا عادی بناؤ اور قبر میں وہ سامان بھیجتے رہو کہ جب تم وہاں پہنچو تو درخت بنے۔ اگر کبھی غفلت طاری ہونے لگے تو قبرستان چلے جایا کرو اور موت کو یاد کر لیا کرو۔"
 

ذوالقرنین

لائبریرین
مولانا روم کی بیٹے کو اپنے شاگرد رشید کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت

فرزند عزیز، مظفر الدین، خدا تمہیں انسانوں اور جنوں میں سے ہر دشمن پر ظفر مند کرے اور تمہاری مدد اور ہدایت فرمائے اور جس شے کو خدا دوست رکھتا ہے اور پسند کرتا ہے اس کی توفیق عنایت فرمائے، میری طرف سے سلام و تحیتہ پڑھو اور یہ جانو کہ میں تمہارا مشتاق ہوں۔
اس کے بعد یہ معلوم کرو کہ فرزند عزیز حسام الدین، جو بڑا وفا شعار ہے، مجھ پر اور تم پر خدمت اور دوستی کا حق رکھتا ہے۔ (نیکی کی ابتدا کرنے والے کو کوئی عوض نہیں دیا جا سکتا) سنا گیا ہے کہ خود غرض لوگوں کے کہنے سننے سے تم اس کے ساتھ جھگڑا کرتے ہو اور بعض امور کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ حسام الدین بڑا امانت دار اور معتمد ہے اور ہمارا بیٹا ہے۔ (امانت دار کا قول، قسم کے ساتھ، معتبر ہے) باپ کی خوشی کے لیے اس کی دلجوئی اور عزت افزائی کرو اور اسے اطمینان دلاؤ۔ تم یہ مہربانی اپنے باپ پر کرو گے۔
تمہیں پتا ہے کہ حسام الدین ہماری گود میں پل کر بڑا ہوا ہے، وہ اپنے اچھے برے کو بہتر جانتا ہے، خواہ یہ بدگمانی تمہاری طرف سے ہے یا کسی دوسرے نے تم سے کہا ہے، ہر صورت میں یہ بات اس سے قطعاً بعید ہے کہ اس نے تمہاری نصیحت اور خیر خواہی میں کوئی دریغ کیا ہو۔ ایسا خیال بھی نہ کرو اور اس گمان کو دل میں بھی نہ لاؤ کیونکہ (بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں) اور یہ گمان اس قسم کا ظن ہے جس سے تم بعد میں پشیمان اور گناہ گار ہونگے۔ شعر(ترجمہ)
"میرے سوا کسی اور سے تمہیں سابقہ پڑے گا تو مجھے پہچانو گے ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ سمجھ لو کہ میں سختی کے ساتھ نصیحت کرنے والا تھا۔"
واللہ باللہ اس کے بارے میں ان نصیحتوں کو تم تکلف اور مبالغہ کی قسم سے نہ سمجھنا بلکہ جو کچھ کہا ہے وہ بہت میں سے تھوڑا اور ہزار میں سے ایک ہے۔ بیٹا اس مطالبے اور مناقشے سے جو نفع تمہیں مطلوب ہے یا جس کا لالچ تمہیں ہو رہا ہے، وہ حقیقتاً تمہارا نقصان ہے، یہ بات تم اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔
کہتے ہیں کہ کسی جنگجو سپاہی کا گھوڑا زخمی ہو گیا۔ بادشاہ نے اپنا گھوڑا، جو اصطبل کے عربی النسل گھوڑوں میں سے سب سے اعلیٰ درجہ کا تھا، اسے دے دیا اور اس پر اسے سوار کرا دیا۔ ناگہا یہ گھوڑا بھی زخمی ہو گیا۔ دفعتاً بادشاہ کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ افسوس! اسی وقت وہ بہادر جنگجو گھوڑے سے نیچے اتر پڑا۔ بادشاہ نے دوسرا گھوڑا بہترا پیش کیا مگر اس نے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں نے تیری فتح کی خواہش میں اپنی جان عزیز سے دریغ نہیں کیا اور کبھی یہ نہیں کہا کہ افسوس! مگر تو نے مجھے جو ایک چوپایہ دیا تھا اس کے لیے افسوس کا نعرہ بلند کیا۔ اب میں جاتا ہوں کسی اور بادشاہ کی خدمت کروں گا جو میری جان کی قدر جانتا ہوگا۔
