ہماری صحافت کہاں جا رہی ہے؟

ایسے میں کہ جب ہمارے ملک کو ہمارے قلم اور علم دونو ں کی اشد ضرورت ہے ، شعبہ صحافت کو ’’ ریٹنگ ‘‘ مافیا نے گھیر لیا ہے ۔ نہ ہمیں یہ علم ہے کہ کیا دیکھانا ہے ، کیا چھپانا ہے، کیا چھاپنا ہے اور کیا کہنا ہے ۔ ۔ ۔ ایسے میں کہ جب بیرونی میڈیا ہمیں گھیرے ہوئے ہے اور ہم اپنی ریٹنگ کو روتے نظر آ رہے ہیں۔ آپ بتائیں آپکو کیا لگتا ہے ہماری صحافت کہا ن جا رہی ہے؟
 

نایاب

لائبریرین
زرد صحافت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا پودا سن اکہتر میں نمودار ہوا اور آج اک تناور شجر بن چکا ہے ۔ شفافیت انسانیت سب مفاد کی دھول تلے دب چکی ہے ۔ آج کی صحافت ہمارے وطن کو دیمک کی صورت چمٹی ہوئی ہے ۔آج جو صحافی " منصور " بننے کی کوشش کرے اسے تاریک راہوں میں دار سے نواز دیا جاتا ہے ۔ اور جو کاسہ لیسی خوشامد کرے لفافے اس کا نصیب ۔۔۔۔۔۔۔۔
بطور صحافی آپ کا نظرئیہ کیا ہے ۔؟۔ محترم بھائی
 
نایاب در اصل بات کچھ یوں ہے کہ پودا تو در اصل تب سے ہے جب قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہمارے درمیان ایسے کالم نگار ہیں جو ۔۔ بہر حال میں یہ کہوں گا کہ در اصل واقعہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ساتھ ہی کچھ صحافی ہمارے ملک میں "انسٹال" کر دئیے گئے ۔۔ اور وہ کامیاب رہے کیونکہ ایماندار صحافی جیسا اینٹی وائرس ہمارے پاس انسٹال نہ تھا۔ سو ، رفتہ رفتہ یہ وائرس جو انسٹال ہوا تھا آج فاٹا ، باجوڑ سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا اور پھیلتا جا رہا ہے روز بروز۔
 

فلک شیر

محفلین
پیشگی معذرت قبول کیجیے، کہ یہ بالائی درجہ کی صحافت کا ہی حال نہیں ہے، گراس روٹس پہ اس سے بھی برا حال ہے شاید۔ معمولی تعلیم یافتہ لوگ قصبات اور مضافات میں اسے ثانوی ذریعہ آمدن اور "ٹہکے" کے طور پہ استعمال کرتے ہیں ۔ طے شدہ وقت کے بعد مقامی سیاستدانوں کے خود ساختہ بیانات چھاپے جاتے ہیں ، جس کے عوض ششماہی یا سالانہ سپلیمنٹ کے موقع پہ ان کی "خدمات" سے فائدہ اٹھایا جاتاہے۔ صحافی ، تجزیہ کار، کالم نگار یا مبصر کا کسی نظریے سے تعلق ہونا ایک فطری امر ہے، لیکن اس کا اس کی پیشہ ورانہ دیانت پہ اثر نہ ہونا یا کم ازکم دکھائی نہ دینا مفقود ہے قریب قریب۔
مختلف تقریبات میں مجھے صحافی حضرات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے، کہ معاشرے میں موجود اجتماعی زوال کا عکس اس شعبے کے متعلقین پہ بھی بڑا گہرا دکھائی دیتا ہے۔
دیو مالائی کردار اب کون ڈھونڈا کرے ، لیکن ایک حدِ فاصل تو ضرور ہونا چاہیے ایسے مقدس پیشہ کے لوگوں کے لیے ........کوئی حد
 
