ہمارا ممکنہ ڈیگال کون ہے؟ - نصرت جاوید

ہمارا ممکنہ ڈیگال کون ہے؟ - نصرت جاوید
وزن کم کرنے اور رنگ گورا کردینے والی مصنوعات بنانے والوں کی طرف سے جاری کئے وہ اشتہارات تو آپ کو یاد ہوں گے جن میں مرد یا خواتین ماڈلز کی دو تصاویر ہوتی ہیں۔ ان تصاویر کے ذریعے ایسی مصنوعات کے استعمال سے پہلے اور استعمال کے بعد ’’نمایاں‘‘ نظر آنے والے فرق کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ ہمارے میڈیا کے چند بہت ہی معتبر نام ان دنوں دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف برپا جنگ کے حوالے سے کچھ ایسی ہی تصاویر تخلیق کرتے نظر آرہے ہیں۔
کئی برسوں سے ہمارے آزاد، مستعد اور ہمہ وقت چوکس ہونے کے دعوے دار میڈیا کی طرف سے فروغ پائی سیاپا فروشی کے شوروغوغا میں امید کی جوت جگاتی ایسی کاوشوں کا ہر اس شخص کو خیرمقدم کرنا چاہیے جس نے اپنا جینا مرنا اسی دھرتی سے وابستہ کررکھا ہے۔ میں اپنا شمار بھی ایسے لوگوں میں کرتاہوں۔ ذاتی مصیبتوں اور پریشانیوں کی شدت کے ایام میں بھی کبھی ایک لمحہ ایسا نہیں آیا جب میں نے اپنے عوام کی اجتماعی بصیرت پر اعتبار کھویاہو۔
دودھ سے بارہا جلا اور سانپ سے اکثر ڈسا میرا ذہن مگر اس وقت پریشان ہوجاتا ہے جب دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جاری جنگ کی ساری کامیابیاں صرف ایک ایسے ’’دیدہ ور‘‘ کے طفیل ہوتی بتائی جاتی ہیں جس کا یہ بے نور قوم ہزاروں سال سے انتظار کررہی تھی۔ بات صرف ’’دیدہ ور‘‘ کی دادو تحسین تک محدود رہے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ دل گھبراجاتا ہے تو اس وقت جب حقارت بھری رعونت کے ساتھ جمہوری نظام اور اس کے محافظ بنے لکھاریوں کو نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کا خدمت گزار قصیدہ گو ٹھہرادیا جاتا ہے۔
موقعہ پرست خدمت گزاروں کی خدمت کے بعد اصرار شروع ہوجاتا ہے پاکستان کے موجودہ آئینی نظام کو قطعاََ رد کردینے پر پھر ضد کی جاتی ہے ایک ایسا صدر پاکستان متعارف کروانے کے لئے ’’جو قومی سلامتی کے لئے ضروری ٹھہرے ہر فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا مکمل اختیار رکھتا ہوں‘‘۔
ہمیں تواتر کے ساتھ خبردار کیا جارہا ہے کہ موجودہ آئینی نظام سے چھٹکارا پاکر ایک بااختیار صدر نہ لایا گیا تو وطن عزیز کے اُفق پر ابھرتی امید بھری خبریں عارضی ثابت ہوں گی۔ ایسی خبروں کو دوام بخشنا ہے جو موجودہ آئینی انتظام سے فی الفور جان چھڑا دے۔ ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے ذریعے پوری دنیا میں جمہوری نظام کو متعارف کروانے والے فرانس نے بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے ملک میں پھیلی افراتفری کے خاتمے کے لئے ڈیگال کی صورت ایسا ہی صدر دریافت کیا تھا۔ ہم فرانس کے لوگوں سے زیادہ پڑھے لکھے یا انسانی حقوق کے علمبردار تو نہیں اور یہ بات تو مجھے کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارا ممکنہ ’’ڈیگال‘‘ کسے بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔
وطن عزیز کے اُفق پر اُمید کی جوت جگاتی خبروں پر شاداں ہمارے میڈیا کے چند معتبر نام خوشی سے سرشار ہوئے چند بنیادی حقائق کو قطعاََ نظرانداز کردیتے ہیں۔ اپنی تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود یہ پاکستان کا ’’آزاد‘‘ میڈیا ہی تھا جس نے کراچی کے حالات پر مسلسل نظر رکھتے ہوئے امن وامان کی بحالی کی فضاء بنائی۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں دہشت گردی سے ہونے والی تباہیوں کے مناظرنے بھی ریاست کو اپنی طاقت کابھرپور استعمال کرنے کی ضرورت محسوس کرنے پر مجبور کیا۔