بہرحال اب خیر و سعادت کی دعائیں لو۔ خدا تمہارے کام ایسی جگہ سے پورے کرے کہ جہاں سے تمہیں امید نہ ہو ( خدا اس جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا) یہ دعا ہماری جانب سے ہے اور اس کا قبول کرنا خدا کے اختیار میں ہے۔
ترجمہ اشعار:
"خدا نے جو کچھ میرے لیے مقرر کر دیا ہے میں اس پر راضی ہوں۔ اور میں نے اپنا کام اپنے خالق کے سپرد کر دیا ہے۔ جس طرح اس نے گزشتہ زندگی میں احسان کیا۔ اسی طرح باقی زندگی میں بھی احسان کرے گا۔ تجھے جو کچھ مشکل درپیش ہے وہ تیرے طرز زندگی کی وجہ سے ہے، ورنہ جو لوگ آسان زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں وہ آسانی سے زندگی گزار دیتے ہیں۔"
(تم لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو خدا تمہارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے گا۔)​
والسلام​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
امیر خسرو کا بیٹی کو عصمت و عفت کا درس

یہ مکتوب اشعار کی شکل میں ہے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
"اے بیٹی تیرا وجود میرے دل کا چشم و چراغ ہے اور میرے دل کے باغ میں کوئی اور میوہ تجھ سے بہتر نہیں۔ اگرچہ تیرے بھائی بھی تیری طرح خوش بخت ہیں مگر جہاں تک میری نظر کا تعلق ہے وہ تجھ سے بہتر نہیں۔
باغبان جب باغ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے تو اس کے نزدیک سرو کی بھی وہی قدر ہوتی ہے جو سوسن کی ہوتی ہے۔ تیرا نصیب جس نے تجھے نیک فال بتایا، اسی نے تیرا نام مستورہ میمون (نیک بخت و عصمت مآب خاتون) رکھ دیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس نے تیرے انداز طبیعت کو پہلے سے دیکھا تو میری شرم و حیا اور پاکدامنی کو زیادہ سے زیادہ پایا۔ مجھے امید ہے کہ اس خوش بختی و نیک فالی کے باعث تیرے نام کو تیرے کردار سے چار چاند لگ جائیں گے۔
لیکن تجھے بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے نیک انجام سے اپنے اس نام کی بنیاد کو صحیح ثابت کرے۔ عمر کے اعتبار سے تیرا یہ ساتواں سال ہے جب تو سترہ سال کی ہوجائے گی تو ان باتوں کو سمجھ سکے گی۔
جب تو اس عمر کو پہنچے گی تو میری ان نصیحتوں پر عمل کرکے اپنی نیک نامی سے مجھے بھی سر بلند کرے گی۔ اس طرح زندگی بسر کر کہ تیرے شاندار کارناموں سے تیرے قرابت داروں کا نام بھی روشن ہو۔
جس موتی کی طرف بزرگ توجہ مبذول کرتے ہیں، اس کے طفیل میں اس کے والدین یعنی سیپی کو بھی یاد کر لیتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے تو اپنی نقل و حرکت کو اپنے دامن کی حدود میں منحصر کر دے۔
تاکہ تیرا دامن شکوہ و وقار بھی جگہ سے اسی طرح نہ ہلے جس طرح دامن کوہ پتھر سے جدا نہیں ہوتا۔ اگر تیرا وقار ایک بھاری پتھر کی طرح تیرے دامن کا لنگر ہے تو یقیناً تیرا دامن تیری عصمت کا محافظ ہے۔
