ہمارا معاشرہ

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وصلم نے ایمان کے مختلف درجے بتلائیں ہے جس میں سے آخری درجہ یہ ہے کہ انسان برائی کو کم از کم دل سے برا سمجھے۔ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم مسلمان عمومی طور پر ایمان کے اس آخری درجے سے بھی کہیں نیچے جا چکے ہیں۔ اپنے اپنے مفادات کی خاطر ہم برائی کو اکثر اچھائی پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی عام مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں مثلا اگر کسی محلے میں کوئی مالدار یا صاحب حیثیت شخص، رشوت خور بھی ہے یا اس سے بھی زیادہ کسی اور برائی مثلا زنا کاری میں مبتلا ہے تو بھی لوگ کبھی اس کی حرام کی کمائی سے فائدہ اٹھانے کی خاطر یا کبھی اس کے اثرورسوخ کے ذریعے اپنے جائز نا جائز کام کروانے کی خاطر اس کی ناصرف یہ کہ عزت کرتے ہیں بلکہ مسیحا سمجھتے ہیں اور اگر انتخابات میں ایسا شخص امیدوار کے طور پر کھڑا ہو تو عام طور پر لوگ ووٹ کے ذریعے اسے ہی اپنا نمائند ہ منتخب کرتے ہیں حتی کہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ایسے بد کردار لوگوں کو بعض جگہ پر مسجد کی انتظامیہ میں نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے تاکہ ان کے ڈر سے عام نمازی مسجد کے انتظامی معاملات میں مداخلت نہ کر سکیں۔اس کے برعکس ایک ایماندار کم حیثیت شخص، ہمارے نزدیک عزت و احترام کا مستحق نہیں کیونکہ شاید ہمیں اس سے کوئی دنیاوی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا اور یہ ہم لوگوں کا عمومی رویہ ہے اس میں ہم سب شامل ہیں حتی کے دین دار طبقہ بھی۔ ہم لوگ امراء کے ساتھ تو خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں اور فقراء کے ساتھ سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہیں۔اب ایک واقعہ سنیے اور سر دھنیے، سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ کھانا کھارہے تھے وہاں کوئی بھنگی ( جمعدار ) آگیا شاہ جی نے اسے کھانے کو کہا اسنے کہا میں تو بھنگی ہوں آپ نے فرمایا کہ انسان تو ہو آپ نے اپنے ہاتھ سے اسکے منہ میں آلو دیا اسنے آدھا کھایا تو باقی شاہ جی نے کھالیا۔ اُسے پانی پلایا اُسکا جھوٹا پانی خود پی لیا پھر وہ چلاگیا۔اس خوش اخلاقی کی وجہ سے شام کو وہ شخص اپنے اہلخانہ کے ساتھ آیا اور شاہ جی کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا۔ اکابرین کا یہ رویہ تو غیر مسلموں کے ساتھ ہے اور آج ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہیں؟ ہمارے نزدیک عزت و احترام کا کیا معیار ہے؟ اس کی جھلک ہمیں روزانہ مختلف ذرائع ابلاغ سے ملتی رہتی ہے۔ ایک انتہائی کرپٹ وزیر اعظم، یوسف رضا گیلانی کی نااہلی ابھی کل کی بات ہے، حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے ایسے نااہل لوگوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس کے برعکس اپنے غریب ملازموں پر کتے چھوڑنے کے متعدد واقعات ہم نے پڑھے اور سنے ہیں لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی نے ایسے غریبوں کی حمایت میں احتجاج کیا ہو بلکہ ایسے موقع پر جہاں دنیاوی فائدہ نظر نہ آرہا ہو وہاں نام نہاد سول سوسائٹی کے لوگوں کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے۔ہم عام طور پراصحاب اقتدار کے بارے میں شکوہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں لیکن اپنے رویوں پر غور کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ حکمرانوں کی رشوت خوری اور حرام خوری تو ہمیں نظرآجاتی ہے لیکن اپنی اپنی حیثیت میں ہم لوگ جو کارنامے انجام دیتے ہیں اس کو اور کوئی نہیں تو اللہ تعالی تو دیکھ ہی رہے ہیں۔ اس دیکھے جانے کا خوف ہمارے دلوں سے بالکل ہی ختم ہوتا جارہا ہے اسی لیےہر شخص خواہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو حتی کے ایک ریڑھی والا بھی، جہاں اس کا بس چلتا ہے داو لگاتا ہے اور حرام کی کمائی کو قصدا یا سہوا اپنے لیے جائز سمجھتا ہے بلکہ حق سمجھتا ہے۔ حرام مال کو ہی جب لوگ جائز اور حق سمجھنے لگیں تو ایسے معاشرے میں رشوت، اقربا پروری ، جھوٹ اور ظلم کو سہولت کا نام دے دیا جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اپنا جائز حق لینے یا جائز کام کروانے کے لیے ہمیں یا تو رشوت دینی پڑتی ہے یا پھر کوئی نہ کوئی سفارش۔ مثال کےطور پر ہسپتالوں کا یہ حال ہے کہ جب تک آپ انتظامی عملے کی مٹھی گرم نہیں کرتے ان کا رویہ مریض اور اس کے لواحقین سے انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے اور ڈاکٹر حضرات بھی صرف سفارشی مریضوں پر ہی توجہ دینے کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ یہ تو ایک جھلک ہے ورنہ اس بدبودار معاشرے میں وہ کچھ ہوتا ہے جس کے خیال سے ہی د ماغ کی رگیں پھٹنے لگتی ہیں۔اکثر لوگ مغربی معاشروں کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہاں پر انتظامی معاملات اور اخلاقیات کا معیار ہماری نسبت بہت بہتر ہے۔ گذارش یہ ہے کہ جن روایات پر وہ لوگ عمل کرکے اپنے معاشروں کو بہتر بنا سکے ہیں وہ ان کی اپنی اختراع یا ایجاد نہیں بلکہ انھوں نے یہ چیزیں اسلام سے ہی اخذ کی ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اپنی ہی گمشدہ میراث کو غیروں کے ہاں دیکھ کر رشک کرتے ہیں۔ انھی مغربی معاشروں کی تاریخ اٹھاکر دیکھیے آپ کو ایسی درندگی اور بربریت نظرآئے گی کہ الامان والحفیظ ۔ افسوس کے مغرب جن رویوں کی ناکامی کے بعد اسلامی طرز پر معاملات کو اپنا کر بہتر معاشرہ پیش کرتا ہے ، ہم مسلمان آج انھی ناکام رویوں پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔خیر اس ساری صورتحال کو جو کہ تقریبا ہم سب کو معلوم ہے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فرد معاشرے کی اکائی ہے، افراد مل کر معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ سو فیصد اچھے افراد پر مشتمل معاشرہ تو آئڈیل ہے لیکن جس معاشرے میں اچھے افراد زیادہ ہوں وہ ایک اچھا اور جہاں برے زیادہ ہوں وہ برا کہلائے گا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے معاشرے میں اچھے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور اس کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے، امر بالمعرف ونہی عن المنکر۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں امر بالمعروف کرنے والے کو ہی لوگ نقصان پہنچانے کے در پر ہوتے ہیں ، نہی عن منکر کرنے والوں کا تو اللہ ہی حافظ۔ ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اس پاکیزہ عمل کو چھوڑ دیں بلکہ جس حد تک ہم اس پر عمل کرسکتے ہیں کرتے رہیں ، کم از کم ایمان کے آخری درجے میں تو اس پر ضرور عمل کریں، برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھائی سمجھیں، اچھے عناصر کی حوصلہ افزائی کریں، اپنے قریبی رشتہ داروں ، کم از کم اپنی اولاد کو اچھے اعمال اور اچھے اخلاق کی تربیت دیں اور حتی المکان کوشش کریں کے معاشرے میں برائی کی حوصلہ شکنی ہو۔ مثال کے طور پر اگرمحلے میں دو دکاندار ہیں ایک سے ہماری دوستی ہے لیکن وہ جھوٹا ہے اور ملاوٹ کرتا ہے، چاہے وہ ہمیں کم قیمت پر صحیح سودا بھی دیتا ہو تب بھی اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اس کے بالمقابل دوسری جگہ سے چاہے قدرے مہنگی اشیاء خریدنی پڑیں اگر وہ دوکاندار ایماندار ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر دونوں ہی ایک جیسے ہوں تو موازنہ کریں اور کم برے کو زیادہ برے پر ترجیح دیں۔ اس طرح ہم اپنے طرزعمل سے بیک وقت امر بالمعرف بھی کررہیں ہوگے اور نہی عن المنکر بھی۔ اللہ تعالی سمجھ عطا فرمائیں اور اپنی حیثیت، قوت اور طاقت کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔
مضمون بشکریہ
http://mazeemdin.blogspot.com/
 
Top