اب چاہے ’’پیش قدمی‘‘ کسی طرف سے بھی ہوئی ہو مکمل حقیقت یہ بھی ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور والے واقعے کے بعد ہمارے ’’بدعنوان اور نااہل‘‘ ٹھہراے سیاستدان۔ خواہ ’’بددلی‘‘ ہی سے۔ اپنے شدید باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک قومی ایکشن پلان کو اتفاق رائے سے اپنانے پر مجبور ہوئے۔ اس اتفاق رائے کی بدولت ’’گلے سڑے ناکارہ آئین‘‘ کے ذریعے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر معمولی اختیارات دئیے گئے۔ یہ اختیارات اگر ان ذرائع سے مہیا نہ کئے گئے ہوتے تو آج الطاف حسین واویلا مچاتے مکمل تنہاء نظر نہ آتے۔ ان کا ساتھ دینے کو ان کے بدترین سیاسی دشمن بھی فوراََ تیار ہوجاتے۔ الطاف حسین کو چند اور سیاسی جماعتوں کی حمایت مل جاتی تو دنیا کو عالمی میڈیا کے ذریعے پاکستان کی صورت حال شاید معمول کے مطابق نظر نہ آتی۔
قصہ مختصر دہشت گردی اور کرپشن سے نبردآزما ہونے کے لئے جو بندوبست ڈھونڈا گیا ہے وہ اپنی تمام تر سست روی کے باوجود امید بھری خبروں کو جنم دیتا نظر آرہا ہے۔ اس بندوبست کو کرکٹ کی اصطلاح میں ایک لمبی اننگز کھیلنے کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔ اسے T-20 کی صورت دے کر کریز سے باہر آکر چوکے چھکے لگانے کی کوشش ہوئی تو امید بھری خبریں ملنا رک جائیں گی۔
سب کو ساتھ ملاکر قوم کی اجتماعی بصیرت کے بھرپور استعمال کے ساتھ لمبی اننگز کھیلنے کی ضرورت کو سمجھنا ہو تو ذرا یہ بھی یاد کرلیجئے کہ اچھی خبروں کے اسی موسم میں ایک بہت بری خبر بھی آئی ہے۔ یہ خبر صرف ملاعمر کی موت سے متعلق ہی نہیں۔ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر سوال یہ بھی ہے کہ ان کی موت کی خبر دو سال بعد منظر عام پر کیوں آئی۔ اس خبر کو عین اس وقت کیوں اور کس نے طشت ازبام کیا جب پاکستان کے پُرفضا شہر مری کے ایک گالف کلب میں افغان طالبان اوروہاں کی حکومت کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور شروع ہونے والا تھا۔ وہ دور تو شروع نہ ہوسکا۔ مگر بحث اب یہ شروع ہوگئی ہے کہ ملاعمر کا انتقال کہاں اور کن حالات میں ہوا۔ ان سوالات کا قطعی جواب تو شاید میسر نہ ہوپائے مگر ان سوالات کی تکرار اور شدت افغان طالبان کو ایک دوسرے پر بندوقیں تان لینے پر مجبور کردے گی۔ طالبان کے باہمی اختلافات سے داعش جیسی کوئی نئی قوتیں بھی جنم لے سکتی ہیں جو صرف افغانستان ہی کو نہیں اس سے ملحقہ ہمارے قبائلی علاقوں اور بعدازاں ہمارے شہروں میں ابھی تک کونے کھدروں میں دبکے حواس باختہ Sleepers Cellکو متحرک کرکے ہیجان وبحران کی کئی نئی کیفیتیں پیدا کرسکتی ہیں۔
پاکستان خدا کے فضل سے ایک مؤثر اور منظم عسکری ادارے اور چاہے گلے سڑے آئینی نظام ہی کے ذریعے قائم کمزور اور ناکارہ دکھتے منتخب ایوانوں کی بدولت اس ابتری سے اب تک محفوظ رہا ہے جس نے صومالیہ، عراق، یمن، شام اور لیبیا جیسے ملکوں کو ایک دوسرے کی جانوں کے درپے گروہوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ ایسے حالات میں ریاست کے سب سے منظم اور طاقتور ادارے کو اس ملک کی ’’نااہل اور بدعنوان‘‘ سیاسی قیادت کے خلاف اُکسانے کی کوششیں خواہ کتنے ہی نیک مقصد سے کیوں نہ ہوں، محض آرام دہ گھروں میں بیٹھ کر بقراطی بگھارنے والوں کو ماردھار بھرپور Reality Televisionہی فراہم کرسکتی ہیں۔ اچھی خبریں ہرگز نہیں۔ خدارا ضبط سے کام لیجئے۔ برا بھلا جو بندوبست نصیب ہوا ہے اسے برقرار رہنے دیجئے۔ رحم فرمائیے۔رحم۔
 
میں نے سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک پر دیکھا ہے کہ آج کل کچھ لوگ پاکستان میں ہونے والے ہر اچھے کام کا کریڈٹ جنرل راحیل کو اور ہر برے کام کا ذمہ دار حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ پراپیگنڈا مہم ہے جو موجود حکومت کو کسی بھی اچھائی کا کریڈٹ لینے سے روکنے کے لئے چلائی جا رہی ہے۔ اور بالواسطہ ملک میں فوجی اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لئے چلائی جا رہی ہے۔
 
جنرل صاحب ذرا بچ کے!