وہ عورت جس کا گھر سے نکلنا آسان ہو جاتا ہے وہ گھر کے اندر سب سے خوف زدہ رہتی ہے۔ جو عورت گلستان و لالہ زار میں ٹہلتی پھرتی ہے وہ اپنا گریبان گل کی نذر کر دیتی ہے اور دامن خار کو بخش دیتی ہے۔
جب اس کی نظر گل سرخ پر پڑتی ہے تو پھول کی ہنسی یہ تقاضا کرتی ہے کہ شراب پینی چاہیے۔ تو اپنے چہرہ سے نمائش باطل کا غازہ دھو ڈال اور یہ کوشش کر کہ تو غازہ ہی کے بغیر سرخرو ہو جائے۔
تاکہ صدق و صواب کی شہرت عامہ، تیری اس سرخروہی کی وجہ سے، تجھے حمیرا (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لقب کا مخفف) کا خطاب عطا کر دے۔ جو عورت راحت و آرام سے بے پروا رہی اس کا ویران گھر آباد ہو گیا۔
جو عورت لذت شراب کی رو میں بہہ کر پستی کے اندر چلی گئی، اس کا گھر خرابات بن گیا اور وہ خود بھی خراب ہوئی۔ جب اس کی شریف ذات شراب سے آلودہ ہو گئی تو درودیوار سے دشمن اندر گھس آئے گا۔
اگر بند کمرے میں بھی شراب کا دور چلے تو اس کی بو پڑوسیوں کو یہ پیغام پہنچا دیتی ہے کہ یہاں شراب پی جا رہی ہے۔ کسی عورت کا ایک چھوٹا سا آنچل جو وہ اپنی نشت گاہ میں بیٹھ کر بطور نقاب ڈال دیتی ہے ان فقہیوں کی پوری دو پگڑیوں سے بہتر ہے جو فسق و فجور میں مست ہیں۔
جلوہ گری یہ نہیں کہ ایک پری چہرہ حسینہ زن و شوہر کے تعلقات میں جلوہ گر ہو۔ جلوہ گری اس عورت کا حصہ ہے جو شرم و حیا اور خوف خدا کے باعث لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہونے کے باوجود اپنے اعلیٰ کردار کے لیے مشہور ہے۔
تو سورج کی طرح اپنے آپ کو اجالوں میں چھپا لے اور شرم و حیا کو رخسار کا پردہ بنا۔ جس نے حیا کا نقاب اتار کر پھینک دیا اس سے کوئی امید نہ رکھو کیونکہ اس کی عزت و آبرو پر پانی پھر گیا۔
جو مرد اس کی عریانی کے لیے کوشش کرتا ہے، وہ اس کو برہنہ کرنے کے بعد پھر اس کی پردہ پوشی کیا کرے گا؟ وہ آوارہ گرد جو بغیر کچھ کیے ہوئے ڈینگیں مارتا ہے، جب کوئی گناہ کر لے گا تو اسے کس طرح ظاہر نہ کرے گا۔
برے لوگوں کی یہ رسم ہے کہ جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو اس کی شہرت کو اپنے لیے بڑائی سمجھتے ہیں۔ ہر بننے ٹھننے والی عورت جو نمائش حسن کے درپے ہوتی ہے، دس پردوں کے اندر بھی اپنی رسوائی کا سامان مہیا کر لیتی ہے۔
جب کوئی بری عورت تباہی کی طرف رخ ملتی ہے تو اس کی صورت اس کے فسق و فجور کی گواہی دینے لگتی ہے۔ عورت کے لیے فراخ حوصلگی و سخاوت زیب نہیں دیتی، البتہ اگر مرد میں یہ اوصاف نہ ہوں تو وہ عورت بن جاتا ہے۔
لیکن اتنی بد مزاج بھی نہ بن کہ تیری خادمائیں تجھ سے بھاگ کر باہر گلی میں چلی جائیں۔ ایسا گھر جس میں آرام و آسائش کم میسر ہو اگر اپنے ساز و سامان کے اعتبار سے بہشت بھی ہو تو جہنم کے مترادف ہو جاتا ہے۔
اس شوہر کو جس کی بیوی دراز ہو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک وحشی کتے کے ساتھ بند کر دیا گیا ہے۔ جو شوہر دولت و ثروت رکھتا ہے، اس کی بیوی خود گھر کے اندر سونے میں پیلی ہوتی ہے۔