بالکل درست فرمایا فلک شیر بھائی ۔ مگر یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ شعبہ صحافت کی تاریخ میں آج سے نہیں چالیس سال پہلے بھی یہ عالم رہا کہ کم پڑھے لکھے افراد یہاں کالم نگار تک رہے اور اچھے اچھے اخباروں میں رہے مگر بات یہ تھی کہ بیشک وہ کم تعلیم یافتہ لوگ تھے مگر ان میں ’’ پیشہ ورانہ ‘‘ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں۔ آج ٹی وی پر چڑھ بیٹھی انیس بیس سال کی عمر کی لڑکیا ں لڑکے جن کا اُرد و کا تلفظ تک درست نہیں ہوتا وہ انٹرویو اور ملکی سیاست جیسے نازک موضوع پر گفتگو بلکہ باقاعدہ رٹی رٹائی بحث کرتی دکھائی دیتے ہیں۔ رہی بات روٹس کی تو حد تو یہ ہے کہ میرے مشاہدے کے مطابق 40فیصد لوگ پیسے دیکر مختلف چھوٹے جرائم کی پاداش میں پکڑے جانے کے ڈر سے مقامی جریدوں کے ’’پریس کارڈ ‘‘ حاصل کر لیتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ صحافی صاحب کا اپنا منی سینما گھر ہے جہاں اسے پولیس تنگ کرتی تھی۔ اور اخبار ہذا کا ایڈیٹر بھی اسی قدر تعلیم یافتہ ہوتاہے اور اس کےلئے یہ کام ذریعہ معاش کے سوا کچھ معنی نہین رکھتا۔
 

فلک شیر

محفلین
بالکل درست فرمایا فلک شیر بھائی ۔ مگر یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ شعبہ صحافت کی تاریخ میں آج سے نہیں چالیس سال پہلے بھی یہ عالم رہا کہ کم پڑھے لکھے افراد یہاں کالم نگار تک رہے اور اچھے اچھے اخباروں میں رہے مگر بات یہ تھی کہ بیشک وہ کم تعلیم یافتہ لوگ تھے مگر ان میں ’’ پیشہ ورانہ ‘‘ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں۔ آج ٹی وی پر چڑھ بیٹھی انیس بیس سال کی عمر کی لڑکیا ں لڑکے جن کا اُرد و کا تلفظ تک درست نہیں ہوتا وہ انٹرویو اور ملکی سیاست جیسے نازک موضوع پر گفتگو بلکہ باقاعدہ رٹی رٹائی بحث کرتی دکھائی دیتے ہیں۔ رہی بات روٹس کی تو حد تو یہ ہے کہ میرے مشاہدے کے مطابق 40فیصد لوگ پیسے دیکر مختلف چھوٹے جرائم کی پاداش میں پکڑے جانے کے ڈر سے مقامی جریدوں کے ’’پریس کارڈ ‘‘ حاصل کر لیتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ صحافی صاحب کا اپنا منی سینما گھر ہے جہاں اسے پولیس تنگ کرتی تھی۔ اور اخبار ہذا کا ایڈیٹر بھی اسی قدر تعلیم یافتہ ہوتاہے اور اس کےلئے یہ کام ذریعہ معاش کے سوا کچھ معنی نہین رکھتا۔
"پیشہ ورانہ" صلاحیتیں تو بقول اسداللہ خاں ،اِن خوبرویوں میں بھی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہیں :)
رہا تلفظ ........... تو یہ انتہائی تکلیف دہ مسئلہ ہے، شک نہیں ۔
ایڈیٹر ہٰذا کے کمالات عموما ََ اسی قبیل کے ہوتے ہیں :)
 

arifkarim

معطل
آج ٹی وی پر چڑھ بیٹھی انیس بیس سال کی عمر کی لڑکیا ں لڑکے جن کا اُرد و کا تلفظ تک درست نہیں ہوتا وہ انٹرویو اور ملکی سیاست جیسے نازک موضوع پر گفتگو بلکہ باقاعدہ رٹی رٹائی بحث کرتی دکھائی دیتے ہیں۔

درست! ظاہر ہے اصل مقصد پروگرام کی ریٹنگ کی ہے نہ کہ اسکا مواد!
 
Top