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
150515165748_pakistan_army_chief_raheel_sharif_640x360_afp_nocredit.jpg

جیسے ہی ہوش سنبھالا دادی نے پہلی کہانی سنائی: ’بہت دنوں کی بات ہے کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔۔۔‘
جب حرف پہچاننے لگا تو بچوں کے رسالے میں پہلی ہی کہانی یہ پڑھی: ’ایک دفعہ کا ذکر ہے ایران پر ایک عادل بادشاہ کی حکمرانی تھی۔۔۔‘
مسجد میں ابا کے ساتھ پہلا قدم رکھا تو منبر پر بیٹھے مولوی صاحب کا یہ جملہ سب سے پہلے کانوں سے ٹکرایا: ’بے شک وہ سات آسمانوں اور سات زمینوں کا شہنشاہ کہ جس کے سامنے اس جہان کے تمام بادشاہ سجدہ ریز ہیں۔۔۔‘
ماں کو جب لاڈ آتا تو کہتی: ’تم تو میرے شہزادے ہو ۔۔۔‘ محلے میں کوئی بابا کوئی عجیب و غریب بات کرتا تو فوراً کوئی نوجوان لقمہ دیتا: ’بزرگو تسی وی نرے بادشاہ ہو ۔۔۔‘ کسی کی سخاوت یا فضول خرچی کا ذکر مقصود ہوتا تو یہ سننے کو ملتا: ’اس کا کیا پوچھتے ہو میاں اس نے تو بادشاہوں والی طبیعت پائی ہے۔‘
کیا ہمارے آدھے سے زائد لطائف بادشاہوں اور درباروں سے منسوب نہیں؟ ہمارے روزمرہ میں کیا شاہ و گدا، شہ کا مصاحب، شہ مات، امیرِ شہر، شاہ پرست، شاہی ٹکڑے، شاہی مرغ چھولے، شاہی باورچی، معجونِ شاہی، شاہی بازار، شاہی محلہ، استبدادِ شاہی، شاہی غیظ و غضب، بادشاہی مسجد، عالی جاہ، حضور والا، جہاں پناہ، سلطان، مغلئی دستر خوان، مغلئی تال، مغل بچے کا لاکھوں بار تذکرہ نہیں ملتا؟
بادشاہت کہاں ختم ہوئی؟ وہ تو عام آدمی کی نس نس میں منتقل ہو چکی ہے۔ نظام کوئی سا بھی لے آئیے بادشاہ کی تلاش جاری رہتی ہے۔۔۔ ایسا نجات دھندہ جو آنا فاناً سب ٹھیک کر دے ۔اوپر نیچے دائیں بائیں کہیں سے بھی آئے مگر آ جائے ۔۔۔
عمومی رویہ یہ ہے کہ جس کے پاس ذرا سا بھی اختیار ہے، وہ اپنی زات میں بادشاہ ہے ۔ پٹواری سے صدرِ مملکت تک سب کو چیک کر لیں۔سردار چھوٹا ہو کہ بڑا ، زمیندار ادنیٰ ہو کہ اعلیٰ ، تھانیدار سے سپاہی تک، جنرل سے حوالدار تک، مالک سے مزدور تک۔ بس موقع ملنے کی دیر ہے کہ اندر سے ایک بادشاہ برآمد ہو جاتا ہے۔ کون سی ایسی جماعت ہے جس کا لیڈر اپنے قول و فعل میں بادشاہ نہ ہو؟ کسی کا کہیں بس نہ چلے تو گھر کے اندر ہی شوقِ حکمرانی جھاڑ لیتا ہے۔
ان حالات میں جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق سراسر خسارے کا سودا اور خوشامد سکہ رائج الوقت ہے۔ طبیعت کی مطلق العنانی جتنی بھی سفاک ہو خوشامد کے آگے ریت کا ڈھیر ہے۔
مگر یہ راز ہر بادشاہ صرف چاروں شانے چت ہونے کے بعد ہی جان پاتا ہے کہ خوشامد وہ حسینہ ہے جس کے شہوت انگیز ہونٹوں میں صرف زہر بھرا ہے۔ خوشامد اچھے بھلے انسان کو وہ روایتی کوا بنا دیتی ہے جو لومڑی کو گانا سناتے سناتے اپنا نوالہ بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ خوشامد وہ لباس ہے جسے جولاہے کے روپ میں آنے والے ٹھگ بادشاہ کو زیبِ تن کروا کے اس کا عریاں جلوس نکلوا دیتے ہیں۔