لیکن جب کسی شوہر کے پاس پونجی نہ ہو تو اس کی بیوی کے لیے قناعت سے بہتر کوئی زیور نہیں ہے۔ نفس، جو انسان کے قالب میں سرایت کیے ہوئے ہے، انسان دشمن ہونے کے باوجود اس کے تن بدن میں موجود ہے۔
یہ نفس نہیں چاہتا کہ جس دل کو دنیا کا عیش حاصل ہے، وہ عقبیٰ کی فکر میں پڑ جائے اس لیے جہاں تک ہو سکے اس نفس کی رسی دراز نہ ہونے دے۔ یہ ساری مصیبت جو تن پر آتی ہے اس نظر کی بدولت آتی ہے جو توبہ کو توڑ کر گناہ پر مائل کرتی ہے۔
جس طرح موتی سیپ کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے اسی طرح اپنی آنکھ کو شرم و حیا میں چھپا لے تاکہ تو تیر بلا کا نشانہ نہ بنے۔ جب آنکھ مائل ہوتی ہے تو دل قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور نظر کا ہاتھ دل کے ڈورے کھینچنے لگتا ہے۔
وہ عورت، جسے حق تعالیٰ نے خودداری کا جذبہ دیا ہے، جان دے دیتی ہے مگر تن کو فسق و فجور میں مبتلا نہیں ہونے دیتی۔
ایک بادشاہ اپنے اونچے محل کی چھت پر کھڑا ہوا، ادھر ادھر نظر ڈال رہا تھا۔ اس نے محل کے دیوار کے پیچھے ایک حسینہ کو دیکھا جو اپنے حسن سے اس زمانہ کے تمام حسینوں کو مات کرتی تھی۔
جیسے ہی بادشاہ نے اسے دیکھا، بے چین ہو گیا اور اس کے صبر و قرار کی بنیاد اپنی جگہ سے مل گئی۔ فوراً ایک پیغامبر کو اس کے پاس بھیجا تاکہ اسے بلا کر اس پر دست درازی کرے۔
اس حسینہ نے اپنی پاک دامنی کی بنا پر اپنے وقار کو عصمت کا پردہ بنا لیا اور چھپ گئی۔ پہلے تو ایک عرصہ تک در پردہ گفتگو ہوتی رہی مگر چاہنے والے کی مقصد براری نہ ہوئی۔
جب بادشاہ کا دل ہوس سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو اس نے کھل کر بات کی اور یہ خوف دلایا کہ میں جان سے مار ڈالوں گا۔ خادم کو حکم دیا کہ اسے اپنے گھر سے باہر گھسیٹ کر، بالوں سے کھینچتا ہوا، بادشاہ کی خواب گاہ میں لے آئے۔
(جب وہ حسینہ آئی تو) اس نے کہا کہ " اے فرمانروائے وقت، بادشاہوں کو فقیروں سے کیا واسطہ ہے۔ میرے جسم میں ایسی کون سی چیز ہے جو تیری آنکھوں کو بھا گئی ہے اور جسے تونے اپنے جذبہ دل سے مجبور ہو کر عزیز بنا لیا ہے۔
بادشاہ نے اپنی آرزو مند آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔" تیری دونوں آنکھوں نے مجھ سے میری نیند چھین لی ہے۔"
وہ خوش جمال حسینہ اندر کی طرف ایک کونے میں چلی گئی اور انگلی سے اپنی دونوں آنکھیں باہر نکال لیں۔ اور خادم کو وہ دونوں آنکھیں دے کر کہا۔" جا انہیں لے جا اور امیر سے کہہ دے کہ میری جو چیز تجھے عزیز تھی اسے تھام۔"
خادم نے جو یہ کیفیت بادشاہ پر ظاہر کی تو اس کے دل میں آگ لگ گئی اور اس کی سوزش سے دھواں بھر گیا۔ اپنے کرتوت پر شرمندہ ہو کر بیٹھ رہا اور اس حسینہ کا پاک دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔
اے بیٹی تو خسرو کی آنکھ کا نور ہے تو بھی اسی طرح اپنی عصمت پر صابر و مستقیم رہ۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا جہانگیر (بادشاہ) کے عقائد و اعمال کی اصلاح کرنا

الحمد للہ و سلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ۔ اس طرف کے احوال و واقعات حمد کے لائق ہیں (بادشاہ کے ساتھ) عجیب و غریب صحبتیں گزر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ان گفتگوؤں سے امور دینیہ اور اصول اسلامیہ میں سرمو سستی اور مداہنت دخل نہیں پاتی۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان محفلوں میں وہی باتیں ہوتی ہیں جو خاص خلوتوں اور مجلسوں میں بیان ہوا کرتی ہیں۔ اگر ایک مجلس کا حال لکھا جائے تو دفتر ہو جائے، خاص کر آج ماہِ رمضان کی سترھویں رات کو انبیاء علیہم الصلوٰۃ کی بعثت اور عقل کے عدم استقلال اور آخرت کے ایمان اور اس کے عذاب و ثواب اور رویت و دیدار کے اثبات اور حضرت خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خاتمیت اور ہر صدی کے مجدد اور خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ عنہم کی استداء اور تراویح کے سنت اور تناسخ کے باطل ہونے اور جن اور جننیوں کے احوال اور ان کے عذاب و ثواب کی نسبت بہت کچھ مذکور ہوا، اور (بادشاہ) بڑی خوشی سے سنتے رہے، اس اثنا میں اور بھی بہت سی چیزوں کا ذکر ہوا اور اقطاب، اوتاد، ابدال کے احوال اور ان کی خصوصیتوں وغیرہ کا بیان ہوا، اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ (بادشاہ) سب کچھ قبول کرتے رہے اور کوئی ایسا تغیر ظاہر نہ ہوا جو برہمی پر دلالت کرے۔ ان واقعات اور ملاقاتوں میں شاید اللہ تعالیٰ کی پوشیدہ حکمت اور راز خفیہ ہوگا۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید کو (بادشاہ سے ) سورہ عنکبوت تک ختم کرا چکا ہوں۔ جب رات کو اس (شاہی) مجلس سے اٹھ کر آتا ہوں تراویح میں مشغول ہوتا ہوں، فقط قرآن مجید کی یہ اعلیٰ دولت، اس پراگندہ حالی میں جو عین جمعیت ہے، حاصل ہوتی ہے۔ الحمدللہ اولاً و آخراً۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
حضرت محمد معصوم رحمتہ اللہ علیہ کا اورنگ زیب عالمگیر کے رتبہ بلند کی تصدیق کرنا

جو کچھ بادشاہ دیں پناہ سلمہ، (اورنگزیب عالمگیر) کے بارے میں مرقوم تھا یعنی "اثرات ذکر در لطائف" حصول سلطان ذکر و رابطہ "قلت خطرات" قبول کلمہ حق" رفع منکرات" اور " ظہور لوازم طلب" یہ سب باتیں واضح ہوئیں۔ شکر خدا بجا لاؤ۔ طبقہ سلاطین میں اس قسم کے امور حکم عنقا رکھتے ہیں۔ حدیث شریف صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے (جس نے میری سنت کو اس کے مردہ ہونے کی صورت میں زندہ کیا، اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا) فقیر دعا و توجہ سے فارغ نہیں۔ بادشاہ کی ظاہری و باطنی صلاحیت کا خواستگار ہوں۔ ان کے باطن کو نسبت اکابر سے معمور پاتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ وہ جلد ہی فنائے قلب کی دولت سے مشرف ہو جائیں گے۔ یہ فنائے قلب درجات ولایت میں درجہ اولیٰ ہے۔
باکریماں کار ہا دشوار نیست​
والسلام اولاً و آخراً​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
علامہ اقبال کی موجودہ نسل کو دعوت ایمان و عمل

خطاب بہ جاوید!