انگریز کس قدر اصول پسند مشہور تھا۔ مگر ہوا کیا؟ خوشامدیوں نے خطابات، زمینیں اور عہدے پائے اور غیر خوشامدیوں کے حصے میں پھانسی کا پھندا اور کالے پانی کی سزا آئی۔ تقسیم سے پہلے ایک جلسہِ عام میں کسی جوشیلے نے قائدِ اعظم شہنشاہِ اعظم کا نعرہ لگایا تو جناح صاحب نے خطاب روک کے وہ ڈانٹ پلائی کہ اس کے بعد کسی نے جناح صاحب کو بادشاہ کا خطاب دینے کی جرات نہیں کی۔( لیکن جناح صاحب کے اس رویے کو عمومی رویہ نہیں کہا جاسکتا)۔
کیا جواں سال بھٹو نے سکندر مرزا کو محسنِ پاکستان قرار دیتے ہوئے تاریخ میں جناح صاحب سے اوپر کا مقام الاٹ ہونے کی نوید نہیں سنائی تھی؟ اور مرزا کا بستر گول ہوتے ہی اسی الاٹمنٹ آرڈر پر ایوب خان کا نام چسپاں نہیں کیا تھا؟ کیا ایوب خان سے چوہدری خلیق الزماں نے دائمی صدر اور پیر علی محمد راشدی نے شہنشاہِ پاکستان بننے کی درخواست نہیں کی تھی؟ اور جب ایوب خان واقعی ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں بھاری عوامی پتھر سے ٹکرا کر منہ کے بل گرے تو کوئی خلیق الزماں یا راشدی کہیں آس پاس کسی نے دیکھا؟
141003111456_bhutto_640x360_hultonarchive.jpg

فخرِ ایشیا، علی کی تلوار، تیسری دنیا کے بے مثال رہنما اور مولانا کوثر نیازی کے ’دیدہ ور‘ کے ساتھ کیا ہوا۔ ملتان گیریزن میں بھٹو کا شاہی استقبال کرنے والے کور کمانڈر ضیا الحق نے دورویہ افسر کھڑے کر کے ایسی والہانہ تالیاں بجوائیں مدبرِ اعظم چپر غٹو ہو گئے اور اپنے ہی ہاتھ سے اپنے انجام پر دستخط کر دیے۔
خود ’امیر الومنین ضیا الحق ‘ کے کتنے چھاتہ بردار ان کی برسی پر اکٹھے ہوتے ہیں؟ اپنے وقت کے شیرِ پنجاب غلام مصطفی کھر آج کہاں ہیں؟ ’دیکھو دیکھو شیر آیا‘ سن کے نواز شریف آج بھی سرور میں آ جاتے ہیں اور دہلی تا پالم بچ جانے والی سلطنت کا دکھ بھی بھول جاتے ہیں۔
کیا یاد نہیں کہ پاکستانی اتاترک پرویز مشرف کو گجرات کے چوہدری برادران بیس بار باوردی صدر منتخب کروا رہے تھے۔ آج یہ اتاترک ہر ٹی وی چینل کی رونق بننے کو تیار ہے۔ محسنِ پاکستان قدیر خان کا کیسا غلغلہ تھا؟ مگر وقت کے ہاتھوں وہ بس ایک ہفتہ وار کالمسٹ رہ گئے۔ ’کون بچائے گا پاکستان عمران خان عمران خان ‘کے نعرے نے خان صاحب کو کنٹینر پر تو چڑھا دیا مگر اترنا انھیں خود ہی پڑا۔ اور ابھی دو برس پہلے تک کیا ایک زرداری سب پے بھاری نہیں تھا؟
تازہ محاصرہ جنرل راحیل شریف کا ہو چکا ہے اور پوری کوشش ہے کہ ان کی توجہ اصل کام سے ہٹا کر مردِ آہن، نجات دہندۂ پاکستان اور نپولینِ عصر کے غلغلے میں اس عجائب گھر تک پہنچا دیا جائے جہاں بے شمار اکبرِ اعظموں کی تصاویر پر مالا لٹک رہی ہے۔ دعا ہے جنرل صاحب پیشہ ور پاپوش برداروں کے ہجوم اور ہر طاقت ور کی بگھی کے سامنے ناچنے والے جدی پشتی رقاصوں کے طائفے سے بچ بچا کر ’ضربِ عضب‘ سے بھی کڑی ’خوشامدانہ پلِ صراط‘ کو کامیابی سے پار کر جائیں۔
ورنہ تو جس نے ان ہلکوں کو ہلکا لیا وہ خود ہلکان ہو کر گیا۔۔۔
 
Top