اس مضمون کو نظم کرنے سے کوئی فائدہ تو نہیں، کیونکہ جو کچھ میرے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے وہ الفاظ کے ذریعہ باہر نہیں آتا۔ اگرچہ میں نے سینکڑوں نکتے بغیر کوئی پردہ رکھے ہوئے صاف صاف بیان کر دئیے ہیں مگر ایک نکتہ میرے ذہن میں ایسا ہے جو اس کتاب میں نہیں سماتا۔ اگر میں اسے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے، الفاظ و آواز کا پیرایہ اختیار کرنے سے مفہوم پر اور زیادہ پردے پڑ جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تو میری نگاہ سے اس کے سوز کی حقیقت معلوم کرے یا جو آہیں میں صبح کے وقت بھرتا ہوں ان میں اس حقیقت کا سراغ تلاش کرے۔
××××××​
سب سے پہلا سبق تجھے تیری ماں نے پڑھایا تھا، اسی کی خوشگوار ہواؤں سے تیرے فہم و شعور کا غنچہ کھل کر پھول بنا تھا۔ تیری یہ کیفیات قلب اسی کی نسیم تربیت سے فیض یافتہ ہیں، تیرا وجود ہم دونوں کی متاع گراں مایہ ہے مگر تیری قدر و قیمت جو کچھ ہے وہ ماں کی وجہ سے ہے۔ تو نے اسی کی زبان سے لا الہ الا اللہ کا سبق پڑھا ہے۔ یہ دولت جاوید تو نے اسی سے حاصل کی ہے (اب حصول علم کے بعد) بیٹے! ذوق نظر مجھ سے حاصل کر، لا الہ الا اللہ کی آگ میں جلنا مجھ سے سیکھ۔ لا الہ الا اللہ کو صرف زبان سے ادا کرنا کافی نہیں، تو اپنے دل و جان سے اس کا اعلان کر (کہ سوائے اللہ کے کوئی دوسرا معبود نہیں) تاکہ تیرے جسم سے تیرے قلب کی آواز آنے لگے (اور تیرا ظاہر و باطن ایک ہو جائے)۔ یہ لا الہ الا اللہ کا عشق ایسا ہے کہ چاند اور سورج اسی کی وجہ سے گردش کر رہے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ سوزِ عشق بڑے بڑے پہاڑوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے گھاس کے تنکوں میں موجود ہے، یہ لا الہ الا اللہ کا دو حرفی کلمہ صرف زبان سے ادا کیا ہوا بول نہیں بلکہ ایک بے پناہ تلوار ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں، جس کسی نے لا الہ الا اللہ کے عشق میں زندگی بسر کرنی شروع کردی، اس کی زندگی (کمزور انسانوں جیسی زندگی نہیں رہتی بلکہ) قہاری کی زندگی ہو جاتی ہے، کیونکہ لا الہ الا اللہ کی چوٹ ضرب کاری ہوتی ہے۔
××××××​
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

(یہ عجیب بات ہے کہ) مومن اور دوسروں کے سامنے پٹکا باندھ کر کھڑا ہو، (ان کی غلامی کرے)، (خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت پر) ایمان رکھنے والا اور قوم کا غدار ہو۔ افلاس اور نفاق کی زندگی گزارے (یہ کس طرح ممکن ہے؟) (اس کی حالت تو آج یہ ہے کہ) اس نے دین و ملت کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا ہے، اپنے گھر کی ساری پونجی جلا دی ہے اور خود گھر کو بھی آگ لگا چکا ہے۔ پہلے اس کی نماز میں لا الہ الا اللہ کا عشق ہوتا تھا مگر اب نہیں، پہلے اس کے نیاز عبودیت میں خودی کے ناز بھی ہوا کرتے تھے مگر اب موجود نہیں، اس کے روزے نماز میں وہ پہلے کا سا نور، وہ عشق کی روشنی، اب باقی نہیں رہی، اس کی کائنات میں اب حقیقت کا کوئی جلوہ نظر نہیں آتا۔ یہ وہ مسلمان تھا جس کے لیے زندگی کا سارا ساز و سامان صرف اللہ کی ذات تھی (اب اس کی یہ حالت ہے کہ) مال کی محبت اور موت کا خوف اس کے لیے فتنہ بنا ہوا ہے۔ عشق کی وہ سرمستی اور عمل کا وہ ذوق و سرور، جو اس کی خصوصیات تھیں، اب ختم ہو چکی ہیں، اس کا دین بس کتاب کے اندر رہ گیا ہے اور وہ خود مردوں کی طرح قبر میں دفن ہے۔ موجودہ زمانے کے ساتھ اس کی صحبت رنگ لائی ہے، اب اس نے دو نئی پیغمبروں کی شریعتیں اپنا لی ہیں۔ ان دو پیغمبروں میں سے ایک ایرانی تھا (بہاء اللہ) اور دوسرا ہندوستانی نسل سے تھا (مرزا احمد قادیانی)۔ پہلا حج سے بیگانہ تھا اور دوسرے کو جہاد سے کوئی سروکار نہ تھا۔ جب جہاد اور حج جیسے فرائض واجبات دین میں شامل نہ رہے تو روزے اور نماز کی روح تو سلب ہی ہو گئی۔ جب نماز اور روزے میں کوئی روح باقی نہ رہی تو فرد کی بے راہ روی اور ملت کا انتشار لازمی تھا۔ جب لوگوں کے سینوں میں تعلیمات قرآنی کی گرمی باقی نہ رہی ہو (اور ان کے دل سرد پڑ گئے ہوں) تو ان سے فلاح و بہبود کی امید کیا ہو سکتی ہے؟ مسلمان اپنی شخصیت کی نشوونما سے غافل ہو چکا ہے، اب ایک رہبر کامل کی ضرورت ہے۔ اے خضر مدد کے لیے ہاتھ بڑھا کہ پانی سر سے گزر گیا۔
××××××​
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

مومن کا سجدہ وہ سجدہ تھا جس سے زمین لرز لرز گئی اور جس کی مراد پر چاند اور سورج گردش کرتے رہے ہیں، اگر اس سجدہ کا نشان پتھر پر پڑ جائے تو وہ بھی دھواں بن کر ہوا میں اڑنے لگے مگر اس زمانے میں (جو سجدہ کیا جا رہا ہے) اس کی حیثیت ماتھا ٹیکنے کے سوا اور کچھ نہیں، اس کے اندر بڑھاپے کی کمزوری ہی کمزوری نظر آتی ہے (نماز کے) سجدہ میں جو ربی الا علیٰ (میرا رب سب سے بلند ہے) کہا جاتا ہے اس کا دبدبہ کہاں باقی رہ گیا ہے؟ یہ سجدہ کی خطا ہے یا خود ہمارا قصور ہے؟ (غیروں کو دیکھئے تو ان کا) ہر فرد اپنے مقررہ راستے پر اڑا چلا جا رہا ہے مگر ہماری سانڈنی ہے کہ بے لگام ہو چکی ہے اور فضول ادھر ادھر دوڑ رہی ہے۔ وہ مسلمان جس کی ہدایت کے لیے قرآن اترا تھا، ذوق طلب سے محروم ہو گیا ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے! اس پر جتنا تعجب کیا جائے کم ہے۔
××××××​
اگر خدا تجھے صاحب نظر بنا دے تو اس زمانے کی طرف دیکھ جو چلا آ رہا ہے۔ عقلیں خدا کے خوف سے آزاد ہو گئی ہیں اور دل سوز و گداز سے خالی ہیں، آنکھوں میں شرم و حیا باقی نہیں رہی اور نگاہیں حقیقت کو چھوڑ کر مجاز میں ڈوب گئی ہیں۔ علم اور فن، دین اور سیاست، عقل اور دل، یہ سب کے سب پانی اور مٹی کے ارد گرد چکر کاٹ رہے ہیں (صرف مادہ کو مرکز فکر و عمل بنائے ہوئے ہیں) وہ ایشیا جسے سورج کا وطن پیدائش کہا جاتا ہے، آج دوسروں کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہیں اور اپنے آپ سے پردہ کیے ہوئے ہیں۔ اس کے دل و دماغ میں اب تازہ بہ تازہ خیالات و جذبات پیدا ہی نہیں ہوتے، اب اس فرسودہ پونجی کو جَو کے دو دانوں کے عوض خریدنے کے لیے کوئی تیار نہیں، اس پرانی دنیا میں اس کی زندگی غیر متحرک، خاموش اور برف کی طرح جمی ہوئی ہے اور چلنے پھرنے یا سفر کرنے کا ذوق اس میں مطلق نہیں، اس کی قوت فکر کو اگر ہرن سے تشبیہ دی جائے تو وہ ایک ایسا ہرن ہے جو لنگڑا اور اپاہج ہو چکا ہے اور جسے ملاؤں اور بادشاہوں نے اپنا شکار بنا لیا ہے۔ اس کی عقل، اس کا مذہب، اس کی حکمت و دانش اور اس کے ننگ و ناموس فرنگی حکمرانوں کے شکار بند میں بندھے ہوئے ہیں (وہ جس طرح چاہیں انہیں استعمال کر سکتے ہیں) میں نے اس کے افکار کی دنیا پر ہلہ بول دیا ہے اور اس کے تمام رازوں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اپنے سینہ کے اندر میں نے دل کا خون کر لیا ہے (فکر و نظر کی راہ میں سعی و کاوش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا)، تب کہیں جا کر اس کی دنیا کو دگرگوں کر سکا ہوں۔
××××××​
(جاری ہے)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)

عہد حاضر کے لوگوں کا انداز طبیعت دیکھ کر، میں نے دو طرح کی تصنیفات کی ہیں (جنہیں یہ سمجھنا چاہیے) دو کوزوں میں دو سمندر بن کیے ہیں۔ ایک وہ ہے جو نثر میں منطقیہ دلائل کے ساتھ لکھی گئی ہے اور جس میں فلسفیانہ و متکلمانہ انداز تحریر اختیار کیا گیا ہے (اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل جدید) تاکہ لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ جما سکوں۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں فرنگیوں کے انداز پر تشبیہ و استعارہ اور رمز و کنایہ سے کام لیا گیا ہے، اسے چنگ و رباب کے تاروں سے نکلا ہوا ایک نالہ مستانہ سمجھنا چاہیے۔ پہلی قسم فکر پر اور دوسری ذکر پر مبنی ہے، (اے بیٹے) خدا ایسا کرے کہ تو ان دونوں کا وارث بن جائے، میں ایک نہر ہوں جو ان دونوں سمندروں سے مل کر نکلتی ہے۔ میں نے ان دونوں کو الگ الگ بھی کیا ہے پھر خود ہی ان سمندروں کو ملا بھی دیا ہے (میرا فلسفہ اور میری شاعری دونوں میری شخصیت میں مدغم ہو گئی ہیں) چونکہ میرے زمانہ کا مزاج دوسری طرح کا تھا اس لیے میری طبیعت نے بھی دوسرے ہی انداز میں ہنگامہ برپا کیا ہے۔
××××××​
آج کے نوجوان تشنہ لب ہیں، ان کے دل کا پیالہ شراب عشق سے خالی ہے، چہرے دھلے دھلائے، صاف ستھرے (فیشن کے دل دادہ) مگر جان اندھیروں میں گھری ہوئی ہے، (ایمان کی شمع فروزاں گل ہو چکی ہے)، (بس علوم مغربی سے) دماغ روشن ہیں، نہ (زندگی کے مسائل پر) ان کی نظر ہے، نہ (حقائق کے متعلق انہیں) یقین حاصل ہے، نہ (مستقبل کے بارے میں انہیں کچھ) امید ہے، انہوں نے دنیا میں آنکھ کھول کر کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ ان نا اہلوں کی حالت یہ ہے کہ اپنی خودی سے تو انکار کرتے ہیں اور غیروں پر ایمان لائے ہوئے ہیں (جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ) بت خانہ تعمیر کرنے والا معمار ان کی مٹی سے بنی ہوئی اینٹوں کو اپنی عمارت میں لگا رہا ہے (اغیار اپنی ترقی کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں) ہماری درسگاہوں کو (جن میں یہ نوجوان تعلیم پاتے ہیں) اپنی منزل مقصود ہی کا پتا نہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچنے (اور حقیقی مقصد کی طرف انہیں) متوجہ کرنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا۔ ان درسگاہوں نے نوجوانوں کے دلوں سے فطرت کے نور کو بالکل دھو دیا ہے، ان میں سے ایک طالبعلم بھی ایسا نہیں نکلا جسے (گلشن اسلام کا) گل رعنا کہا جا سکے۔ ہمارا معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دیتا ہے، ہمارے معلمین ابتدا ہی سے شاہین کے بچوں میں بطخوں کی عادتیں پیدا کرتے ہیں۔ علم جب تک زندگی سے سوز و ساز حاصل نہ کرے، اس وقت تک طالب علم کا دل اپنے افکار سے لذت اندوز نہیں ہو سکتا۔ تجھے اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے جو مدارج عالیہ عطا کیے گئے ہیں ان کی تشریح و تفصیل ہی کا نام علم ہے، فطرت کی جو نشانیاں تجھے دی گئی ہیں علم ان کی تفسیر کے سوا اور کیا ہے؟ تجھے پہلے اپنے وجود کو محسوسات کی آگ میں تپانا چاہیے اس کے بعد کہیں تو یہ سمجھ سکے گا کہ تیری چاندی (اسلامی تہذیب) اور غیروں کے تانبے (مغربی تہذیب) میں کیا فرق ہے۔ حقیقت کا علم سب سے پہلے حواس ظاہری کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور اس کا آخری درجہ حضور قلب سے میسر آتا ہے، معرفت حق کا یہ اعلیٰ مقام شعور میں نہیں سما سکتا، اس سے ماورا ہوتا ہے۔
××××××​
(جاری ہے)
 
Top